گذشتہ کل ڈی جی خان انفارمیشن آ فس سے جاری ہو نے والی ایک تصویر نے مجھے بڑا حیران کر دیا ۔ تصویر میں حال ہی میں نئے تعینات ہو نے والے کمشنر نسیم صادق اپنے دیگر افسران کے ہمراہ ایک کچرے کے ڈھیر پر کھڑے کوڑے کے ڈمپنگ پواءینٹ کا معا ئنہ کر رہے ہیں ۔ زیر نظر تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ صاحب اور افسران کس تسلی اور تو جہ کے ساتھ ڈسکشن میں مصروف ہیں ۔
مجھے صحافت کرتے ہو ءے نصف صدی ہو نے کو ہو گئے ہیں خدا جھوٹ نہ بلواءے ان گذرے سا لوں میں کسی صاحب اختیار و اقتدار کی ایسی تصویر نظر سے نہیں گذری ۔ ہاں گذرے دور میں سیلاب اور بارشوں کے ساتھ اپنے خادم اعلی ترچھی ٹوپی اور لانگ بوٹ پہنے عوام کے ساتھ کھڑے ضرور نظر آ یا کرتے تھے لیکن اب مو جودہ تبدیلی سرکار کے دور میں یہ تصویریں بھی عنقا ہو گئی ہیں ۔۔
کمشنر نسیم صادق اس سے قبل ملتان میں تعینات رہے ۔ اس زمانے میں خواہش کے با وجود ان سے نہیں مل سکا ۔ ملنے کی خواہش اس لئے تھی کہ ان کے بارے ملتا نی ایسے ایسے قصے سنایا کرتے تھے کہ لگتا تھا کہ نسیم صادق ہماری روائتی بیورو کریسی کا ایک افسر ہو نے کی بجاءے کسی اور دنیا کی مخلوق ہیں جو اللہ کے عام انسا نوں کو ان کے معززانسان ہو نے کا احساس دلانے کا فریضہ نبھا نے کے لئے آءے ہیں ۔
کچرے کے ڈھیر ہماری معاشرتی زند گی کا ایک اہم جزو بن چکے ہیں وہ اس لئے کہ ہمارے سماج میں انسان کچحرے کے ڈھیروں میں بنی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں ، کچحرے کے ڈھیروں سے خوراک تلاش کر کے اپنے پا پی پیٹ کی بھوک مٹا تے ہیں ، چھوٹے چھوٹے معصوم بچے ان کچرا ڈھیروں سے کا غذ چن کر اہنی دہاڑی بناتے ہیں ۔ لیکن کتنے با اختیار لوگ ہیں جو ان کچرے کے ڈھیروں اور ان ڈھیروں سے وابستہ انسانوں کی زند گی ، بحالی اور خوشحالی کے لئے سو چتے ہیں کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ہمارا آئین وطن عزیز میں رہنے والے ایسے کروڑوں انسا نوں کے حقوق بارے کیا کہتا ہے ، سبھی بے خبر ہیں
گذ شتہ دنوں میں نے کچحروں کے ڈھیر سے کاغذ چنتے ننھے معصوم سے بچوں سے پو چھا کہ بیٹے تم سکول کیوں نہیں جاتے ۔ چار بچوں میں تین تو میرا یہ سوال سن کر خالی نظروں سے مجھے دیکھتے رہے لیکن ایک جو سب سے چھوٹا تھا کندھے اچکاتے ہو ءے کہنے لگا” ساڈا جمنا کوئی نہیں ”
برتھ سر ٹیفکیٹ کو سرا ئیکی میں جمنا کہتے ہیں ۔ بچے کی یہ بات سن کر میں نے سو چا کہ سچ ہے جب کسی بچے کا جمنا ہی نہیں ہو گا تو اس کا اسکول میں دا خلہ کیسے ہو گا ؟ اور اس سے بھی آ گے کا تلخ سچ یہ ہے کہ کچرے کے ڈھیر سے کاغذ چننے والے بچوں کا جمنا کیسے بن سکتا جب ان کے ماں باپ ہی قومی شناختی کارڈ سے محروم ہیں ۔
ہماری ہاں کی حسین جمہوریت کے ایوانوں میں بد یسی مہاجرین کی رجسٹریشن ،آباد کاری ، امداد و بحالی کے معاملات تو آئے دن ڈسکس ہو تے ہیں لیکن اگر کبھی غورو فکر نہیں کیا ان جمہوری پرو ہتوں نے ۔۔ تو وہ یہ لوگ ہیں جو اپنے ہی دیس میں کسی شناخت کے بغیر برباد و بے خانماں ہیں ۔ جن کے شنا ختی کارڈ نہیں ہیں اور جن کے بچوں کو پا کستان کی کو ئی بھی یو نین کو نسل اور بلدیاتی ادارہ برتھ سر ٹیفکیٹ جاری نہیں کرتا اور جمنا نہ ہو نے کے سبب ان بچوں کو کسی سر کاری اور پراءیویٹ سکول میں دا خلہ نہیں ملتا ۔۔ کاش حکو مت انسانی بنیا دوں پر اس مسئلہ کو بھی اپنے تبدیلی ایجنڈے کا حصہ بنا لے ۔۔
آج میں چا ہتا تھا کہ لیہ کے نئے ڈپٹی کمشنر اظفر ضیاء کے ساتھ ہو نے والی ملاقات میں ملنے والے پیپر کو حل کرنے کی کو شش کروں جس میں معزز میڈ یا نما ءند گان سے ضلعی مساءل کی تفصیل اور ان کے حل بارے تجاویز ما نگی گئی تھیں ۔۔
میڈ یا کے ساتھ ہو نے والی ملاقات میں بہت سی باتیں ہو ئیں ۔ سبھی روائتی با توں میں ایک بات رواءت سے ہٹ کر کی میزبان محترم نے ۔ ان کا کہنا تھا کہ بیڈ گورننس کا اصل ذمہ دار ہمارے سماج کا وہ صدا بہار خو شا مد ی ما فیا ہے جو سر کاری افسران اور عوام کے درمیان دیوار بن کر گورننس کو بے ثمر بنا دیتا ہے ۔
اظفر ضیاء کا کہنا تھا کہ بحیثیت ڈپٹی کمشنر میری کو شش ہو گی کہ میں اور میرے افسران اس خو شا مدی ما فیا سے دور رہیں تا کہ عوام اور انتظا می افسران کے در میان بھر پور اعتماد کا رشتہ اعتماد بحال ہو سکے ۔ وا قعی اگر ایسا ہو جا ءے تو یقینا یہ ایک بڑی تبدیلی کا بڑا آ غاز ہو گا ۔۔
انجم صحرائی