رات کا جانے کون سا پہر تھا کہ دروازہ دھڑدھڑانے کی آواز آئی ۔میں نے بند آنکھوں سے ہاتھ سوئچ کی طرف بڑھایا اور کلک کی آواز کے ساتھ لائٹ جلائی ۔مچی مچی آنکھوں سے کلاک پہ نظر ڈالی تین بج رہے تھے۔اللہ خیر دوبارہ دروازہ زور سے بجا ۔شوہر کو آواز دینا بے سود تھا کہ وہ نیند کی دوا کھا کر سو رہے تھے۔بچے اپنی ازلی عادت کے تحت آڑے ترچھے سوئے ہوئے تھے ۔اب مجبوری تھی بیٹے کو زبردستی جگایا کہ گیٹ تک ساتھ چلے۔۔آہستگی سے کمرے کا در کھول کر باہر نکلے ۔صحن عبور کیا گیٹ کے باہر خاموشی تھی ۔میں تذبذب میں تھی کہ دروازہ کھولوں یا نہیں۔مما آپ نے خواب دیکھا تھا کیا باہر تو کوئی نہیں ۔بیٹے نے نیند میں ڈولتے ہوئے کہا ۔میں نے خود آواز سنی ہے بچے ایک بار نہیں بار بار میں اسے یقین دلا رہی تھی ۔اتنے میں پھر دھیمی سی دستک ہوئی۔کک کون میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔پھپھو میں ہوں عمران دروازہ کھولیں ۔بھتیجے کی آواز آئی ۔میرا دل انجانے اندیشے سے دھڑکنے لگا دروازہ کھلا تو عمران اندر آگیا۔پھپھو پڑوسیوں کے بیٹے جمیل کا انتقال ہو گیا پھوپھا کو بھیجیں۔کک کیسے ؟ آج صبح تو وہ بھلا چنگا تھا میری آواز لڑ کھڑا گئی۔جانے موت سے زیادہ بھیانک مجھے کبھی کچھ نہ لگا۔اس نے خود کشی کی ہے عمران نے سر گوشی کی۔مگر کیوں سولہ سالہ بچے کو ایسا کیا ہوا ؟میری حیرت کی انتہا نہ تھی ۔عمران غالبا میرے سوال جواب سے اکتا کر اندر چلا گیا اور میں وہیں صحن میں تخت پہ ٹک گئی جہاں بیٹا سمٹ کر سو گیا تھا۔بے اختیار میری مامتا دہل سی گئی اور بیٹے کی طرف دیکھا ۔یا اللہ کسی ماں پہ ایسی آزمائش نہ لانا آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے دو آنسو پلکوں پہ اٹک گئے۔اسی اثنا میں میرے شوہر اور عمران باہر نکل گئے اور مجھے دروازہ بند کرنے کا کہا ۔باہر ہو کا عالم تھا اتنی خاموشی نہ رونے کی آواز نہ بین کرنے کی آواز ۔ہلکی ہلکی چاپیں جیسے لوگ جان بوجھ کر احتیاط سے چل رہے ہوں ۔کنڈی لگا کر پلٹی اور تخت پہ ہی لیٹ گئی۔
صبح ہوتے ہی لوگوں کی تاسف بھری آوازیں آنے لگیں کیا ہوا تھا کب ہوا ہمیں تو پتہ ہی نہ چلا ہائے بیچارا بچہ۔۔ماں خالی چاپائی پہ بچھی چادر پہ ہاتھ پھیر رہی تھی ۔شاید لوگوں کے سوال اس کے دکھ کو سوا کر رہے تھے ۔راتوں رات دفنا دیا ۔ایک سر گوشی ابھری اور باقیوں کے بھی کان کھڑے ہوگئے ۔عورتیں خاموش ماں کے پاس سے اٹھ کر اس کے گرد جا بیٹھیں جس کے پاس زیادہ معلومات تھیں ۔سنا ہے خود کشی کی ہے زہریلی گولیاں کھا کر ۔ہائے باپ تو پہلے ہی مر گیا تھا ۔بھائی بھابھی کراچی تھے ایک ماں ہی یہاں تھی ۔میں نے سنا کسی لڑکی کا چکر تھا ۔آوارہ تھا بہن اللہ معاف کرے ۔کچھ کرتا ورتا بھی نہیں تھا ۔سلیمے کے ابا بتا رہے تھے سارا جسم نیلا پڑا ہوا تھا۔توبہ توبہ اری بہن اس کی تو نماز جنازہ بھی نہیں ہوتی ۔اللہ معاف کرے ۔ماں کو تو دیکھو لگتا ہے خود ہی زہر دے دیا ہو گا ۔میں بلقیس کے پاس بیٹھی سارے تبصرے سن رہی تھی مقام افسوس یہ ہے ہمارے معاشرے کی ہمدردی۔بات برداشت سے باہر ہوگئی تو میں بلقیس کو تسلی دے کر اٹھنے لگی اس نے آنسوؤں بھری نگاہ سے مجھے دیکھا جیسے عورتوں کی شکایت کر رہی ہو۔میں نے لب بھینچ لیے ۔اور گھر آگئی ۔
جمیل ایک سولہ سالہ بچہ تھا ابھی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں ۔بے وقت والد کی موت نے بچپن چھین لیا پڑھائی سے دل اچاٹ ہو گیا تو چھوڑ دی ماں بھائی نے بہت سمجھایا میٹرک کر لے مگر مان کر نہ دیا نویں جماعت ادھوری چھوڑ دی سارا سارا دن آوارہ گردی کرتا ۔بھائی کراچی میں نوکری کرتا تھا شادی ہوئی تو بیوی ساتھ لے گیا ماں ایک سکول میں آیا گیری کرتی تھی۔اور ایک دو گھروں کے کام کرتی تھی۔بھائی کے جانے کے بعد جمیل کو آزادی مل گئی ۔آوارہ دوستوں نے فیس بک کی لت لگا دی اور جمیل کی دوستی ایک لڑکی سے ہوئی انڈیا کی رہنے والی درابہ جیلانی کے حسن نے جمیل کو ایسی راہ پہ ڈال دیا کہ وہ درابہ کی محبت میں گرفتار ہو گیا ۔وہ بھی اس کی محبت کا دم بھرنے لگی ۔درابہ کی بے شمار خوبصورت تصویریں جمیل کی محبت کو اور بڑھاوا دیتیں وہ انتہائی خوبصورت تھی ۔جمیل نے اسے بتایا کہ وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ۔شاید میڈیا ہمارے بچوں کو وقت سے پہلے بالغ کرنے میں آگہی کے نام پہ گھناؤنا کھلواڑ کرنا چاہتا ہے۔محبت میں امتحان کے نام پہ دونوں میں طے ہوا کہ وہ اگر مل نہ سکے تو مر جائیں گے۔ایک ہفتے سے درابہ آف لائن تھی ۔جمیل کی بے قراری اسے چین نہ لینے دے رہی تھی جمیل کے مرنے سے ایک رات قبل وہ آن لائن ہوئی اور معذرت کی کہ وہ دوسرے شہر اپنے ماموں سے ملنے گئی تھی چھ سال قبل اس کی والدہ اور ماموں میں ان بن کے بعد صلح ہوئی تو وہ سب وہاں گئے تھے ۔ماموں کے انجینئیر بیٹے کو وہ بہت پسند آئی تو ماموں نے اسکا رشتہ مانگ لیا اور ان کا نکاح ہو گیا اب وہ ہمیشہ کے لیے اس کے ساتھ امریکا جارہی۔وہ والدین کے آگے مجبور تھی ۔جمیل کے سر پہ تو جیسے بم پھٹ گیا ۔آؤ دیکھا نہ تاؤ موبائل دیوار پہ دے مارا ۔اور روتے ہوئے گندم کی زہریلی گولیاں کھا لیں اور چادر اوڑھ کر لیٹ گیا جب طبیعت زیادہ خراب ہوئی اور خون کی الٹیاں شروع ہو گئیں تو گھبرا گیا بچہ ہی تھا اب جذبات ہوا ہوئے تو ماں کی طرف بھاگا جو ایک گھر میں کام کر رہی تھی گھر تک نہ پہنچ پایا راستے میں گر گیا گلی سے گذرتے بچے کو پیغام دیا میری ماں کو کہو مجھے بچا لے میں نے زہر کھا لیا ہے۔ماں تک دوڑتا بچہ پہنچا تو وہ بغیر جوتا پہنے بھاگی آئی مگر تب تک بہت دیر ہوگئی تھی آخری سانسوں میں ماں سے معافی مانگ کر جمیل دنیا سے روٹھ گیا ۔اور اسی طرح رات کے اندھیرے میں سپرد خاک کر دیا گیا چند پڑوسیوں نے نماز جنازہ پڑھی اور لحد میں اتار دیا ۔بھائی نے فون پہ کہہ دیا پولیس کیس بن جانا بس جانے والا چلا گیا جو زندہ ہیں ان کو زندہ درگور نہ کیا جائے۔ایک ماں کا جگر گوشہ نادانی کی نظر ہوگیا۔
رات کے دو بجےرمیش عرف درابہ ایک نئی آئی ڈی بنانے میں مشغول تھا ۔لولی انوسینٹ گرل۔وہ مسکرایا۔