زراعت میں سوشیالوجی کا کردار
ڈاکٹر اظہر عباس خان ، حسن غفور، صباء طفیل
بہاءوالدین زکریا یونیوسٹی ۔ بہادر کیمپس لیہ
انسانی معاشرے کی سائنسی تحقیق پر مبنی علم کو سوشیالوجی (عمرانیات) کہتے ہیں ۔ اس میں سماجی مسائل کو زیرِنظر لایاجاتا ہے اور پھر اُن کو حل کیا جاتا ہے ۔ اس کی مختلف اقسام ہیں ۔ جن میں مختلف طرح سے تحقیق کی جاتی ہے ۔ اس کی ایک قسم دیہی عمرانیات بھی ہے ۔ جس میں دیہی زندگی اور دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے مسائل کی تحقیق و ترقی کے بعد اْس کو حل کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ اس میں سماجی گروہ بندی کی جاتی ہے ۔ اس میں لوگوں کے رویوں کو دیکھا جاتا ہے اور ان کے ذاتی مسائل کو بہتر طریقے سے حل کیا جاتا ہے ۔
منفرد مفادات کی بنا پر عمرانیات کا معاشرے کے ہر پہلو اور ہر شعبے میں اہم کردار ہے ۔ دیہی عمرانیات اور اسکے دیگر پہلو زراعت میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ پائیدار زراعت کے حصول کے لیے کئی سالوں کی کوششوں کے باوجود بھی جدید طریقہ قابلِ یقین نہیں ہے ۔ بہت حد تک بہتری لانے کے باوجود بھی روایتی زراعت ایک بڑا نمونہ ہے ۔ پانی ، مٹی اور ہوا میں آلودگی;234;ماحولیاتی ذراءع میں آبی اور حیائی ماحول میں کمی ;234;زراعت کی ضمنی پیداوار ہیں ۔ ان سب اسباب کے پیشِ نظر یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ ہ میں پائیدار زراعت کو بڑھانے کے لیے ٹیکنیکی اصول ونطریے کا حامی ہونے کی بجائے سماجی مذاکرات کے عمل کو ترجیح دینی چاہیے جو کہ مظبوط اور بہتر سماجی حالات کی عکاسی کرتا ہے ۔ ہ میں زراعت کو انسان کی زندگی کا اہم جزو اور کام تصور کرنا چاہیے کیونکہ یہ جتنا دیہی معاشیات میں اہم ہے اتنا ہی یہ سماجی حوالے سے بھی اہم ہے ۔ تا ہم پائیدار زراعت کے حصول میں سو شیالو جی بہت اہمیت کی حامل ہے ۔ زراعت کی پائیداری اب انسانی طول و عرض اور سماجی حرکات کو نظر انداز نہیں کر سکتاجوزرعی ترقی کے بنیادی عناصر ہیں ۔ اگرچہ زراعت اور ماحولیاتی سائنسات(سائنس کی جمع) اہم ہیں ۔ لیکن سماجی سائنس انسانی طول و عرض کا تجزیہ کرنے کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ جو کہ زراعت کے استحکام کو سمجھنے اور حاصل کرنے کے لیے مرکزی نقطہ ہے ۔ پائیدار زراعت کے لیے سماجی کارکن کسانوں کے رویے اور ان کے پائیدارفارمنگ کے طریقوں کے درمیان تعلقات کی تلاش کر رہے ہیں ;234;اور پائیدار طریقوں کی منظوری دینے کے فیصلے کے سماجی اثر کے بارے میں زراعت کے فیصلے کے لیے سازوسامان فراہم کرتے ہیں ۔ یہاں تک کہ زراعت کے ذریعے اب تک ہمیشہ کی آبادی کو کھانا کھلانے میں بہت پیش رفت ہوئی ہے ۔ اب بھی اِسے سنجیدہ مسائل اور چیلنجوں کا سامنا ہے جن میں سے ایک غربت کے خاتمے کے لیے بڑھتے ہوئے مطالبات کا ہے ۔
ترقی پذیر ممالک میں آبادی کی ترقی ، شہریت اورآمدنی کی ترقی کھانے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مطالبہ میں بڑے پیمانے پر عالمی اضافے کو فروغ دیتا ہے ۔ موسم کی تبدیلی اور فوسل فیولز سے قابلِ تجدیدتوانائی کے حصول سے زراعت میں نئی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ۔ زراعت کے پانی کی آلودگی ، جینیائی تنوع کے نقصان اور مٹی کے معیار کی فراہمی میں کمی کی وجہ سے ایگرو کیمیکلز کے استعمال کو نا ممکن بنا رہا ہے ۔ زراعت میں پائیداری صرف خود میں ایک مقصد نہیں بلکہ پوری دنیا کا مقصدہے ۔ یہ ایسا نمونہ ہے جس نے زراعت کی سمجھ کو تبدیل کر کے رکھ دیاہے ۔ جدید زراعت جو کہ زراعت کی پیداوار کو پورا کرنے کیلئے ایک عہدی جدوجہد اٹھی، اب غیر قیام پذیر تصور کی جاتی ہے ۔ جدید زراعت نے فارمنگ کی اہمیت کو تباہ کر دیا ہے اور اس کے علاوہ دیگر مسائل بھی جنم لے چکے ہیں ۔ جس کی ایک مثال ماحولیاتی تباہی ہے ۔ کچھ ریسرچرز (محقیقین) ایک تکنیکی عمل کے طور پر ایک نظام کی صورت میں پائیدارزراعت کی وضاحت کرتے ہیں ۔ جس میں کم سے کم ِان ْپٹ ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کیلئے طویل عرصہ سے پیداوار کو برقرار رکھنے کامقصد ہونا چاہیے، جس میں مئی کی زراعت کو بہتر بنانے کے لئے ، مئی کی زراعت کو بہتر بنانے کے زراءع ، حیاتیاتی کیڑوں کے کنٹرول ، متنوع پیداوار ، اوا س پر عمل درآمد کرنے کی طرف سے ، سماجی طول و عرض کو نظر انداز کرنے کی بناء پر زراعت محدود اپنائے جانے کے مسئلہ سے متاثر ہے ۔ زراعت کو فروغ دینے اور موجودہ بحران سے باہر نکلنے کا راستہ ایک سماجی مذاکرات کے عمل سے ہمارے خیال کے ایک نقطہ نظر سے متعلق ہے جس میں سماجی حالات اور مخصوص وقت میں کسی مخصوص علاقے میں طاقت کے حالات کی عکاسی ہوتی ہے ۔ اگر کوئی اس بات کو قبول کرتا ہے کہ استحکام کا تصور ایک سماجی تعمیر ہے تو یہ ابھی تک زراعت کی پائیداری حاصل کرنے کی پیشکش کرنے کا ایک بڑا سوداہے ۔
اصلاحات زراعت اور زراعت کے نظام کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتاہے تاکہ پودوں اور جانوروں کے کھانے کے سامان کے پہلووَں ، ریشہ ، جانوروں کے مواد کو مختلف طریقے سے منتقل نہ کریں ۔ لیکن ان اصلاحات میں پروسیسنگ ،مارکیٹنگ، زراعت کی مصنوعات کی تقسیم ، فارم کی پیداوار کی فراہمی اور سروس کی صنعت، اور متعلقہ معاشی، سماجی ، سیاسی ، ماحولیاتی تعلقات ، تجارت اور موحولیاتی مسائل بھی شامل ہیں ۔ حیانیات (بائیولوجی) کے علاوہ یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ زراعت ماحولیاتی طور پر سماجی ہے ۔ مسلسل زمین کے استعمال کےلئے معیاری فریم ورک کو مطلع کرنے کیلئے سماجی سائنس کو انسانی سرگرمی کا تجزیہ کرنے کے لئے زراعت سائنس کے درمیان اپنا کردارادا کرنا ہوگا ۔
یہ (پائیدارزراعت )چیلنج نہ تو مکمل طور پر تکنیکی ہے اور نہ منطقی ہے بلکہ یہ رویہ اور رویے میں تبدیلی میں سے ایک ہے ۔ اس طرح کی پائیدار زراعت کو سماجی گفتگو میں شامل ہونا چاہیے ۔ جہاں بنیادی مسائل گروپوں یا کمیونیٹی کے انداز میں باہمی طور پر تلاش کیے جاتے ہیں ۔ آبادی ، پیچیدگی، پریشانی اور نقل و حرکت میں اضافے کی وجہ سے ہم جزوی طور پر اسے سرانجام نہیں دے سکتے ۔ لٰہذا پائیدار زراعت کو حاصل کرنے کیلئے سماجی عوامل اہم ہیں ۔ ماحولیاتی طور پر زراعت میں تبدیلی کیلئے جتنا کہ ایک فارم ضروری ہوتا ہے اس سے زیادہ وہ ادارے جو کہ کسانوں کیلئے اہم ہیں ، ضروری ہیں ۔ چونکہ سوشیالوجی کا ہی زراعت میں ایک اہم کردار ہے زیادہ تر کسان ایسے ہیں جنہیں معلومات اور آگاہی کی کمی ہے یہ کمی سوشیالوجی کے زریعے پوری کی جاتی ہے ۔ ان اداروں میں کسانوں سے بات چیت کرکے اُن کے مسائل کے بارے میں آگاہی لی جاتی ہے ۔ اور پھر اُن مسائل کو حل کرنے میں اُنکی مدد کی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ انہیں آسان اور بہتر طریقے سے نئی چیزوں (کیمیکلز) سے متعارف کروایا جاتاہے ۔ اور ان کے استعمال سے آگاہی فراہم کی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ کسانوں کے رویوں میں تبدیلی لانے کیلئے اُن سے زیادہ سے زیادہ بات چیت کی جاتی ہے اور مختلف طرح سے ٹریننگ دی جاتی ہے ۔ لٰہذا کسانوں کے مسائل جاننے ، اُن کو حل کرنے کے علاوہ اُن کے رویوں میں تبدیلی میں بھی سوشیالوجی کا ہاتھ ہے اس کے علاوہ سوشیالوجی کے زریعے اِس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ موجودہ وسائل سے تمام کسان برابر مفادات حاصل کررہے ہیں یا نہیں ۔ مزید اس کے زریعے اُن کے حقوق کی حفاظت کی جاتی ہے اور اُن کی آنے والی نسلوں کےلئے انہی وسائل سے فائدہ حاصل کرنے کے مواقع کی حفاظت کو یقینی بنایا جاتا ہے ۔
سماجی ماہرین اور دیگر سماجی سائنسدانوں نے امیر، فضل، زراعت اور پائیدار زراعت کے ڈیزائن میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ سماجی ماہرین اور دیگر سماجی سائنسدانوں نے وسائل سے متعلق طریقوں کے مطابق خاص طور پر اہم تحقیق کی ہے انہوں نے پائیدار زراعت کی ٹیکنالوجی سے متعلق صارف کی ضروریات اور عمل درآمد کی حکمت ِ عملی کی شناخت میں اہم کردار ادا کیاہے ۔ بہت سے عالمگیروں کےلئے پائیدار زراعت اور معاشرے کے درمیان ایک نیاتعلق سماجی معاہدے کے دل میں واقع ہے ۔ اس طرح کی سوشیالوجی کو پائیدار زراعت کی سوشیالوجی کہا جاتا ہے ۔ جو کہ کسانوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بناتی ہے اس کے علاوہ سماجی ضروریات کی مکمل فراہمی کی یقین دہانی کرواتی ہے ۔
زراعت میں مذہبی اور روحانی فرق، معلومات کی زیادہ فراہمی، ذاتی خصوصیات اور رویے سب کسانوں کا زراعت کی طرف رسائی اور یقین پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے کسانوں میں تناوَ پیدا ہو جاتا ہے ۔ اور ایک دوسرے سے بدظن ہوجاتے ہیں ۔ اس سب کا اثر ان کی زندگیوں کے ساتھ ساتھ زراعت پر بھی ہوتا ہے جس کو تمام کسان کاروبار کے طور پر کرتے ہیں ان کے درمیان اس تناوَ اور لڑائی جھگڑوں کو ختم کرنے میں سوشیالوجی (عمرانیات) کا اہم کردار ہے ۔ کسانوں کو ایک دوسرے کے سامنے لاکر اُن کے مسائل سننے کے بعد اُن میں پیدا شدہ غلط فہمیوں کو دور کروایا جاتا ہے کسی بھی کسان کا رویہ زراعت میں بہت اہمیت کا حامل ہے لٰہذا کسانوں کے رویوں کو بہتر بنانے میں کاوشیں عمل میں لانی چاہیں ۔
گاؤں میں رہنے والے 80 فیصد لوگوں کا پیشہ زراعت ہے لٰہذا سب سے بڑے پیشے کو بہتر بنانے سے زراعت میں بہتری لائی جاتی ہے ۔ یہ بہتری دیہی سوشیالوجی کے زریعے ہی ممکن ہے اس کےلئے ضروری ہے کہ انہیں (کسانوں کو ) جدید علم اور معلومات دی جائیں انہیں جدید ٹیکنالوجی او راسکے استعمال کے طریقوں سے آگاہ ہونا چاہیے ۔ اس کے علاہ فارم پیداوار میں بہتری کی آگاہی دینی چاہیے ۔ دیہی سوشیالوجی انڈسٹریز اور کسانوں کے درمیان بہتر تعلقات استوار کرنے میں بہت اہم ہے جس سے کسان اپنی مختلف پیداوار کو بہتر طور پر سمجھنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں اور وہی پیداوار پھر ملکی معیشت میں اہمیت کی حامل ہے اس سے کسان اچھے پیسے کماکر اپنی نئی فصل پر زیادہ دلجوئی سے کام کرتاہے ۔ یہ سب پہلوزراعت میں بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بھی ملک میں سوشیالوجی زراعت میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔
دیہی عمرا نیا ت کے دائرہ کا ر میں کوآپریٹو ز کو فروغ دراصل زرا عت کو فروغ ہے ۔ کیو نکہ کو آپریٹو ز کی بنیا د پر گا ءو ں کو لوگ اپنی ضرو ریا ت کو پورا کر نے ، منڈی تک رسائی حا صل کر نے ، اپنی پیداوار کو صحیح سمت پر فروخت کرنے ، کمزور کوآ پریٹو ز کی تشکیل اور کوآپریٹو ز کی رہنما ئی ایک ماہر عمرانیا ت ہی کرتا ہے ۔ اس کا رِ خبر کے ذریعہ گا ءوں اپنی پیداوار کو بڑھا نے سے لیکر اپنی پیداوار کی صحیح قیمت وصول کرنے کے قابل ہو تا ہے ۔
کسی بھی ترقی کے عمل کے لئے (;68;ivison of ;76;abour) یعنی ذمہ داریو ں کی تقسیم بہت اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ ما ضی میں زراعت پر عمرانی تحقیقات اور زرعی تحقیقات سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ زراعت میں گھر پر مبنی تمام افراد کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ لہذا سو شیا لو جی کا علم زراعت میں ذمہ دار یو ں کی تقسیم اور اسکی اہمیت بیان کر نے اور گا ءو ں کے لو گو ں اس امر سے آگا ہ کرنے کے حوالے سے اہم کردار ادا کرنا ہے ۔ ما ہر عمرانیا ت میں اضا فہ کے حوالہ سے ذمہ داریو ں کی بہتر تقسیم کے متعلق آگاہی دیتے ہیں ۔
دنیا میں تقریباً90 فیصدترقی زراعت پر منحصر ہے اور یہ صرف اُن زرعی ممالک میں ہوتی ہے جہاں پرکسان اور بڑے عہدے پر فائز لوگ دیہی سوشیالوجی کی اہمیت کو سمجھتے ہیں ۔ لٰہذا کسی بھی زرعی ملک کی ہر طرفہ تعمیر وترقی میں دیہی سوشیالوجی کی تعمیر وترقی کا ہاتھ ہے ۔ ایک لحاظ سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دیہی سوشیالوجی (عمرانیات ) زراعت کی توسیع میں بھی اہم ہے جس میں عمرانیات کسی خاص مقصد یا پیغام رسائی کے طور پر اہم ہے ۔ یہ مقصد کسی گروپ تک محدود ہو سکتا ہے اور ایک دیہات تک بھی اسکی وسعت ہوسکتی ہے ۔ زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ کسی بھی خاص مہارت یا ٹیکنالوجی کے بارے میں معلومات کسی ایک علاقے تک محدود رہتی ہیں اُس میں توسیع کےلئے سوشیالوجی اپنا کردار ادا کر تی ہے ۔ اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ زراعت کی وسعت میں بھی سوشیالوجی اہمیت کی حامل ہے کسی بھی فصل کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ اُس کے بارے میں کسانوں کو کتنی آگاہی حاصل ہے ۔ اور اس کےلئے کتنی ٹیکنالوجی میسر ہے ۔ پائیدار زراعت میں سوشیالوجی اور دیہی سو شیالوجی کے علاوہ اقتصادی سوشیالوجی اور سیاسی سوشیالوجی بھی اہم ہیں ۔ کسانوں کے رویوں میں تبدیلی اور معلومات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ضروری ہے کہ فصل کی پیداوار کے بعد اُس کی فروخت کیسے کی جائے ۔ اس معاملے میں اقتصادی سوشیالوجی (;69;conomical) اپنا کردار نبھاتی ہے ۔ جبکہ سیاسی سوشیالوجی وہاں اہم ہے جہاں ٹیکنالوجی اور مختلف مہارتوں کی فراوانی ہو یا بالکل نہ ہونے کے برابر ہو ۔ کچھ علاقوں میں سیاسی سوشیالوجی کی وجہ سے بہت سی معلومات اور ٹیکنالوجی ایسی ہوتی ہیں جوکہ دوسرے علاقوں میں نہیں ہوتیں ۔ سیاسی عمرانیات معلومات کی بناء پر پھر اُن علاقوں میں بھی کسانوں کو برابر حقوق فراہم کرتی ہے
اس کے علاوہ پاکستان میں بہت سی زرعی کمپنیاں او ر ادارے موجودہیں ۔ جوکہ مختلف طریقوں سے پائیدار زراعت کے حصول میں کارآمد ہیں ۔ اِن اداروں میں سے ایک ادارہ;70;armer ;70;eild ;83;chool(;707083;)بھی ہے ۔ سوشیالوجی کے ماہرین اِس ادارے کی تنظیم و ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ یہ ادارہ کسانوں کو کسی بھی فصل یا اُس فصل کو درپیش مسائل کی معلومات فراہم کرنے میں کردار ادا کرتا ہے ۔ یہ ادارے مختلف جگہوں پر بنے ہوئے ہیں ۔ اےک ادارہ عموماََ تیس کسانوں کے گروپ پر مشتمل ہوتا ہے ۔ جو کہ سوشیالوجی کے دو ماہرین کے زیرِنگرانی ہوتا ہے ۔ کسانوں کے بہت سے مسائل اِس ادارے کے ذریعے حل کیے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ انہیں مختلف پہلووَں سے متعلق ٹریننگ (;84;raining) بھی دی جاتی ہے ۔ جبکہ زرعی کمپنیاں مختلف طرح کے بیج ،آلات اور مشینری مہیا کرتی ہیں ۔ یہ تمام سہولیات تمام تر کسانوں کویکساں طور پر مہیا نہیں ہوتیں ۔ تاہم سوشیالوجی یہاں اپنا کردار نبھاتی ہے ۔ اور وہ کسان ،جنھیں سہولیات میسر نہیں ، انہیں انکے حقوق اورضروریات سے متعلق آگاہ کرتی ہے ۔
مختلف بینک بھی زراعت کی ترقی میں اہم کردار اداکر رہے ہیں ۔ اِن بینکوں میں چندمندرجہ ذیل ہیں ۔
Zarai Taraqiati Bank Ltd.
U Micofinance Bank
Apna Bank.
Pak Oman Microfinance Bank limited.
Khushhali Microfinance Bank.
یہ بینک غریب کسا نوں کو آسان شرائط پر معاوضے مہیا کرتے ہیں ۔ سوشیا لوجی کے ماہر ین ان کسانوں کی اْن کے معا شی حا لا ت کی بنا پر گروپ بندی کر کے اْن کو معاوضے دلواتے ہیں ۔
بیان کردہ تمام پہلو اِس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ زراعت کی تبدیلی اور ترقی میں سوشیالوجی کا اہم کردار ہے ۔ لہٰذا ہ میں چاہیے کہ ہم سوشیالوجی کی تعلیم کو فروغ دیں اور دیہی سوشیالوجی سے متعلق ملازمت کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنے چاہیں ۔ اِس کے علاوہ سوشیالوجی کے ماہرین کومناسب سہولیات مہیا کرنی چاہییں ۔