تحریک استقلال کے سربرا ریٹائرڈ ائیرمارشل اصغر خان کو قوم سے بچھڑے ہوئے چھ برس بیت گئے ہیں اس خیالات کا اظہار گزشتہ روز ہائی کورٹ بار کے سابق صدر حاجی خیر محمد بڈیرا ایڈووکیٹ ، انجم صحرائی ،فتح خان ایڈووکیٹ ملک ساجد فیروز ایڈووکیٹ ڈاکٹرملک محمد حافظ،نسیم شاہ سے اکرم انصاری نے گفتگو کرتے ہوئے کہی اصول دیانت شرافت اور شائستہ سیاست کا عہد تمام ہوا پیدائش 21 جنوری 1921 ،5جنوری 2018 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے مشرقی پاکستان کو الگ ہونے سے روکنے کے لیے انہوں نے بھرپور کوشش کی تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے زندہ تاریخ بھی خاموش ہے نواز شریف جاوید ہاشمی خورشید قصوری اور اعتزاز احسن کا سیاسی سفر بھی تحریک استقلال سے شروع ہوا اصولی سیاست کا دائی ریٹائرمنٹ کے بعد محکمہ ہوا بازی کے ناظم اعلی اور پی ائی اے کے صدر نشیم مقرر ہوئے بڑے سیاسی کردار کی جدائی قومی ایشو پر کھل کر اظہار کرنا ان کا شیوہ تھا ایئر مارشل اصغر خان میدان سیاست میں اترے تو قوم کی انکھوں کا تارا بن گئے 23 جولائی 1997 کو ایئر مارشل کا نام ایک بار پھر نہ صرف پاک فضائیہ دنیا کے تمام اخباروں میں شاہ سرخی بن گیا ایئر مارشل اصغر خان کی خدمات کو سراتے ہوئے ان کو سلام پیش کرتے ہیں یہ وہ دن تھا جب اپ نے صرف 36 سال کی عمر میں پاک فضائیہ اور پہلے پاکستانی چیف بننے کا اعزاز حاصل کیا 15 سال دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 120 ارب خرچ ہوئے خطے میں استحکام اور اپنے شہریوں کے لیے یہ جنگ جاری رکھی پاکستان میں ایئر مارشل اصغر خان تسلسل کے ساتھ کاروائیوں کے ذریعے دہشت گردوں کا صفایا کیا جب ایوب خان نے ذوالفقار علی بٹو کو گرفتار کیا تو ایئر مارشل اصغر خان کے ان کی رہائی کے لیے تحریک چلائی . ذوالفقار علی بھٹو رہا ہوا تو اصغر خان کے پاس ایا کہ تم میرے ساتھ شامل ہو جاؤ میرے پاس نعرہ ہے روٹی کپڑا مکان کا عوام بے وقوف ہے اور بے وقوف بنایا جا سکتا ہے ایئر مارشل اصغر خان نے انکار کر دیا ایئر مارشل اصغر خان کی تاریخ ہی بہت سی باتیں ہیں جسے دہرانے سے ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتااج ذوالفقار علی بھٹو کا یوم پیدائش ہے اور اج ہی اصغرخان کا یوم وفات پاکستانی سیاست کے ان دو اہم ترین کرداروں کی پیدائش اور وفات کی تاریخیں ایک ہونا تاریخ کا عجیب اتفاق ہے کیونکہ یہ اصغر خان ہی تھے جو 1977 میں بھٹو مخالف تحریک میں اپوزیشن کی جانب سے بھٹو کے متبادل بھی تھے اور نمایاں ترین مخالف بھی اصغر خان ہی تھے جنہوں نے اس وقت کے ارمی چیف جنرل ضیاء الحق کو بظاہر یہ خط لکھا تھا کہ اپ بھٹو حکومت کے غیر قانونی احکامات کو تسکین نہ کریں دراصل وہ ضیاء الحق کو یہ کہہ رہے تھے کہ اگر اپ بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیں تو اپوزیشن کو اعتراض نہ ہوگا اور پھر وہی ہوا ضیا الحق نے بی این اے سے معاہدے کے باوجود بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا جس کا علمناک انجام ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی صورت نکلا اصغر خان 70 کی دہائی میں عمران خان ہی کی طرح مقبول تھے اور انہی کی طرح کرپشن کے الزامات سے پاک اور کھرے لیڈر کے طور پر جانے جاتے تھے ان کی پارٹی کا نام بھی پی ٹی ائی تھا یعنی پاکستان تحریک استقلال عمران خان اور ان میں ایک مماثلت یہ بھی ہے کہ وہ سولو فلائٹ پر یقین رکھتے تھے جس کے باعث وہ کبھی اقتدار حاصل نہ کر سکے