آج آفس کی طرف سے ان کی فیئر ویل پارٹی تھی ۔سب نے انہیں گرم جوشی سے الوداع کیا ۔ واپس آتے وقت ان کی نظر میں اپنی پچیس سالہ نوکری کے زمانے کی مصروفیت گھوم گئی۔ ازراہ محبت شکیل صاحب نے اپنے ڈرائیور سے انہیں گھر ڈراپ کرنے کا کہا اب وہ سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے خودکو ہلکا پھلکا محسوس کر رہے تھے۔ بے اختیار لمبی سانس لی اور ہونٹوں پہ مسکراہٹ بکھر گئی۔کام کام اور کام کرتے ہوئے بالوں میں وقت کی برف اترنے لگی اور وہی برف ان کی خوش طبعی پہ بھی ایسی پڑی کہ ماتھے کی لکیروں میں مستقل مستقر بنا لیا۔روزی روٹی پوری کرنے کے چکر میں گھن چکر بن گئے۔بچوں کے تعلیمی اخراجات اورگھریلو خرچے پورا کرنے کے لیے پارٹ ٹائم سے اوور ٹائم تک اپنی ذات کو بھلا دیا ۔اب دونوں بیٹے تعلیم مکمل کر چکے تھے۔دونوں بیٹیو ں اور ایک بیٹے کی شادی ہو چکی تھی۔اور چھوٹے کا نکاح۔۔ اگلے ماہ اس کی شادی تھی۔ ۔اب بینائی دھندلانے اور ہڈیاں دکھنے لگی تھیں۔یاد آیا گھر ایک اور ہستی بھی ہے جس کی خاموش نظریں نظر اندازی پہ شکوہ کناں ہوتی تھیں۔۔مسکراہٹ گہری ہو گئی۔ بے۔اختیار جیب سے موبائل نکالا اور بیگم کے نمبر پہ ایک ٹیکسٹ ٹائپ کیا۔
آئی لو یو اب میرا سارا وقت تمہارے لیے ہے۔ ۔ ایک سرگوشی ابھری سنیے مجھے سردی میں آئس کریم کھانا اور لانگ ڈرائیو بہت پسند ہے۔سرگوشی کے ساتھ ہی ایک مانوس خوشبو دار سر ان کے کندھے سے آلگا۔انہوں نے لمبی سانس کھینچی اور خوشبو نےمشام جاں تک احاطہ کر دیا۔وہ گویا اُڑ کر گھر جانا چاہتے تھے۔۔دس منٹ کے۔بعد وہ گھر کے سامنے کھڑے تھے۔بیگم نے دروازہ کھولا تو نبیل ہمدانی نے مسکراتے ہوئے انہیں کندھوں سے تھام لیا۔بیگم آج سے ہم پھر تمہارے ہوئے جیسےچالیس برس قبل ہوئے تھے۔بیگم نے مسکراتے ہوئے سر جھکا دیا ۔نبیل ہمدانی نے قہقہہ لگایا۔آپ بھی پہلی دفعہ کی طرح شرمائی ہیں۔۔
حسب عادت صبح پانچ بحے آنکھ کھل گئی نماز ادا کر کے وہ پھر بستر میں جا گھسے۔اور دیر تک نیند کا مزہ لینے کا سوچا ۔آج آفس نہیں جانا یہ خیال ہی بہت خوش کن تھا۔ابھی خیال کو عملی جامہ بھی نہیں پہنا پائے تھے کہ ان کی بہو نے آواز دی پاپا ذرا بچوں کو سکول چھوڑ آئیں۔رافع کہاں ہے۔؟ انہوں نے مندی مندی آنکھیں کھولتے ہوئے پوچھا۔وہ بچوں کی وجہ سے جلدی نکلتے تھے اب آپ فارغ ہیں تو آپ چھوڑ آیا کریں۔بادل نخواستہ بستر چھوڑتے ہوئے انہیں اُٹھنا پڑا۔
سب منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ریٹائرمنٹ اور فراغت ایک طعنہ بن گئی اب ان کی ڈیوٹی بچوں کو لانا ۔چھوڑنا۔سبزی ۔سوداسلف بل اور دیگر کام تھی سارا دن وہ اسی میں لگے رہتے۔آنا کانی کے نتیجے میں ۔ارے آپ تو فارغ ہی ہوتے سارا دن سننا پڑتا۔سپنوں کے تاج محل ڈھیر ہو گئے۔گریجویٹی سے بیٹے کی شادی کی اب بچی کھچی رقم سے بیگم کے ساتھ سیر کا پلان بنایا۔ بیٹوں اور بہووں نے سنا تو خوب ٹھٹھا مخول کیا لو اب امی پاپا کو اس عمر میں ہنی مون سوجھ رہا۔۔وہ سب سن کر سر جھکائے دل گرفتہ کمرے میں چلے آئے۔آنکھ بھر آئی تھی۔زمانے کا چلن تو ہوتا ہی ظالم ہے مگر اپنی اولاد کی بات برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ابھی سوچ میں گم تھے کہ بیگم چلی آئیں۔ہمدانی صا حب ہم بوڑھے ہو گئے ہیں۔اب ہماری مرضی خوشی کوئی معانی نہیں رکھتی۔انہوں نے ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔۔مگر بیگم ساری عمر ہم نے ان بچوں پہ لگا دی ۔اپنی خوشی ۔آرام چین سب تہج دیا اب تو آرام کا وقت تھا پھل پانے کا۔ان کی آواز بھرا گئی۔۔۔واسع کو کاروبار کے لیے رقم چاہیے میں نے کہا ہم تمہاری شادی پہ لگا چکے تو کہنے لگا پاپا کے پاس گھومنے پھرنے کو پیسہ ہے میرے لیے نہیں۔دے دیں اسے ۔بیگم کی آواز میں اولاد کی بے اعتنائی کا دکھ بول رہا تھا۔
مم مگر بیگم وہ تو میں نے صرف تمہارے اور اپنے۔۔۔باقی لفظ منھ میں رہ گئے۔واسع سامنے کھڑا تھا۔پاپا مجھے میرا حصہ دے دیں میں وہ بیچ کر کاروبار کروں گا ۔نمرہ کے پاپا کے ساتھ ۔ہم وہیں شفٹ ہو جائیں گئے۔ بڑے بھیا بھی مان گئے ہیں گھر فروخت کرنے پہ۔۔واسع کے انداز میں قطیعت تھی۔نبیل ہمدانی کا افسردہ دل یہ سن کر زور سے کانپا۔۔بیٹا بہت محنت سے بنایا ہے یہ گھر میں نے تم سب کو اعلی تعلیم دلوائی۔اب تم خود محنت کرو۔انہوں نے التجائیہ انداز میں کہا۔۔میں اپنا حق مانگ رہا ہوں پاپا۔اور سب والدین کرتے ایسا اس میں احسان کیسا۔واسع نے بدتمیزی سے کہا۔اور باہر نکل گیا۔ہمدانی کے سینے میں درد کی لہر اٹھی اور وہ دل تھام کر بستر پہ ڈھے گئے۔
تین دن بعد ہوش آیا مگر ہارٹ اور فالج کے اٹیک نے ان کو مفلوج کر دیا ۔ان کا ہاتھ تھامے آنسو بہاتی بیگم ان کے بیڈ کی پٹی سے لگی ہوئی تھیں۔انہوں نے ان کو تسلی دینی چاہی مگر زبان سے بے ربط آوازوں کے سوا کچھ نہ نکلا۔۔آنکھوں کے گوشوں سے بے بسی کے چند قطرے نکل کر تکیے میں جذب ہو گئے۔