موت تو برحق ہے سبھی کو آنی ہے "کل نفس ذائقۃالموت "سو رانا اعجاز بھی اللہ کو پیارے ہو گئے "انا للہ و انا الیہ را جعون "دعا ہے کہ اللہ کریم مرحوم کو جوار رحمت میں جگہ دے آ مین
رانا اعجاز سے آخری بار گفتگو قریبا چند ماہ قبل ہو ئی تھی ہماری خواہش تھی کہ وہ جب چوک اعظم آ ئیں صبح پا کستان کے زیر اہتمام ہو نے والی ایک تقریب میں ہمارے مہمان بنیں ۔ انہوں نے وعدہ بھی کیا لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا نہ وہ آ سکے اور نہ ہی صبح پا کستان کی وہ تقریب منعقد ہو سکی لیکن را نا جی نے ملاقات کا یوں اہتمام کیاکہ ہمیں اپنے جنازے میں بلا لیا ۔واہ ری زند گی کتنی بے بس ہے تو۔۔۔
ضلع بننے کے بعد ماجد البا قری لیہ کے پہلے انفار میشن آ فیسر تھے بحیثیت ڈسٹرکٹ انفار میشن آفیسررانا اعجاز محمودتقریبا بائیس سال سے زیادہ عرصہ لیہ میں تعینات رہے ، یہ رانامرحوم کی پیشہ ورانہ کا میابی کا منہ بو لتا ثبوت ہے کہ را نا صاحب ربع صدی تک لیہ میں تعینات رہے اور ڈپٹی ڈائریکٹر بننے کے بعد اپنی خواہش پر لیہ چھوڑ گئے ۔
پہلے ڈسٹرکٹ انفارمیشن آ فیسر ماجد الباقری کے زمانہ میں صحافیوں کو ایک پیج پر آ نے کا موقع ملا، ڈسٹرکٹ پریس کلب کے متحرک فعال صحافیوں کی پہلی غیر متنازعہ ووٹر لسٹ بھی اتفاق رائے سے انہی کے زمانے میں تشکیل پا ئی ۔ اور پہلے الیکشن بھی اسی ووٹر لسٹ کی بنیاد پر منعقد ہو ئے ۔ لیکن اس کے بر عکس مرحوم رانا صاحب کی ملاز مت کا بیشتر حصہ لیہ میں گذرا لیکن اس سا رے عر صہ میں مر حوم کے آ بائی ضلع کا مقامی پریس دو دھڑوں میں منقسم رہا جو آج تک ہے اس تقسیم کا سبب مجھے سمجھ نہیں آ یا حالا نکہ رانا صاحب ایک مردم شناش اور زیرک شخصیت تھے علا قہ کے بڑے بڑے سیاسی پرو ہت اور گودھا ان سے کسب فیض حا صل کرتے تھے ، علاقائی سیاسی جوڑ توڑ میں مرحوم رانا صاحب کو کمال حاصل تھا لیکن مقامی پریس کی یہ بد قسمتی ہے کہ ہم ایسی نا بغہ روز گار شخصیت کی صلاحیتوں سے فیض یاب نہ ہو سکے ۔
سچی بات نہ رانا اعجاز میرے دوست تھے اور نہ ہی استاد تھے اور نہ ہی میں نے ان سے کچھ سیکھا لیکن میں شا ہد ہوں کہ وہ دوستوں کے دوست اور زندہ دل انسان تھے میں سمجھتا ہوں ان کے دوستوں کی فہرست شا ید بہت طویل ہو لیکن لیہ میں آصف کھتران، رووف کلاسر ہ ، سجاد جہانیاں ، رضی الدین رضی،فرید اللہ چو ہدری، اور پرو فیسر مزمل ان کے بہت قریب تھے۔ ضلع لیہ کی تمام سیاسی قیادت انہیں اپنا مرشد تسلیم کرتی تھی بہادر خان سیہڑ ہوں، یا سردار شہاب خان سیہڑ، فرید خان مرانی ہوں یا بابر خان کھتران سبھی سے انکے حلقہ احباب میں شا مل تھے یہ دوستوں کے وہ نام ہیں جن کا تذکرہ ہمیشہ ان کی گفتگو میں شا مل رہا زندگی کے آ خری دنوں میں چند دوستوں سے وہ خاصے شا کی بھی رہے۔ لیکن کمال یہ تھا کہ وہ دوستوں کی طرف سے لگائے گئے زخموں کو بہت جلد بھلا دینے کے عادی تھے۔ وہ جن کے دوست تھے آ خری لمحہ تک ان کے دوست رہے اور دوست نوازی میں وہ کسی بھی حد تک جانے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ "ہر دوست نہیں ہو تا ہاتھ ملانے والا "رانا اعجاز دوستی کے اس فلسفہ کو جانتے بھی تھے ما نتے بھی تھے اور عمل بھی کرتے تھے۔۔
میرا وہ بہت احترام کرتے تھے ہمارے درمیان ہمیشہ احترام اور محبت کا رشتہ رہا۔۔ بہت پیار کرتے تھے مجھ سے اور میرے بچوں سے۔۔ ایک تعلق تھا گھریلو سا۔کئی بار ایسا ہوا کہ کہتے انجم بھا ئی بھابھی سے کہیں دال چاول بنا ئیں آج دل کر رہا ہے کھانے کو ، لیکن اتنی قربت اور محبت کے با وجود وہ میرے دوست نہیں تھے وہ اس لئے کہ میں ان کے والد صاحب کا دوست تھا ۔
ان کے والد میرے دوست ہو میو پیتھک ڈاکٹررانا رفیق چوک اعظم کی ایک معروف سوشل ورکر اور سماجی شخصیت تھے۔ علاقائی صحافت سے آشنا ہو نے کے بعد جب بھی چو ک اعظم جانا ہوا ڈاکٹر سے ملے بغیر واپسی نا ممکن رہی ۔ ڈاکٹر رفیق کی سیاسی وابستگی پیپلز پارٹی سے تھی ،مجھے یاد ہے ڈاکٹر نور محمد جب چوک اعظم کے چیئرمین بنے ان دنوں ڈاکٹر رفیق نے ایک دستکاری سنٹر بھی قائم کیا تھا۔ ڈاکٹر رفیق کی سیاسی وابستگی غالبا پیپلزپارٹی سے تھی ۔ شا ید یہی سبب تھا کہ جب بھی مجھے ان سے سیاسی گفتگو کا مو قع ملا کہ رانا صاحب دوسری سیاسی پارٹیوں کے مقابلہ میں پی پی پی سے زیادہ قریب محسو س ہو ئے۔
صبح پا کستان پر نواز شریف دور حکومت میں لگنے والی دوسالہ جبریہ بندش پی پی پی کے دور حکومت میں اس وقت ختم ہو ئی جب بی بی بے نظیر بھٹو شہید وزیر اعظم بنی۔ ہوا یوں کہ ایک دن جب ہم آوارہ گردی پر تھے مقامی انفار میشن آ فس کا ہرکارہ مجھے ملنے کے لئے دو تین بار گھر آیا ، جب سہہ پہر کو واپسی ہو ئی تو گھر والون نے بتا یا ہے کہ رانا صا حب نے آپ کو دفتر بلایا ہے ۔ میں نے یہ حکم سنتے ہی بلا تا خیر اپنے سکو ٹر کا رخ واپس موڑا اور دفتر حاضر ہو گیا ۔ رانا اعجاز اور ہمارے سینئر جرنلسٹ عثمان خان مرحوم دفتر میں بیٹھے چا ئے پی رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی مسکراتے ہو ئے کہنے لگے کیا لکھ دیا ہے یار ؟۔۔ جاؤ ڈی سی آفس میں تمہارا انتظار ہو رہا ہے ۔میں نے پو چھا ۔۔ سر خیریت ؟ کہنے لگے پتہ نہیں بس تمہیں بلایا ہے اس تا کید کے ساتھ کہ اگر ڈی سی صاحب دفتر میں نہ ہوں تو تم کیمپ آ فس(گھر) پر جا کر ملاقات کرو آج ہی۔لگتا ہے کہ تمہارے اخبار سے متعلقہ کوئی ارجنٹ مسئلہ ہے کو ئی ۔۔یہ سن کر میں نے اجازت طلب کی تو عثمان خان ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ صحرائی صاحب ۔۔ کسی ضمانتی کو بھی سا تھ لے جا نا یار۔۔۔۔(اس بارے باقی ان کہی پھر کبھی سہی)
میجرجزل طارق عزیز مرانی جن دنوں حیدر آ باد میں تھے انہوں نے لیہ کے چند دوستوں کو سندھ کے مطا لعاتی دورے کے دعوت دی۔چھ روزہ اس دورے میں دیگر دوستوں کے ساتھ مجھے بھی رانا اعجاز کی سنگت نصیب ہو ئی ، دیگر دوستوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر خیال امروہی ، اور مہر نور محمد تھند بھی ہمارے ہم سفر تھے جو آج اس دنیامیں نہیں ر ہے ، عقابوں کے ہم سفر کے نام سے یہ سفر نامہ کتابی شکل میں بھی شا ئع ہو چکا ہے۔ان چھ دنوں کی رفاقت میں مجھے رانا اعجاز محمود کی دوست نوازی کابہت قریب سے مشا ہدہ کر نے کا موقع ملا۔
رانا جی کی سنگت اور رفاقت کے ان دنوں میں مجھے تو لگا کہ رانا یار باش بندہ ہے اتنا دوست نوا ز۔۔ کہ اس کی سوچ اس کا نظریہ سبھی کچھ دوستی کے رنگ میں رنگے ہو تے ہیں