قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے
آج بروز جمعرات12دسمبر2024کی شام کو میرا جگری دوست ،ہم نفس یارراشد سیال ،ہمیں چھوڑ کر اللہ کے حضور حاضر ہوگیا ہے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔راشدسیال اپنے لواحقین میں جاتے ہوئے بیوہ ،چارسعادت مندبیٹیاں اور ایک معصوم بیٹا ،تین بھائی اور لاکھوں دوستوں کو روتا چھوڑ کرجہانِ فانی سے جنت مکین ہوگیا ہے۔
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
میں نے اپنے جگری یار،راشد کےلیے ایک مضمون 2013میں لکھا تھا،وہ ایک بار ماہنامہ ’’لا پوسٹ‘‘میں ، دوسری بار روزنامہ ’’خبریں ‘‘میں شائع ہوا تھا۔وہی تحریرپھر راشدسیال کی کتاب کی زینت بھی بنی۔آج دُکھی دل کے ساتھ سر دست یہ جذبات قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں۔
راشد سیال ،وسیب کا باکمال خطاط
انہیں قرآن پاک کی کتابت کرنے والے پہلے ملتانی خطاط ہونے کا اعزاز حاصل ہے
تخلیق کائنات کے حسن و زیبائش میں اشیاء و اجسام کی آرائش کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ قدرت کے کارخانے میں ہر چیز کی اپنی حیثیت ہے ۔ فضا میں طوطے اور کوئل کی رَس گھولنے والی سریلی آواز کے ساتھ اگر کوے اور چیل کی کرخت بولی موجود نہ ہو تو ہمیں اُن حسین و جمیل پرندوں کے ترانے کبھی بھلے نہ لگتے ۔
سمندر میں مچھلیاں تیر رہی ہیں۔ جنگل میں ہاتھی چنگھاڑ اورشیر دھاڑ رہا ہے ، زمین میں چھوٹے چھوٹے لاکھوں کیڑے رینگ رہے ہیں ، بحر و بَر کی یہ رنگینیاں اور فضا کی یہ تازگی اور لاکھوں کروڑوں پرندے اور اُن کی اَن گنت بولیاں، پہاڑوں کی متانت اور اُن میں زندگی بخشنے والے اُبلتے چشمے، قطار اندر قطار کھڑے درخت، بہاریہ ہوا کے جھونکے اورزمین پر بچھے سبزے میں لاکھوں اقسام کی بوٹیاں ہر طرف خالق کائنات کے عظیم آرٹ کا مظہر ہے جو ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک اور دماغ کو تازگی بخشنے کا سامان کئے ہوئے ہے ۔
نظام ربوبیت کے یہ مناظر اور تخلیقی رنگ و بُو کی گلکاریاں اپنے حسن و جمال کی طرف کھینچتی ہیں اور انسان کائنات کے اِس وسیع ترجمالیاتی زیبائش و آرائش سے مرصع اور حسین و جمیل آرٹ میں کھو کر خود بخود کہتا ہے ’’سبحان اللہ ‘‘!!
مجسمہ سازی ، مصوری، پینٹنگ، شاعری، نثر نگاری، اداکاری اورخطاطی یہ سب فنون لطیفہ کی اقسام ہیں۔ سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ فنونِ لطیفہ کیا ہے؟سادہ سی بات ہے کہ فنِ لطیف کی جمع ’’فنونِ لطیفہ‘‘ ہے۔ کائنات کا جتنا بھی تخلیقی شعور ہے وہ سب کا سب فنون لطیفہ کا شاخسانہ ہے۔ ’’اللطیف‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے۔ اللہ کریم جو نہ سمجھ آنے والی طاقت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر، معبود مطلق اور زبردست حکمت و دانائی کا مالک ہے ،جسے ماننے کا حکم ہے اور وہ بھی ’’باالغیب‘‘ سمجھنے کی کوشش میں گمراہی کا راستہ کھلتا ہے۔ لہٰذا اُسے اُس کے فرمان اور اُس کے اپنے بتائے ہوئے اُصولوں کے مطابق اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ماننا ہے ۔ اسی کا نام ایمان ہے ۔
فنون لطیفہ ، صفتِ لطیف سے مشتق ہے اور جو چیز جتنی لطیف ہوتی ہے وہ اُس قدر انتہائی طاقت ور ہوتی ہے۔ صفت لطیف کے چند مناظر ملاحظہ ہوں ۔
ہوا کتنی لطیف ہے کہ ہم ہوا کے سمندر میں جی رہے ہیں، ہر جگہ موجود ، ہر چیز میں گھسی ہوئی ہے مگر ہمارے ذرا سے ہاتھ ہلانے پرپاش پاش ہو جاتی ہے۔ مگر کتنی طاقت وَر ہے کہ بڑے بڑے درخت جڑ سے اُکھاڑ پھینکتی ہے۔ بڑی بڑی عمارتیں اس کی طاقت کے سامنے دست بستہ ہیں ۔ آگ کس قدر لطیف ہے۔ کہ نظر نہیں آتی اُس کی آنچ سے جلنے والا مادہ نظر آتا ہے مگر وہ نظرنہیں آتی ۔آگ کی لو پھونک مارنے سے آس پاس گھوم جاتی ہے مگر اس کی طاقت سے کس کو مفر ہے؟ روشنی کتنی لطیف ہے اور اس کی لطافت اور طاقت کے نمونے صبح شام ہم نظر نواز کرتے رہتے ہیں ۔ پانی کتنا لطیف ہے کہ ہم جیسے چاہیں اُسے انڈیلیں ، پیئیں، برتنوں میں بھر لیں، مگر اس کی طاقت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ۔ پانی کے طوفان سے بستیوں کی بستیاں غرقاب ہو جاتی ہیں۔ بڑے بڑے دیو ہیکل جہاز جن میں پورے کا پورا شہر اور اس کا مکمل نظام آباد ہوتا ہے انتہائی لطیف پانی اپنی کمر پر لاد کر اِدھر سے اُدھر لئے پھر رہا ہوتا ہے۔ روح کیسی لطیف چیز ہے جس کی کار گزاری کوآج تک انسان سمجھنے سے قاصر ہے۔ لہٰذا جو چیز جتنی لطیف ہوتی ہے وہ نظر بھی نہیں آتی اور بے پناہ طاقت وَر ہوتی ہے ۔ لطیف شے اس وقت نظر آئے گی جب اُس کے ساتھ کوئی کثیف چیز منسلک ہو جائے گی۔
فنونِ لطیفہ میں’’فن خطاطی‘‘ ہی لطیف منزہ و پاکیزہ ہے۔ جس کے طفیل ہمیشہ سے اللہ کا کلام لکھا گیا۔ اسلامی فنون میں سے اس فن کو زیادہ اہمیت ہے کیونکہ یہ وہ واحد فنِ لطیف ہے جس میں جملہ فنون سموئے جانے کی اہلیت موجود ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ ہزار سالہ اسلامی تاریخ میں فن خطاطی نے اَن مٹ نقوش ثبت کئے ہیں۔ کائنات کے تمام عجوبے اور اس میں کی جانے والی کاریگری میں خطاطی کو اہم مقام حاصل ہے۔ اسلامی ممالک و غیر مسلم دنیا میں بڑی بڑی عمارتوں، یادگاروں، عبادت گاہوں پر خطاطی کے آئمہ نے اپنی خدمات کے ذریعے ایسے خوبصورت نقوش چھوڑے کہ ایک دنیا ورطۂ حیرت میں ہے کہ یہ ایسا فن ہے اس کے ذریعے خوبصورتی ، حسن و جمال اور رنگوں کی گلکاری کے ساتھ ساتھ اپنا فکری پیغام بھی نسل دَر نسل پہنچا دیا جاتا رہا ہے۔ مسلم دشمن طاقتوں ہلاکو خان وغیرہ نے ملکوں کے ملک تہ تیغ کئے ، تہذیب فنا کردی، مدارس اُجاڑ دیئے ، خانقاہیں برباد کردیں، کتب خانے نذر آتش کردیئے مگر اُن خوبصورت عمارتوں کو رہنے دیا جن کے حسن و زیبائش میں اُمت مرحومہ کا پیغام نقش تھا۔ بہرحال یہ موضوع اپنی ایک الگ نشست کا متقاضی ہے ۔ ہم اس وقت ملتان کے ایک سپوت ، فن لطیف ’’خطاطی‘‘ کے امام اورجنون کی حد تک فن خطاطی میں فنا ہو جانے والے فنکار کا ذکر کرنا ناگزیر سمجھتے ہیں ۔
عہدقدیم کی یادگار ’’ملتان‘‘ جو کبھی علم و ہنر کا گہوارہ تھا اوردُور دُور سے آ کر یہاں علم و فضل کے متلاشی اپنی علمی اور فنی پیاس بجھاتے ۔ ہندوستان کے کونے کونے سے بلکہ ایران و چین کے اس طرف ’’کاشغر‘‘ سے فنکار اورعلماء نے آ کر ملتان ہی کو اپنا مسکن بنایا۔
اسی شہر کے باسی، ایک علمی اور فنی گھرانے میں آنکھ کھولنے والے فنکار، ملتان کے تاریخی دروازہ ’’بوہڑ گیٹ ‘‘ کے باہر قدیم دریائے راوی کے کنارے آبادمحلہ فرید آباد میں رہائش پذیر جناب حاجی عاشق حسین مرحوم کے گھر پیدا ہونے والے جناب محمد راشد سیال ہیں ۔
راشد سیال نے ستر کی دہائی کے موسم بہارمیں23 فروری کی بہارآفریں صبح 1970 کو اس جہانِ رنگ و بو میں آنکھ کھولی ۔یہ وہ دور ہے جب ہماراسماج غلامی کے دوسرے دور میں داخل ہو کر اپنے فنی اور علمی ورثے سے ہاتھ دھوچکا تھا۔راشدسیال نے روایتی تعلیم یعنی میٹرک تک ملتان کے مایہ ناز ادارہ ’’پائلٹ سیکنڈری ہائی سکول ‘‘ میں حاصل کی۔اسی دوران 1985 ء میں راشدسیال نے اپنے والد گرامی جناب حاجی عاشق حسین مرحوم کے حسن نظر اور خواہش کے تحت جناب استاذ ظہورآزاد سے خطاطی سیکھنے کا آغاز کیا۔1988 ء میں اپنے مربی واستاذ ظہورآزاد سے اجازت لے کر مارکیٹ میں آگئے۔روزنامہ سنگ میل نے بہاول پور سے اپنی اشاعت کا آغاز کرنا چاہا تو وہاں راشدسیال کو بطور ہیڈکاتب تعینات کیا۔کراچی کے ایک تاجرجناب علوی صاحب نے راشدکو کراچی بلواکر وہاں کمپیوٹر پر خط راشدکے نام سے سافٹ وئیربنوایا جو ’’اِن پیج‘‘ سے پہلے اُردو مارکیٹ میں متعارف ہوا۔ اپنی محنت،لگن اور جستجو کی بنا پرراشدسیال 1995 ء تک خط نستعلق میں ملکی سطح پراُبھرتے ہوئے استاد تسلیم کئے گئے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب ہمارے شہر کے خطاط یہ میدان چھوڑکر راہِ فراراختیار کر چکے تھے،کمپیوٹر کی ایجادکا بہانہ بنا کر اپنی روایتی کام چور عادت کے پیش نظراس پاکیزہ فن خطاطی کو دفن کر کے مکمل ترک کرچکے اُسی دوران اِس مردِ میدان نے حوصلہ نہیں ہارا اور آخر دم تک جنگ لڑتا رہا اور بالآخر پاکستان ہی نہیں بلکہ بیرونِ ملک اسی پاکیزہ فن کی بنیاد پر عزت ،شہرت اوررزقِ حلال بھی کمایا۔راشدسیال نے فن خطاطی کے دیگر ہفت خطوں میں اپنی مہارت دکھانا شروع کی۔اس کے لئے انہیں دو مزید بڑے اساتذہ کے روبرو زانوئے تلمذ تہہ کئے۔استاذ شفیق الزمان خان اور استاذ خالد یوسفی سے کسب فیض کیا اورنستعلیق کے علاو ہ تعلیق، ثلثؔ،رقعہؔ،طغریٰؔ،نسخ ،کوفی میں مہارت حاصل کرلینے کے بعد ایک الگ خوبصورت خط ِ راشد ایجاد بھی کرلیا۔جس کے اصول و ضوابط پر راشد نے ایک کتاب بھی لکھی۔ان کی انہی گوناگوں خوبیوں اور فنی محاسن و مہارتوں کو دیکھتے ہوئے ملتان کی بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ آرٹ نے انہیں بطور استاذ لے لیا چنانچہ یونیورسٹی کی ماسٹر کلاس کو راشد باقاعدہ لیکچر دیتے رہے ہیں۔جو اہل ملتان کے لئے اعزاز سے کم نہیں ہے۔
راقم الحروف کا موصوف کے ساتھ گزشتہ چالیس سال سے تعارف و تعلق ہے ۔ اسی تناظر میں غور کیا کہ ملتان میں خطاط تو اور بھی بہت ہیںاور محنتی بھی ہیں ۔ مگر یہ عزت و وقار اور پذیرائی جو راشد سیال کو نصیب ہے اور کسی کو نہیں اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ علاوہ ازیں دیگر وجوہات بھی ہوںگے۔ چونکہ انسان کی زندگی کے کئی پَرت ہوتے ہیں اور انسان اپنے مختلف رویے اور متفرق عملی کارگزاریوں کے نتیجے میں زندگی گزارتا ہے اور تکریم حاصل کر کے محظوظ ہوتا ہے۔ راشد سیال کی اَنتھک محنت و مشقت سے عبارت زندگی ایک کھلی کتاب ہے۔ مگر میں اُن کے دیگر معاملات پر قلم کاری نہیں کرتا۔ جو سب سے بڑی وجہ اور تمام اُمور پر بھاری کام مجھے نظر آیا جس کی بدولت راشد سیال کو آسمان کو چھوجانے والی بلند قامتی نصیب ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ راشد سیال اپنے فنِ لطیف ’’فنِ خطاطی‘‘ کی طرح انتہائی لطیف، منزہ، مبرا، پاک و صاف اورخلق خدا کے لئے دردِ دِل رکھنے والے خوبصورت انسان ہیں ۔ راشد سیال کے فن کی صفائی و خوبصورتی اِن کے دل کی آئینہ دار ہے۔ وہ جب کاغذ پر قلم کے دائرے بناتے ہیں اور اُن دائروں میں سے اچانک دل کو چھو لینے والا نقش نمودار ہوتا ہے اور کبھی اُن کے صاف و شفاف ہاتھوں سے کھینچی ہوئی لکیروں میں سے آیات قرآنی اپنے تمام تر معانی و جاہ و جلال اورحسن و جمال کے رنگ بکھیرتی نمودار ہوتی ہیں تو عقل دَنگ رہ جاتی ہے۔ ایک بے وسائل علاقے و ماحول میں جنم لینے والا شخص جو ابھی اپنی جوانی کی دہلیز پر قدم جمائے شباب سے آشنا ہوا ہے ۔ یہ اس کے کارہائے نمایاں ہیں۔ سبحان اللہ و بحمدہٖ۔چنانچہ یہ دیکھ کر ایک دن میں نے خواہش ظاہر کی کہ راشد!تم قرآن مجید کی کتابت کرو میں اس کو چھاپنے کا بیڑہ اُٹھاؤں گاان شاء اﷲ۔اس پر راشد نے کہا کہ میں یہ کام پاکستان میں نہیں بلکہ مدینہ منورہ میں بیٹھ کر کرنے کا متمنی ہوں۔یہ پاکیزہ خواہش سن کر میں دل کی گہرائی سے متاثر ہوا۔اس بات کے تقریباًایک سال بعد 2012 ء میں ایک پبلشنگ کمپنی نے اخراجات کا بیڑہ اُٹھایا تو راشدسیال نے محض اﷲکی توفیق اور جستجو کے سبب قرآن حکیم کو مکمل خطاطی کے معروف ترین خط نسخ میں کتابت کرکے سعادت حاصل کی۔’’خط نسخ یا خط قرآن‘‘کے بارے میں اہل فن کی دو آراء سامنے آئی ہیں۔ پہلی رائے یہ ہے کہ خطِ نسخ کی ایجادقرآن مجیدکی کتابت خطِ کوفی میں ہوئی تھی یعنی یوں سمجھئے کہ خط نسخ نے خط کوفی کو منسوخ کردیا اس کے قرآن مجید کی کتابت خط نسخ میں ہونے لگی۔دوسری رائے کے مطابق :قرآن مجید چونکہ ایک نسخے سے دوسرے نسخے میں نقل کر کے کی جاتی ہے اس لئے یہ نسخ یعنی نقل کرنا کہلایا۔
یہ وہ معروف ترین خط ہے جو تقریباً ایک ہزار سال سے اپنی خوبیوں کی بنا پر کتابت قرآن مجید کے مستعمل اور پسندیدہ ہے اس خط کی خوبی یہ ہے کہ الفاظ کا عرض طوالت کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے اس لئے حروف پر اعراب ونقاط اپنے صحیح مقام پر آسانی کے ساتھ لگائے جاتے ہیں۔چنانچہ راشدسیال نے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ایک بہت بڑا اعزازحاصل کرلینے میں کامیاب ہوگیاکہ ملتان کی سرزمین جو کہ آرٹسٹوں اور خطاطوں کی افزائش میں اپنا ثانی نہیں رکھتی وہاں سینکڑوں،ہزاروں اساتذہ فن کی موجودگی اور اُن کا اصاغرپر بے مثال رعب اور دبدبہ ہونے کے باوصف انتہائی پاکیزگی اور سرعت کے ساتھ اﷲ کی مددکے تحت قرآن مجید کی مکمل کتابت کر لی۔اس پر دو سال کا عرصہ صرف ہوا۔راشدسیال کے مزاج میں مزید نکھاراور کردارمیں مزید پاکیزگی درآئی۔
دریں اثنا راشدسیال ملتان کے یکتاوتنہا خوش نصیب خطاط،آرٹسٹ،فنکار ہیں کہ جنہیں یہ سعادتِ عظمیٰ حاصل ہوئی ہے کہ انہوں نے خط قرآن یعنی خط نسخ کو اپنے پورے عروج و مانوس فنی تکنیکی کے ساتھ دوسال کے قلیل عرصہ میں کتاب اﷲکی کتابت مکمل کر لی۔
راشد سیال کا دِل اُس کے فن کی طرح پاک و منزہ اور شیشے کی مانند صاف شفاف ہے ۔ وہ فنکار سے زیادہ انتہائی دَرد مند ، ذمہ دار شخص ہے ۔ اُس کی سوچ اور فکر میں خیال آفرینی ہے۔ عاجزی و انکساری کی دولت سے مالا مال راشد سیال فرمانبردار بیٹا، بلند نگاہ رکھنے والا بھائی، محبت کرنے والا خاوند، انتہا درجے کا پیار کرنے والا باپ اور عشق و خلوص سے لبریز وفا دار دوست ہے۔
راشد سیال کی انہی گونا گوں خصوصیات و عنایات الٰہی کی بدولت اللہ نے اُس کے فن کو رنگ لگایا۔ اُنہیں ملتان کی سب سے بڑی درس گاہ ’’ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ‘‘ میں ایم اے کی کلاس کو پڑھانے کا شرف حاصل ہے۔ راشد سیال نے بیرونِ ملک یعنی سعودی عرب، ایران، مسقط میں سرکاری و شاہی مہمان کے طور پر اسفار کر کے اپنے علم و ہنر کے جوہر دکھائے اور پھر اپنے حسن عمل، کردار کی پاکیزگی کے نتیجے میں اچھے شہری کے طور پر عزت ، وقار، شہرت جیسی نعمتوںسے متطمع ہو کر لوٹے۔
راشد سیال نے مروجہ خطاطی کے سات خطوں میں کمال حاصل کیں اور پھر اپنی شبانہ روز بے لوث محنت سے ہزاروں پینٹنگز تیار کیں۔ اُن کے کام میں خصوصیت یہ ہے کہ خطاطی کے الفاظ میں اُن کے مفاہیم کی روشنی کے تحت رنگ آمیزی اور نقش و نگار سے مرصع نظر آتی ہے۔ جس سے اُس نمونہ کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بلا مبالغہ پاکستان میں کم و بیش تین ہزار مساجد کی تعمیر میں استعمال ہونے والی قیمتی ٹائلز پر اسمائے حسنیٰ، اسمائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، قرآنی آیات ، اشعار اوردیگر پیغامات و احادیث نصب ہیں۔ راشد سیال کے اس کام کو دیکھنے اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچنے کے لئے ایک زندگی دَر کار ہے ۔
انہوںنے طباعتی دنیا میں بلا مبالغہ ہزاروں کتب کے سر وَرق اور اَن گنت بروشرز، میگزین ڈیزائن کر کے ناقدین آرٹ کو مبہوت کردیا۔ یہ مختصر ترین مضمون راشد سیال کی شخصیت و فن کا احاطہ نہیں کرتا مگر ہم نے تو صرف اُنگلی کٹا کر شہیدوں میں نام لکھواایا ہے۔ کبھی اللہ نے موقع عطا کیا تو راشد پر ایک وقیع اور بھر پور تحریر پیش کریں گے ۔اتنی خوبیوں والا انسان آج جدا ہوگیا ہے۔راشدسیال کے نام کے ساتھ مرحوم لکھتے ہوئے ہاتھ کانپتا ہے اور اس زندہ انسان کے نام نامی کے ساتھ رحمۃ اللہ علیہ کا لاحقہ ،دل ودماغ تسلیم نہیں کرتا۔آہ راشد سیال!!
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تُو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
حشرمیں پھر ملیں گے میرے دوستو
بس یہی ہے مقام آخری آخری
ابومیسون اللہ بخش،بارہ ،دسمبردوہزار چوبیس ،بروزجمعرات