راجن پور . وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا ہے کہ ملک میں امیر اور غریب کیلئے ایک ہی طرح کا صحت اور انصاف کا نظام لائیں گے، صحت انصاف کارڈ کے اجراءسے ہر غریب خاندان کو علاج کیلئے 7 لاکھ 20 ہزار روپے ملیں گے، نئے پاکستان کا مطلب قائداعظم اور علامہ اقبال کا پاکستان ہے جس میں امیر اور غریب سب برابر ہوں گے، وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار اپنے خلاف مہم سے گھبرائیں نہیں، انتقامی کارروائی کا شور مچانے والے سن لیں، ایک ایک کا احتساب کریں گے۔
تفصیلات کے مطابق راجن پور میں صحت انصاف کارڈ کے اجراءکی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہم پاکستان کی پہلی آزاد نسل تھے کیونکہ ہمارے والدین ایک غلام ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے ۔ میں بار بار اپنی قوم کو سمجھاتا ہوں کہ یہ ملک ایک نظرئیے پر بنا تھا اور جب بھی کوئی قوم اپنے نظرئیے سے ہٹتی ہے وہ تباہ ہو جاتی ہے، ہم اس نظرئیے سے بہت دور چلے گئے ہیں اور جب نئے پاکستان کی بات کرتے ہیں تو دراصل قائداعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان کی بات کرتے ہیں، وہ پاکستان جو ایک عظیم خواب کا نام تھا۔
انہوں نے کہا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی سنت پر عمل کرنے کی تلقین کی ہے، سنت نبی کریم ﷺ کا کردار ہے اور عملی طور پر وہ مدینہ کی ریاست چھوڑ کر گئے تھے جو ایک ماڈل بنی تھی جس پر مسلمان اگلے 700 سال تک دنیا کی عظیم قوم بنے رہے، وہ ایک ماڈل تھا جس کی بنیاد نبی کریمﷺ نے رکھی اور مسلمان اس کی بنیاد پر عظیم قوم بنی، پاکستان دنیا میں واحد ملک تھا جو اسلام کے نام پر بنا، لیکن ہم نے ابھی تک یہ نہیں سوچا کہ وہ کیا پاکستان تھا جوبننا چاہئے تھا جس کیلئے قربانیاں دی گئیں اور ہمارے عظیم لیڈر قائداعظم نے 40 سال جدوجہد کی، ہم سب کو سمجھنا چاہئے کہ اگر وہ پاکستان ہم نے نہ بنایا تو اس کا و جود ختم ہو جائے گا، اگر ہم نظرئیے پر واپس نہ آئے تو اس ملک کا مقصد ہی نہیں رہے گا۔
بلوچ کہیں گے کہ بلوچستان میں تیل اور گیس اور سونا نکلا ہے تو ہم کیوں پاکستان کا حصہ بنیں، سندھی کہیں گے کہ ہم کیوں پاکستان کا حصہ بنیں، سب پاکستان کا حصہ تب بنیں گے جب ہم ایک قوم بنیں گے، ہم پوری کوشش کریں گے کہ اس ملک کو مدینہ کی ریاست کے اصولوں پر کھڑا کریں جس کا سب سے بڑا اصول انصاف اور دوسرا انسانیت تھا، راجن پور پاکستان کا وہ خطہ ہے جو سارے پاکستان سے پیچھے رہ گیا ہے، اس لئے صحت انصاف کارڈ کا اجراءبھی راجن پور سے کر رہے ہیں جس کے بعد باقی چیزیں بھی آئیں گی کیونکہ ابھی تو صرف شروعات ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ صحت سب سے بنیادی چیز ہے کیونکہ اگر صحت نہ ہو تو انسان کو جتنا مرضی پیسہ دیدو، وہ اس کا فائدہ نہیں اٹھا سکے گا، آج یہاں 2 لاکھ 13 ہزار خاندانوں کے درمیان صحت انصاف کارڈ بانٹیں گے جس کے ذریعے ہر خاندان کے پاس 7 لاکھ 20 ہزار روپے علاج کیلئے آئیں گے، ہم سب جانتے ہیں کہ غریب گھرانے میں ایک دفعہ بیماری آ جائے تو اس کا سارا بجٹ تباہ ہو جاتا ہے، مجھے آج بہت خوشی ہے کہ ڈاکٹر یاسمین اور عثمان بزدار نے صحت انصاف کارڈ کا اجراءراجن پور سے کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد باقی پسماندہ علاقوں میں جائیں گے اور پھر سارے پنجاب میں غریب گھرانوں کو صحت انصاف کارڈ فراہم کئے جائیں گے۔ فاٹا یا قبائلی علاقے کے لوگ سب سے پیچھے رہ گئے ہیں جبکہاں وہاں جنگ نے مزید غربت پیدا کر دی اور مجھے خوشی ہے کہ قبائلی علاقے میں ہر گھرانے میں صحت کارڈ دینے کافیصلہ بھی کیا گیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں ہسپتالوں کا نظام بھی درست نہیں کیونکہ غریب آدمی سرکاری ہسپتال میں جاتا ہے اور امیر لوگ پرائیویٹ ہسپتال میں جاتے ہیں جس کے باعث آہستہ آہستہ سرکاری ہسپتالوں کا نظام گرتا گیا۔ میں ایک سرکاری ہسپتال میں پیدا ہوا تھا، میری بہنیں سرکاری ہسپتال میں پیدا ہوئیں کیونکہ وہاں بہترین علاج ہوتا لیکن آج سرکاری ہسپتالوں کا یہ حال ہے کہ پیسے والے لوگ سرکاری ہسپتال میں جانے کیلئے نہیں ہیں۔ آپ نے دیکھ ہی لیا ہے کہ نواز شریف کہتا ہے کہ مجھے جیل بھیج دو یا پھر علاج کیلئے برطانیہ بھیج دو کیونکہ پاکستان کے ہسپتال ٹھیک نہیں ہیں، 10سال وزیراعلیٰ رہنے والا شہباز شریف بھی باہر چیک اپ کروانے جاتا ہے، اس کا داماد بھی نیب سے بھاگا ہوا ہے، اس کا ایک بیٹا حمزہ شہبار شریف یا اس کی اہلیہ بھی باہر گئی ہوئی ہے، اسحاق ڈار علاج کے نام پر باہر ہے، نواز شریف جو تین مرتبہ پاکستان کا وزیراعظم رہا، اس کے بیرون ملک علاج پر قومی خزانے سے 28 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ کوئی رکن اسمبلی بیمار ہوتا تو وہ بھی عوام کے پیسے پر علاج کیلئے باہر چلا جاتا تھا، دنیا کا کون سا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ حکمران باہر علاج کروائیں اور عوام سرکاری ہسپتال میں چلے جائیں جسے حکمران اپنے علاج کے قابل ہی نہیں سمجھتے، ہم ایسا پاکستان بنانا چاہتے ہیں جہاں سرکاری ہسپتالوں کا معیار اس قدر بہترین ہو کہ وزیراعظم، وزرائ، امیر اور غریب سب اپنا علاج کروا سکیں۔ میں ڈاکٹر یاسمین راشد سے کہتا ہوں کہ وہ ہسپتال میں اصلاحات کے عمل کو مزید تیز کریں اور جو لوگ اس عمل کے خلاف ہیں وہ اپنے ذاتی فائدوں کیلئے عوام کے ہسپتالوں کے ٹھیک ہونے کی مخالفت کر رہے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں ایک رات کو راولپنڈی کے معروف ہسپتال ہولی فیملی ہسپتال چلا گیا جہاں علاج کی بہترین سہولیات میسر ہوتی تھیں مگر جب وہاں گیا تو یقین کریں کہ شدید سردی میں بھی ایک ایک بستر پر تین تین عورتیں تھیں اور کچھ عورتیں زمین پر سو رہی تھیں جبکہ ایک ایک بستر پر چار چار بچے تھے اور مریضوں کے لواحقین باہر سو رہے تھے حالانکہ ہسپتال کے کئی کمرے ڈینگی کے نام پر خالی تھے جو سردیوں میں ہوتا ہی نہیں ہے لیکن چونکہ وہاں سب غریب لوگ تھے اس لئے ان کی کسی کو کوئی فکر نہیں تھی۔ ہسپتالوں کا یہ حال اس وقت ہوا جب سزا و جزاءکا نظام ختم کر دیا گیا اور جب ایک ادارے میں سزا اور جزا کا نظام ختم جائے تو کارکردگی ختم ہو جاتی ہے۔ خیبرپختونخواہ میں جب نظام تبدیل کیا تو سرکاری ہسپتالوں میں کئی کنسلٹنٹ صرف ایک گھنٹہ کام کرنے آتے تھے اور باقی وقت پرائیویٹ ہسپتالوں میں جاتے تھے اور کروڑوں روپے کی مشینیں خراب پڑی تھیں لیکن وہی مشینیں پرائیویٹ ہسپتالوں میں بالکل ٹھیک چل رہی تھیں جس کی وجہ سے پیسہ پرائیویٹ ہسپتال بنا رہے تھے اور سرکاری ہسپتالوں کا نقصان ہو رہا تھا جو عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے پورا کیا جا رہا تھا۔ میں ڈاکٹر یاسمین راشد سے کہوں گا کہ وہ جلد از جلد پنجاب میں ہسپتالوں کا اصلاحاتی نظام لائیں تاکہ سرکاری ہسپتال ٹھیک ہو سکیں اور صحیح طرح سے علاج معالجہ ہو، ہسپتالوں کی حالت وقت ٹھیک ہو گی جب سربراہ درست لگائے جائیں گے۔
نبی کریمﷺ نے جب مدینہ کی ریاست کی بنیاد رکھی تو انہوں نے کہا کہ تم سے پہلے بڑی قومیں تباہ ہوئیں کیونکہ کمزور کیلئے الگ نظام تھا اور طاقتور کیلئے الگ نظام تھا، ہم نے سب سے پہلے جو تبدیلی لانی ہے وہ سب کیلئے ایک قانون کا نظام لانا ہے۔ الگ الگ نظام کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب پرویز مشرف کے دور میں مجھے آٹھ دن جیل میں رکھا گیا، وہاں صرف غریب لوگوں کو دیکھا اور کوئی طاقتور ڈاکو مجھے نظر نہیں آیا لیکن جب اسمبلی میں آیا تو سارے بڑے طاقتور ڈاکو نظر آئے، اب آج تماشہ دیکھیں کہ جب طاقتور ڈاکو کو پکڑتے ہیں تو سارے اسمبلی میں اکٹھے ہو جاتے ہیں کہ جمہوریت خطرے میں آ گئی ہے، مغربی جمہوریت ہمارے سے آگے اس لئے نکل گئی ہے کیونکہ وہاں سزا و جزاءکا نظام ہے۔ یہاں جسے پکڑا جاتا ہے وہ نیلسن منڈیلا بن جاتا ہے، شہباز شریف ایسے جیل جا رہا ہوتا ہے جیسے کشمیر فتح کر کے آیا ہو، نواز شریف کو بھی ہر روز ٹی وی پر دیکھتے ہیں، ابھی برطانیہ میں ایک خاتون ممبر آف پارلیمینٹ کو سزا ملی ہے جس کا قصور یہ تھا کہ اس نے عدالت میں جھوٹ بولا، مجھ پر منی لانڈرنگ کا الزام لگایا گیا تو میں ایک سال تک سپریم کورٹ میں رہا اور اپنے خلاف الزامات کا دفاع کیا، 40 سال پرانے کاغذات ڈھونڈ کر دئیے، 34 سال پرانے کاغذات دکھائے، 40 سال پرانے کنٹریکٹ دکھائے، کیونکہ میں عوام کا نمائندہ تھا اور عوام کا نمائندہ ٹیکس کے پیسے کا رکھوالا ہوتا ہے جسے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی صفائی دینا پڑتی ہے، یہاں جھوٹ پر جھوٹ پکڑے جا رہے ہیں مگر ایک بھی کاغذ نہیں دے رہے۔
لندن میں چار محلات سامنے آئے تو انہیں تسلیم کر لیا گیا لیکن انہیں صحیح ثابت کرنے کیلئے صرف ایک دستاویز دینے کی ضرورت تھی اورسارا کیس ختم ہو جاتا مگر اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ایک چیز نہیں دے سکے اور وہ سب کو معلوم ہے کہ کیونکہ نہیں دے سکے، انہوں نے کہا کہ 2006ءمیں فلیٹ لئے مگر وہ 1993ءمیں لئے گئے تھے، یہ ملک تب آگے بڑھے گا جب طاقتور اور کمزور کا ایک ہی طرح کا انصاف کا نظام آئے گا، یہاں اربوں روپے لوٹنے والا طاقتور ڈاکو 40 گاڑیوں کے پروٹوکول میں جاتا ہے اور غریب آدمی جیلوں میں پڑا ہوا ہے، یہاں جمہوریت اور اپنی چوری بچانے کے نام پر کرپشن کی یونین اور کرپشن کا ٹولہ بنا ہوا ہے، میں سب کو چیلنج کرتا ہوں، جو مرضی کر لیں، جتنا مرضی شور مچائیں، ہم نے ایک ایک کا احتساب کرنا ہے۔
اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہیں اپنے خلاف چلنے والی مہم سے نہ گھبرانے کی تلقین کی اور کہا عثمان بزدار جانتا ہے کہ پاکستان کے ہسپتالوں کا کیا حال ہے کیونکہ اس کا اور اس کے خاندان کا علاج ان ہسپتالوں میں ہونا ہوتا ہے، ان کو معلوم ہے کہ ان کے علاقے میں کیا حال ہے، لوگوں کو پانی نہیں ملتا، ڈھائی لاکھ کی آبادی میں ایک بھی ڈاکٹر نہیں، میں یہی چاہتا تھا کہ ایک ایسا وزیراعلیٰ آئے جسے عوام کے مسائل کا احساس ہو۔