ہم دنیا کے مشاغل میں اس درجہ مصروف ہوگئے ہیں کہ کم ہی یاد رہتا ہے کہ جن کے باعث ہمیں دنیا و آخرت میں کامیابی ملنا ہے وہ جینے کے جو آداب بتا ،سکھا گئے ہیں ان میں اکثر تو ہمیں یاد ہی نہیں ، اگر یاد ہیں بھی تو عمل نہیں کرتے آج محض یاد دہانی اور خیر و برکت کے لیے چند ارشادات نبوی ﷺ پیش خدمت ہیں
ایک دن حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی حضور نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر تھے دریافت کیا ، یارسول اللہ ہم لوگوں کے بارے میں آپ کو سب سے زیادہ اندیشہ کس بات سے ہے آپ نے زبان کی طرف اشارہ کیا یعنی اپنی زبان کو ٹھیک رکھنا اور کلام میں احتیاط کرنا
حضرت بلال بن حارث سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آدمی اپنے منہ سے کوئی کلمہ خیر نکال دیتا ہے اسے اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اس نے کوئی اچھا کام کیا ہے لیکن وہ ایک کلمہ خیر کل میدان حشر میں اللہ تعالی کی رضا مندی کا سبب بن جائے گا اسی طرح کوئی شخص بے سمجھے بوجھے نہایت بے پروائی سے کوئی بات منہ سے نکال بیٹھتا ہے اسے اندازہ بھی نہیں ہوتا مگر وہی بری بات کل قیامت کے دن اللہ کے غضب کا سبب بن جائے گی
حضرت عقبہ بن عامر نے حضورﷺ سے دریافت کیا یارسول اللہ مجھے یہ تو بتلائیے کہ نجات کا راستہ کیا ہے آپ نے فرمایا اپنی زبان کو قابو میں رکھو، اپنے گناہوں کو یاد کرکے اللہ کے خوف سے رویا کرو، آپ نے فرمایا کہ مومن کبھی کسی کو طعنہ نہیں دیتا، نہ کسی پر لعنت کرتا ہے
حضرت ابوالدرداسے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب بندہ کسی پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت آسمان پر جاتی ہے تو آسمان کے دروازے بند پا کر زمین کی طرف لوٹتی ہے زمین بھی اسے جگہ نہیں دیتی تو اس آدمی کی طرف جاتی ہے جس پر لعنت جس پر لعنت بھیجی گئی ہو،اگر وہ لعنت کا مستحق تھا تو ٹھیک ورنہ لوٹ کر اس آدمی پر پڑ جاتی ہے جو کسی پر لعنت کرتا ہے
حضرت ابوذر غفاری سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ جو شخص کسی کو فاسق یا کافر کہتا ہے اگر واقعتا جس کو کہا جائے فاسق یا کافر نہ ہوتو فسق او رکفر لوٹ کر کہنے پر پڑ جاتا ہے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے نیک بندے وہ ہیں کہ انہیں دیکھ کر خدا یاد آجائے اور بدترین بندے وہ ہیں جو چغل خوری کر کے مسلمانوں میں تفریق پھیلاتے اور بھائی کو بھائی سے جدا کراتے ہیں
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ! لوگو مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں بولو تو سچ بولو ، وعدہ کرو تو پورا کرو تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو اداکرو ،خود کو بدکاری سے محفوظ رکھو، غیر محرموں سے اپنی نگاہ کی حفاظت کرو، اپنے ہاتھ سے کسی کو ایذا نہ پہنچاو ¿
ہمیں اکثر گلہ رہتا ہے کہ دنیا میں خرابیاں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ اب یہ جہاں رہنے کے قابل نہیںرہا حقیقت یہ ہے کہ ان خرابیوں کی بڑی اور بھاری ذمہ داری ہم پر ہی عائد ہوتی ہے کہ ہم نے جس درجہ کی بے اعتنائی اور غیر ذمہ داری اختیار کر رکھی ہے اگر وہی ٹھیک ہو جائے تو ہمارے بیشتر مسائل حل ہو سکتے ہیں
۲
دنیا داری نبھاتے ہوئے ہم خود کو بلاوجہ زیر بار رکھتے ہیں، دنیا کا سب سے بڑا روگ ، کیا کہیں گے لوگ یہ روگ تو ہم نے خود پال رکھے ہیں اگر زندگی میں سادگی سچائی اور اخلاق کواپنالیاجائے تو جینا مرنادونوں آسان ہوجاتے ہیںنام نہاد ترقی یافتہ معاشروں میں جہاں فلک بوس عمارتیں اور کارپٹڈ روڈ تعمیر ہوئے، اٹھنے بیٹھنے چلنے پھر نے حتی کہ سانس لینے کے لیے مشینیں ایجاد ہو گئیںتو اپنی ذات کے اندر جینے اور اپنی ذات کے اندر مرنے والوں کو اب یہ احساس کھائے جارہا ہے کہ ان مشینوں میں انسان کہاں ہے؟جو ہم جیسا ہو،بولتا ، ہنستا ، روتا، سوتا جاگتا اقرار و انکار کرتا انسان ،جو روٹھے بھی اور منائے بھی
دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو میری وحشتوں کا ساتھی ہو
ان وحشتوں کوکم کرنے کے لئے اپنے جیسے انسانوں سے محفل ومجلس میں بھرپور اور بار بار رابطہ کیجئے اور خلوت ملے تو انسانوں کے رب، کائنات کے خالق سے رابطہ کیجئے خالق اور مخلوق سے رابطہ ہماری زندگی ہے اس زندگی کو مرنے سے بچائیے ورنہ موت جیسی زندگی تیزی سے ہماری راحت ، سکون اور چین و اطمینان کو نگل جائے گی