وہ آنکھیں بند کیے شعور اور لاشعور میں غوطہ زن تھی ۔کانوں میں ہلکا ہلکا پر جوش شور بازگشت بن کر گونج رہا تھا۔پجاری لڑکے سنکھ بجا کر اشلوک کے بول الاپ رہے تھے ۔جبکہ دیو داسیاں ست رنگے لباس میں پیروں میں گھنگرو باندھے رقص کر رہی تھیں۔کاہن اعظم کے ہاتھ میں تھامی سامگری سے سلگتے لوبان اور عنبر کی خوشبو سےفضا مہک اٹھی ۔کاہن اعظم کے اشلوک کی رفتار بڑھی تو نفیریاں بجانے والے بھی وجد میں آگئے۔دیوداسیوں کے پیر سرتال کے ساتھ چک پھیریاں بھی تیز تر ہوگئیں اور ان چوٹیوں میں گندھے زرد گلاب ٹوٹ کر بکھرنے لگے۔
مقدس مشروب نے اسے توانائی کے ساتھ ایسے سحر میں جکڑ دیا تھا کہ وہ اس سحر سے باوجود کوشش کے باہر نہ آ پا رہی تھی .اسکی پور پور کو سجایا اور سنوارا گیا تھا بالوں کی مینڈھیوں میں زرد پھول پروئے ہوئے تھے ۔جسم کوصندل۔ زعفران اور گلاب کے عطریات سے غسل دیا گیا تھا ۔گلاب کے پھولوں کی سحر انگیز خوشبو نے مشام جاں کو اندر تک معطر کر دیا تھا ۔اس نے گہری سانس لی۔ اسکی سوچ پر پھیلا کر اختم تک چلی گئی وہ پھولوں کے کُنج میں اس کا منتظر تھا اس نے چپکے سے اسکی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ دیا اور کھلکھلا کر ہنس دی۔اختم نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا. چاندنی رات کا سحر جس میں ہر شے چاندنی میں نہائی دکھائی دے رہی تھی نتالیہ کی نگاہیں اپنے محبوب کا طواف کر رہیں تھیں۔ اختم اس پہ جھکا ۔۔۔بھاری دروازے کا کھٹکا ہٹا ہلکی سی چرچراہٹ اسے حال میں کھینچ لائی مندی مندی آنکھوں سے اس نے وسیع و عریض مسہری کو دیکھا سرہانے زیورس دیوتا کا مجسمہ اپنی چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا وہ سہم گئی اختم ۔ ۔ بے اختیار اس کے لبوں سے نکلا ۔اسے لگا زیورس دیوتا اسے قہر آلود نگاہوں سے دیکھ رہا ہے ۔جرم ِ محبت۔ جرم ثابت ہوگیا ۔اس کی نگاہیں جھک گئیں آہ ۔جرم محبت۔ اختم ۔اس کے حواس ایک بار پھر مختل ہو گئے مگر اب اس کے کان کچھ سن نہیں پا رہے تھے وہ بس اپنی پتھرائی نگاہوں سے اپنی ماں کے ہلتے لبوں کی آہ زاری اور تڑپ دیکھ رہی تھی۔ ماں کی جان لبوں پہ تھی اسکی متاعِ حیات کو دیوتاؤں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ۔ ماں جو ہمیشہ اسے دلھن کے روپ میں دیکھنا چاہتی تھی آج اسے سجا سنورا دیکھ کر پچھاڑیں کھا رہی تھی ۔اس نے خود کو بے بس محسوس کیا۔ اب کاہن اعظم کے اشلوک اس کے کانوں میں گونجنے لگے۔ سماعت نے کام کرنا شروع کیا احساس دو چند ہوئے ۔دیوتاؤں کےاستھان کےچبوترے کے درمیان جلتی آگ کی تپش نے اس کے وجود کو گرمانا شروع کیا وہ چلائی ماں ۔اختم ۔ ۔
روہنی کے مقدس مہینے کی رسومات شروع ہو چکی تھیں۔ مقدس مشروب اس کے حلق میں انڈیلا گیا جیسے ہی حلق تر ہوا تکالیف ہوا ہوگئیں اور وہ سرور کی کیفیت میں خود سے بیگانہ ہوگئی ۔
کسی نے اسکا گال تھپتھپایا ۔وہ چونکی سامنے زیورس دیوتا کو انسانی وجود میں کھڑے پایا ۔کیا وہ
قربان ہو چکی ہے ۔آہ اختم میرے اختم ۔بے بسی سے شبنم کے چند قطرے گلابی گالوں پہ پھسل گئے ۔اسے دیوتا کی گرم سانسیں اپنی سانسوں میں تحلیل ہوتی محسوس ہو رہی تھیں بے بسی سے سر پٹخا مگر وہ ہاتھوں پیروں کو جنبش نہ دے پائی ۔ حلق میں کانٹے اگ آئے تھور کے کانٹے جیسے اس کی روح ان پہ گھسٹ رہی ہو ۔شدید درد کی لہر اٹھی اور اسکی ادھ کھلی آنکھوں نے خود پہ کاہن اعظم کو جھکے پایا ۔نن نہیں وہ بے آواز چلائی مت کرو ایسا ۔ تم شیطان ہو چھوڑ دو مجھے ۔پوری قوت سے چلاتے ہوئے اس نے کاہن کو پرے دھکیلا ۔ایک زور دار تھپڑ اسے ہوش سے بیگانہ کر گیا ۔
اختم نے اس کے ماتھے پہ مہر محبت ثبت کی۔ نتالی شادی کے بعد میں تمہیں پھولوں کے گھر میں رکھوں گا جہاں تتلیاں رقص کریں گی تمہیں بہت پسند ہیں ناں پھول ۔وہ مسکرایا ۔ہاں اختم خوشبو۔ پھول اور تتلیاں محبت کی علامت ہیں میں محبت گھروندا بناؤں گی اور ۔ ۔ ۔ اور وہاں ہم اور ہمارے ڈھیر سارے بچے ہونگے وہ اسکی بات کاٹ کر شرارتن چہکا ۔اختم تم بھی ناں وہ شرمائی اور اس کے سینے میں منھ چھپا لیا ۔
کاہن نتالیہ کی خود سپردگی سے خوش ہو گیا اور نتالیہ بند آنکھوں سے اختم کے ساتھ آسمانوں کی سیر کرنے لگی ۔کاہن سیر ہو چکا تھا اس کی زندگی کی یہ بہترین رات تھی۔ اس کا دل تو نہ بھرا مگر اب معبد میں اس کی حاضری ضروری تھی۔ بستی والوں کو بتانا تھا کہ نتالیہ کی بھینٹ زیورس دیوتا نے قبول کر لی ہے اور وہ پوتر ہوگئی ہے۔ اب بستی پہ سال بھر دیوتا کی رحمت ہوگی ۔وہ اٹھا اور چل دیا ۔
نتالیہ نے کروٹ بدلی ہلکی سی روشنی کی کرن اس کے چہرے پہ پڑی۔سامنے ایک بوڑھی داسی اس کے لیے سامانِ غسل اور لباس لیے موجود تھی ۔آہ اس پہ حقیقت کا ادراک ہوا رات بھر کی پر مشقت اذیت ۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رودی ۔میں آلودہ ہوگئی اختم میں نے سب ہار دیا وہ چلائی مگر اس کی آواز پتھروں کی دیواروں سے ٹکرا کر لوٹ آئی ۔ یہاں ہر چیز مجسموں کی مانند تھی ۔گونگی بہری خادمہ نے اسے حسرت اور ہمدردی سے دیکھا اور ہاتھ بڑھا کر اسے ایک طرف جانے کا اشارہ کیا ۔
جانے کتنا وقت بیت گیا ۔صبح شام رات ۔اسے دنوں کی گنتی بھول گئی ۔رات اس کے لیے اذیت ناک تھی وہ اس اذیت کو برداشت نہ کر پاتی تو اختم کے پاس چلی آتی اور اختم اسکی ہر اذیت کو اپنے وجود میں سمو لیتا اس کے ہر درد پہ لمس کا پھایا رکھ دیتا بلکہ وہ ہر رات اس کے ساتھ ہوتا ۔اختم کا ساتھ اذیت کو تلذذ میں بدل دیتا۔اختم کی محبت اس کے بکھرے وجود میں پیوست سوئیاں اپنی انگلیوں کی پوروں سے چن لیتی وہ لطف اور چبھن کو باری باری محسوس کرتی۔تکیے پہ سر مارتی ہر تشدد کو قبول کرتی ۔ حال میں واپس نہ آنے کی سعی کرتی ۔اس کی روح میں اختم کی محبت کا پرندہ اڑان بھرتا اور اسے حوصلہ دیے رکھتا۔
۔ادھر کاہن اسکی فرمانبرداری کو قبولیت جانتے ہوئے اس کا خیال رکھتا ۔ہر رات کی طرح آج بھی خادمہ نے اسے سنوارتے ہوئے غیر محسوس طریقے سے اس کے ہاتھ پہ ایک رقعہ رکھ دیا۔جسے نتالیہ نے لباس میں چھپا لیا ۔حمام میں جاکر اسے کھولا تو ایک تحریر اس کے سامنے تھی ۔ اختم نے اسکی بھینٹ کے اگلے دن۔کنویں میں کود کر اپنی جان دے دی تھی۔
خادمہ کی پہنچائی اطلاع نے اسے دیوانہ کردیا وہ پتھر ہوگئی ۔ خودی اور بے خودی کا فاصلہ پل بھر میں عبور ہو گیا۔انتقام کی آتش نے اس کے اندر الاؤ روشن کر دیا کہ سب بھسم ہو گیا حتی کہ وہ خود بھی ۔
مسکراتے چہرے سے اس نے کاہن کو خوش آمدید کہا اور اس کے لیے خاص مشروب تیار کیا ۔کاہن اعظم اس کے التفات سے بے حد خوش ہوا اور بھر بھر کر جام پئیے ۔ وہ اس آخری رات کو بہت خوشگوار بنانا چاہتا تھا کیونکہ اب نتالیہ کو ایک ماہ کے لیے بطور دوسرے معبد کی داسی بھیجنا تھا ۔یہ لین دین مذہبی قواعد کی طرح کاہنوں کا قانون تھا۔ عظیم کاہن نشے سے چور ہوکرسدھ بدھ کھو کر گِدھوں کی طرح نتالیہ کو نوچ رہا تھا۔کچھ دیر بعد وہ مدہوش ہو کر گر پڑا ۔ نتالیہ نے خود کو سنبھالا اور نفرت بھری نگاہوں سے کاہن اعظم پہ تھوک دیا ۔اس کا خنجر بردار ہاتھ فضا میں بلند ہوا اور اس کے ساتھ عریاں پڑے کاہن اعظم کے اعضا مخصوصہ دور جاپڑے اب وہ نامراد ہو کر بستر پہ پڑا تڑپ رہا تھا۔