گزشتہ دن میں بیٹھک پر پیپل کی چھاوں میں ہماچے پر بیٹھا تھا کہ بشکا لوہار تے میدا کمہار گزر رہے تھے مجھے دیکھ کر میرے پاس آئے اور چار پائی پر بیٹھ کر سلام دعا حال احوال کیا اور ساتھ میں حقہ کا کش لگایا تے کہنے لگا مہر جی اے گھر چاہ آکھو ہاں۔( چائے کا کہو) میں سمجھ گیا کہ اب جوڑی کوئی لمبی گفتگو کریں گے اور موجود حالات و واقعات کے ساتھ سیاست پر لمبی گفتگو ہوگی۔
بشکا لوہار کہنے لگا مہر جی اے جہڑی وبا آئی ودی ہے ایندا کیا بنڑا ہے۔ ( کورونا کا کیا بنا ہے) میں نے اسے تفصیل سے بتایا کہ موجودہ حکومت نے بڑی مشکل سے اس وبا سے کنٹرول پایا ہے اب یہ تقریباً ختم ہوگئی ہے ، جبکہ لیہ میں ضلعی انتظامیہ نے ضلع کو کورونا فری بنا دیا ہے اور افسران نے ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کی ہے کہ ہمارے علاقے میں اب کورونا کا کوئی مریض نہیں ہے۔بشکا بولا واہ جی واہ اے تے بڑا چنگا ہوگیا ہے۔ ، میدا کمہار بولا کہ تے میں رات خبراں پیا سنڑدا پیا ہم جو لاک ڈاون ختم تھی گئے ، بازار ، مارکیٹ ، ہوٹل ، سینما، کھلدے پئین۔میں نے کہا جی ایسی ہی بات ہے سوموار سے یہ سب کھل جائیں گے۔ اس سے عوام کو جو مشکلات تھیں وہ کم ہوجائیں گی، لوگ مزدوری کے لئیے جائیں گے، کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور واپس جائیں گے تو کچھ حالات بہتر ہوں گے۔ اس پر دونوں۔بولے کہ چلو شکر ہے کہ یہ وبا ختم ہوئی پہلے ہی لوگوں کے مسائل زیادہ ہیں ، پریشانیاں ہیں بشکا لوہار بولے ایں واری تاں نہ وساخ اچ میلہ لگے تے ناں ساڈیاں ڈاتریاں ، ترینگل وکن، تے ہنڑ وڈی قربانی تے کوئی چھریاں کنڈے ، لوگاں قربانی وی گھٹ کیتی اے( بیساکھی کا میلہ نہیں ہوا تو لوہاروں کے ہاتھوں بنا سامان ، درانتی ، کسی، کلھاڑی فروخت نہیں ہوئے اور نہ ہی عیدالاضحی پر چھریاں کانٹے اور کم لوگوں نے قربانی کی ہے) اس پر اوپر سے میدا کمہار بولا کہ سئیں اے گالھ ٹھیک ہے ساڈے گھڑے ، مٹیاں ، ڈولا، ساہنڑکاں ( مٹی کے برتن) وی نئیں وکے۔ بڑی اوکھ ہئی۔ اللہ کریسی جو ہنڑ روزی روٹی لبھ پوسی ۔( مٹی کے برتن فروخت نہیں ہوئے۔ بڑی مشکل سے گزر بسر ہورہی ہے اب بہتری ہوگی)
اسی دوران چائے آگئی تو ساتھ میں ٹھنڈا پانی کی فریج سے بوتل بھی تھی اور گلاس شیشے کا دیکھ کر میدا بولا مہر جی اے کیا ایں واری تساں ساڈے کولوں گلاس کوئنی گھدے۔( مٹی کے برتن نہیں لئیے) میں خاموش ہوگیا اور بات کارخ بدلنے لگا اب اسکو کیا بتاتا کہ آپ لوگ جو مٹی کے برتن دے جاتے ہو اسکے بدلے گندم کی ایک بوری لیتے ہو۔ مہنگائی میں گندم کی بوری کی قیمت 35 سو روپے میں فروخت کی ، میدا کہنے لگا کہ مٹی دے برتن دا پانڑی ٹھنڈا تے مٹھا ہوندا اے۔ تے تاثیر وی ٹھنڈی ہوندی ہے۔ ( گھڑے کا پانی میٹھا اور ٹھنڈا ہوتاہے) بس اسکو اب کون سمجھاتا کہ مٹی کے برتنوں میں پانی ٹھنڈا اور میٹھا تو ہوتا ہے لیکن ٹوٹ بھی تو جلدی جاتے ہیں ۔ اس دوران بشکا بولا کہ اچھا اے ڈسو جے سینما ، ہوٹل تے فیکٹریاں کھلدیاں پئین تے سکول کڈنڑ کھلسن ہنڑ نکے بالڑے بہوں تنگ کیتی پائین، ( سکول کب کھلیں گے ، بچے تنگ کرتے ہیں) اب یہاں انکو کیسے بتاتا کہ اس معاملے پر حکومت کا رویہ مختلف ہے ، سکول، کالجز اور یونیورسٹیاں کھولنے کے لئیے فیصلہ نہیں ہوا ۔ میدا کہنے لگا کہ اوندی دھی 12 جماعتاں پڑھ کے ہک سکول اچ پڑھیندی ہائیں تے پنج چھی ہزار لبھ پوندا ہائی او وی پچھلے چھماہی توں کوئنی ملا۔( بیٹی سکول میں پڑھاتی ہے سابقہ چھ ماہ سے کچھ تنخواہ نہیں ملی ) بڑا سا سانس لے کر پوچھا کہ سکول کب کھلیں گے ۔ میں نے اسکو دلاسا دیا ۔ پھر کچھ دیر خاموشی کے بعد گہری سوچ سے باہر نکل کر حقے کے دو کش لگائے اور بولا مہر جی سینما کھلدے پئیں اوتھاں وڈی کندھ تے تصویراں تے فلماں ڈکھیندن ( سینما میں بڑی سکرین پر فلمیں دکھاتے ہیں)۔سکول آلے چھوٹے بالاں کو ٹی وی لا کے پڑھیندن۔ اے وی تاں نکے سینما گھر ہوئے۔ ( سکول میں چھوٹے بچوں کو ٹی وی پر پڑھاتے ہیں۔ یہ بھی چھوٹے سینما گھر ہوئے نا) اسکی اس بات پر میں کچھ سوچنے ہی لگا تھا کہ بشکا لوہار بولا تے مہر جی سکول آلے سکول دا ناں سینما سکول رکھ چھوڑن تے کھول ڈیون ہر کلاس اچ کنڈھ تے ٹی وی لگا کے پڑھاون۔( سکول کا نام سینما سکول رکھ دیں اور ہر کلاس میں بچوں کو فلمیں دکھائیں اور پڑھائیں)۔۔ سینما کھلے تے سکول بند۔ ۔ اور دونوں نے جانے کی اجازت مانگی اور سلام کے بعد چل دئیے ۔ تب میں نے سوچا کہ بشکا لوہار ویسے تو ان پڑھ اور مسکین ہے لیکن بات کام کی کرگیا ہے اگر اب سکول والے سینما سکول کھول لیں تو کیا ہرج ہے لیکن اس وقت میں سوچنے لگا کہ سکول کا نام کیا ہوگا۔ گورنمنٹ سینما پرائمری سکول، خوامخواہ سینما پرائیویٹ سکول ۔ آپکے بچوں کو فلموں کے ساتھ پڑھانے کا عزم ، اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ کے ساتھ ۔