خواتین کا احترام انکے مسائل حل کرنے کے لیے زمانہ جہالیت میں بھی ترجیحی بنیادوں پر بھی اقدامات کیے جاتے تھے دین اسلام میں بھی خواتین کو جو حقوق اور عزت دی گئی دنیا کے کسی بھی مذہب یا مسلک میں ایسے حقوق عزت و احترام نہیں دیا گیا
چوک اعظم جنوبی پنجاب کا مصروف ترین کاروباری مرکز ہے جس میں طویل عرصہ سے خواتین کے حل طلب مسائل طویل دورانیہ سے باقی ہیں بدلتی بلدیاتی صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے نمائندگان نے بھی اس ضمن میں کوئی خاص توجہ نہیں دی اس کالم میں خواتین کو چوک اعظم میں مسائل اس نظریہ کے تحت لکھے جا رہے ہیں کہ ڈی جی خان میں تعینات ہونے والی کمشنر سائرہ اسلم صاحبہ حساس اداروں یا محکمانہ ذراءع سے رپورٹس لیکر حل طلب مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لئے اقدامات کریں
ٹی ایچ کیو لیول ہسپتال میں خواتین شدید مسائل کا شکار ہیں جن میں ایمر جنسی بلاک میں ایک ہی کمرہ میں مرد و خواتین کا ایک ہی روم میں وارڈ ہے قبل ازیں مرد اور عورتوں کا الگ الگ کمرے میں وارڈ تھا مگر ایک کمرہ میں کروناویکسین سنٹر بننے کے بعد خواتین کے لئے مسائل بن گئے ہیں اسی طرح کرونا ویکسین سنٹر میں بھی خواتین مسائل کا شکار ہے ٹی ایچ کیوایمر جنسی بلاک میں کرونا سنٹر بننے سے ہسپتال میں آنے والی خواتین کو شدید کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہسپتال میں ایسے ہی قبل ازیں فارمیسی سے قبل ازیں میں مردو خواتین کو الگ الگ الماریوں سے میڈیسن ملتیں تھیں
گورنمنٹ گرلز کالج گورنمنٹ گرلز ہائی سکول اور گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول ایک ہی لیہ ملتان روڈ بائی پاس سے لنک ہیں لیہ روڈ سے اس راستہ کو جانے والے راستہ لیہ روڈ پر انتہائی رش ہوتا ہے گلی کے اطراف میں دونوں طرف ہی کھوکھے رکھوا کر دکان مالکان نے کرائے وصول کرنے شروع کیے ہوئے ہیں اسی طرح ملتان روڈ سے آنے والے ڈوگر ہوٹل کے با المقابل آنے والے راستہ میں اکثر سیوریج کا گندہ پانی کھڑا رہتا ہے چلڈرن پارک کو کراس کرتا ملتان روڈ کا راستہ جس بارے میونسپل کمیٹی نے قراداد بھی پاس کی ہوئی ہے راستہ نہیں کھولا جا رہا ہے
گورنمنٹ ووکیشنل کالج پرانے ہسپتال کی بلڈنگ کشادہ وعمارت ہے شائد پنجاب بھر میں ایسی کھلی اور وسیع عمارت کسی بھی ووکیشنل کالج کی نہ ہو میں خواتین کے متعلقہ کورسز شروع کرائے جائیں
چوک اعظم میں خواتین کے لیے ووکیشنل کالج برائے خواتین نہیں ہے چوک اعظم سے خواتین چوک سرور شہید یا لیہ کورسز کے لیے جاتی ہیں چوک اعظم میں گورنمنٹ ووکیشنل کالج برائے خواتین کا قیام بھی از حد ضروری ہے
فاریسٹ پارک چوک اعظم سابق ڈی سی لیہ ذیشان جاوید نے شام کے اوقات میں کریمنل بھونڈ قسم کے لوگوں کو پارک میں بے ہودہ حرکات سے روکنے اور ان پر نظر رکھنے کےلئے سول ڈیفنس کے تین چار ملازمین کی ڈیوٹی لگائی تھی مگر انکی لیہ سے ٹرانسفر کے فوری بعد سول ڈیفنس کے ملازمین نے بھی پارک سے ڈیوٹی ختم کر دی جس کے سبب صبح شام سیر کے لئے آنے والی خواتین کو ان بھونڈ قسم کے نوجوانوں سے شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے
گورنمنٹ گرلز کالج گورنمنٹ گرلز ہائی سکول اور گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول ایک ہی لیہ ملتان روڈ بائی پاس سے لنک ہیں منڈی مویشیاں چوک اعظم جو کہ جنوبی پنجاب کی سب سے بڑی منڈی مویشیاں ہے کو فاریسٹ پارک میں منقل کیا جا رہا ہے قبل ازیں منڈی مویشیاں فتحپور روڈ پر برلب سڑک قائم ہے جہاں آراضی کو سیکشن فور بھی لگا ہوا ہے آراضی مالکان نے قبل ازیں عدالت کا دروازہ کھٹکایا مگر وہاں سے ابتدائی کاروائی کیساتھ ہی ذراءع کے مطابق لینڈ مافیاء نے محکمہ مال کے کرپٹ آفیسران اور سیاسی نمائندگان کیساتھ ملی بھگت کر کے پہلے سیکشن فور لگی جگہ پر رہائشی کالونی کا نقشہ دفتر قائم کیا اور اب لولیکیشن تبدیل کرنے کے لئے فاریسٹ پارک کے ایک حصہ میں منتقل کی جا رہی ہے جس سے طالبات معلمات والدین کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا فاریسٹ پارک میں منڈی مویشی کی منتقلی کے خلاف شہریوں نے عدالت میں رٹ دائر کی ہوئی ہے
گورنمنٹ گرلز کالج گورنمنٹ گرلز ہائی سکول اور گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول کے روڈ پر ہی گرلز کالج کے کے با المقابل میونسپل کمیٹی چوک اعظم کے رہائشی کواٹر میں لینڈ ریکارڈ سنٹر قائم کیا ہوا ہے جرائم پیشہ کریمینل اور سٹریٹ کرائم میں ملوث افراد لینڈ ریکارڈ دفتر کے بہانے موٹرسائیکلوں پر گھومتے رہتے ہیں
گورنمنٹ گرلز کالج کے گیٹ کے سامنے جنازہ گاہ میں منشیات نوشوں کا ڈیرہ رہتا ہے جس سے بھی طالبات معلمات اور اہل محلہ شدید پریشانی میں مبتلا ہیں
پوسٹ آفس میں پنشن لینے کے لئے آنے والی خواتین کو بھی مناسب بیٹھنے کی جگہ نہ ملنے کے سبب پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے
درج بالا مسائل اجتماعی خواتین کے مسائل ہیں جس کی حساسیت نزاکیت کو سمجھتے ہوئے ڈویزن ڈیرہ غازیخان میں تعینات ہونے والی خاتون کمشنر سائرہ اسلم صاحبہ ترجیحی بنیادوں صاحبہ حل کرائیں گی ان مسائل کو تو ویسے چوک اعظم سے منتخب ہونے والے ایم پی اے لالہ طاہر رندھاوہ کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرانے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے تھا مگر اس ضمن میں وہ کچھ نہ کر سکے اور مسائل جوں کہ توں ہی رہے