اسلام آباد: تحریک انصاف کی حکومت نے اعلیٰ عدلیہ کے 2ججز کے خلاف بیرون ملک جائیدادیں رکھنے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر دیا۔
ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے گوشواروں میں بیرون ملک جائیداد ظاہر نہ کرنے پر ان ججز کے خلاف مس کنڈیکٹ کا ریفرنس جوڈیشل کونسل کو بھجوا دیا ہے تاہم اس بات کی سرکاری سطح پر تصدیق نہیں ہو سکی کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو ان ججز کے خلاف ریفرنس موصول ہو چکا ہے یا نہیں۔
وزارت قانون کے ایک اہلکار کے مطابق ریفرنس وزارت قانون کی نگرانی میں تیار کیا گیا اورریفرنس فائل کرنے کیلیے سپریم کورٹ کے ایک سابق جج کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ جن ججز کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا ہے کہ ان میں سے ایک سپریم کورٹ کے جج ہیں جن کی اہلیہ نے مبینہ طور پر اسپین میں جائیداد خریدی جو کہ ان کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ظاہر نہیں کی گئی۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ دیکھنا ہو گا کہ آیا مذکورہ جج کے ٹیکس ریکارڈ میں انکی اہلیہ ان کے زیرکفالت ہیں (ڈی پینڈنٹ) یا نہیں ۔ ہائی کورٹس کے کچھ ججز کے خلاف بھی شکایات درج کرائی گئی ہیں جن میں سے ایک پر برطانیہ میں مبینہ طور پر جائیداد خریدنے پر الزام ہے ۔ ججز کے مس کنڈیکٹ پر حکومتی ریفرنس پر بار کونسل کے بعض نمائندوں کا رد عمل بھی آ گیا ہے ۔
بیرسٹر اسد رحیم خان کا کہنا ہے کہ جوڈیشری پر عوام کا اعتماد برقرار رکھنے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کا متحرکانہ اور منصفانہ ذہنیت کا حامل ہونا ناگزیر ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ آرٹیکل209 کے تحت ایک جج کو صرف اسی صورت عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے اگر وہ ذہنی اور جسمانی طور پر اپنے فرائض سرانجام دینے سے قاصر ہو یا پھر مس کنڈکٹ کا مرتکب پایا جائے۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو خط میں درخواست کی ہے کہ اگر انکے خلاف کوئی ریفرنس دائر کیا گیا ہے تو اسکی نقل انہیں فراہم کی جائے، جسٹس فائز عیسیٰ نے یہ خط28مئی کو تحریر کیا اور اسکی نقول وزیراعظم پاکستان اور سپریم کورٹ کو بھی بھجوائی گئی ہیں، وہ ذریعہ جس نے یہ خط دیکھا ہے اس نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے خط میں کہا ہے کہ حکومتی ذرائع بتا رہے ہیں کہ ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ریفرنس دائر کیا گیا ہے۔
اگر یہ بات درست ہے تو انہیں اس بارے میں بتایا جائے اور ریفرنس کی کاپی فراہم کی جائے، فاضل جج نے صدر مملکت کو خط میں مزید کہا کہ انہیں یقین ہے کہ آپ اس امر سے اتفاق کریں گے کہ اگر ان کیخلاف ریفرنس فائل کیا جاتا ہے اور ان سے اس کا جواب بھی طلب کیا جاتا ہے تب بھی صرف سپریم جوڈیشل کونسل کی اجازت کے بعد ہی حکومت اس ریفرنس کے مندرجات اور انکے جواب کو منظرعام پر لا سکتی ہے، یہ مخصوص قسم کی لیکس انکی کردارکشی کے مترادف ہے جس سے انکے فیئر ٹرائل اور قانونی حق کی خلاف ورزی اور عدلیہ کا وقار بھی مجروح ہو رہا ہے، یاد رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مستقبل میں چیف جسٹس آف پاکستان بننے کے امیدوار بھی ہیں۔
دوسری جانب وفاقی حکومت کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے معاملے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل زاہد فخرالدین جی ابراہیم احتجاجاً مستعفی ہو گئے، انہوں نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت کو بھجوا دیا جس میں کہا گیا کہ اعلی ترین حکومتی عہدیداروں نے ریفرنس دائر ہونے کی تصدیق کی ہے، عدلیہ کے وقار پر سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ ریفرنس بظاہر ججز کا احتساب نہیں مقدس ادارے کو نشانہ بنانے کی کوشش ہے۔ عدلیہ ہمارے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے والا ادارہ ہے۔ ایسے جج کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا جو بے داغ ماضی رکھتے ہیں اور ان کے کردار کی گواہی ادارے اور لوگ دیتے ہیں، حکومت فیض دھرنا کیس میں ان کے حوالے سے اپنی سوچ واضح کر چکی ہے۔
اگر حکومت کے اس اقدام کو روکا نہ گیا تویہ عدلیہ کے ادارے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا، انہوں نے مزید کہا کہ ججوںکے خلاف ریفرنس حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کو دباؤ میں لانے کی کوشش ہے، سپریم کورٹ کے ججوں کی ساکھ ناقابل مواخذہ ہے۔ واضح رہے کہ زاہد فخرالدین جی ابراہیم معروف وکیل اور سپریم کورٹ کے سابق جج فخرالدین جی ابراہیم کے بیٹے ہیں، دریں اثنا صورتحال پر وکلا رہنمائوں نے مشاورت شروع کردی ہے، بتایا گیا ہے کہ اس معاملے میں ججوں کی حمایت میں مشترکہ بیان بھی جاری کیا جاسکتا ہے۔