اسلام آباد . وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے پاکستان پر الزامات عائد کئے جا رہے ہیں اور بھارت سے یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ پاکستان پر حملہ کرنا چاہے اور بدلہ لینا چاہئے۔ یہ سن لیں! اگر کسی نے پاکستان پر حملہ کیا تو پاکستان جواب دینے کے بارے میں سوچے گا نہیں بلکہ جواب دے گا۔
تفصیلات کے مطابق پلوامہ حملے پر بھارت کی جانب سے پیدا کی جانے والی صورتحال پر ردعمل دیتے ہوئے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ چند دن پہلے مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ میں واقع ہوا جس پر میں اسی وقت ردعمل دینا چاہتا تھا مگر سعودی ولی عہد کے اہم ترین دورے کے باعث ایسا نہ کر سکا کیونکہ اگر اس وقت جواب دیتا تو تمام تر توجہ بٹ جاتی، اس لئے سعودی ولی عہد کے جانے کے بعد میں آپ کے سامنے ہوں اور بھارتی حکومت کو جواب دے رہا ہوں۔
آپ نے بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر الزام لگا دیا اور یہ بھی نہ سوچا کہ اس طرح کی کارروائی سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے اور پھر ایسے وقت میں جب سعودی عرب کے ولی عہد کا ایک اہم ترین دورہ ہو رہا تھا، ایسے وقت میں تو کوئی احمق بھی اس طرح کا کام نہیں کرے گا لیکن اگر سعودی ولی عہد کا دورہ نہ بھی ہوتا تو پاکستان کو پلوامہ حملے سے کیا فائدہ ہے کیونکہ پاکستان دہشت گردی کیخلاف جنگ میں 70 ہزار پاکستانیوں کی قربانی دینے کے بعد استحکام کی جانب جا رہا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں یہ سوال بھی پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ نے ماضی کے اندر ہی پھنسے رہنا ہے اور ہر بار کشمیر میں پیش آنے والے کسی سانحہ پر پاکستان کو ہی ذمہ دار ٹھہرانا ہے، بجائے اس کے کہ مسئلہ کشمیر کا حل کیا جائے بار بار پاکستان پر الزام لگایا جا رہا ہے۔ میں واضح طور پر کہہ رہا ہوں کہ یہ نیا پاکستان ہے اور نئی سوچ ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی زمین دہشت گردی کیلئے استعمال ہونا اور کسی اور زمین سے پاکستان میں دہشت گردی ہونا، ہمارے مفاد میں نہیں ہے۔ میں بھارتی حکومت کو پیشکش کرتا ہوں کہ اگر وہ اس حوالے سے کسی بھی قسم کی تحقیقات کروانا چاہتے ہیں تو ہم تیار ہیں اور اگر آپ کے پاس کوئی ایسے ثبوت ہیں جن پر ایکشن لیا جا سکتا ہو تو میں گارنٹی لیتا ہوں کہ ہم ایکشن لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہ ایکشن کسی کے دباﺅ میں آ کر نہیں بلکہ پاکستان سے دشمنی کرنے پر لیں گے کیونکہ پاکستان کی زمین دہشت گردی کیلئے استعمال کرنا پاکستان کیساتھ دشمنی ہے اور یہ ہمارے مفاد کے خلاف ہے۔ ہم نے جب بھی ہندوستان سے مذاکرات کی بات کی ہے تو وہ پہلی شرط رکھتے ہیں کہ دہشت گردی پر بات کی جائے، ہم دہشت گردی کی بات کرنے کیلئے بھی تیار ہیں کیونکہ دہشت گردی سارے خطے کا مسئلہ ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ اس خطے میں دہشت گردی ختم ہو، پاکستان وہ ملک ہے جس میں دہشت گردی سے جانی نقصان کے علاوہ 100 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان بھی پہنچا لہٰذا ہم تیار ہیں لیکن میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہندوستان میں ایک نئی سوچ آنی چاہئے اور یہ سوچنا چاہئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کشمیر کے نوجوان اس انتہاءپر پہنچ چکے ہیں کہ موت کا خوف ہی اتر گیا ہے، آخر کوئی تو وجہ ہو گی، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایک فوجی کے ذریعے ظلم کر کے ان کی آواز دبانے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ افغانستان میں 17 سال کی جنگ کے بعد اب پوری دنیا نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ مسئلے کا حل مذاکرات ہے، جنگ نہیں ہے۔
ہم ہندوستان میں اور میڈیا پر سن رہے ہیں کہ پاکستان کو سبق سکھانا چاہئے، بدلہ لینا چاہئے، پہلی بات تو یہ کہ دنیا کا کون سا قانون کسی بھی ایک شخص یا ملک کو جج، جیوری اور ایگزی کیوشن بننے کی اجازت دیتا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ آپ کے ملک میں الیکشن کا سال ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان کو سبق سکھانے کی بات کی جائے گی تو الیکشن میں اس کا بہت فائدہ بھی ملے گا لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو سبق سکھایا جائے اور پاکستان پر کسی قسم کا حملہ کریں گے تو پاکستان جواب دینے کے بارے میں سوچے گا نہیں بلکہ جواب دے گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ جنگ شروع کرنا بہت آسان اور انسان کے ہاتھ میں ہے مگر جنگ ختم کرنا انسان کے ہاتھ میں نہیں اور پھر یہ بات کدھر جائے گی، اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ ہم اس معاملے میں عقل اور حکمت استعمال کریں گے کیونکہ یہ مسئلہ آخر میں مذاکرات سے ہی حل ہو گا۔