گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور ویسے تو کیسی تعریف کے محتاج تو نہیں لیکن پھر بھی اس درگاہ کے بارے میں آپ کو تھوڑا بتاتا چلوں۔جی۔سی پاکستان کی قدیم جامعات میں سے ہے اور مسلم دنیا میں اعلیٰ تعلیم کے قدیم اداروں میں سے ایک ہے۔ابتدائی طور پر اسے 1964ءمیں گورنمنٹ کالج لاہور کے طور پر قائم کیا گیا۔2002ء میں حکومت پاکستان نے اسے جامعہ کا درجہ عطا کیا۔اس کی تاریخی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے کالج کا لفظ عنوان کے ساتھ رہنے دیا گیا۔جی۔سی یو انڈرگریجوایٹ، پوسٹ گریجوایٹ اور ڈاکٹری درجہ تک سائنس اور آرٹس میں داخلہ کی پیشکش کرتا ہے۔اس کے فزکس اور ریاضی کے شعبہ جات تحقیق اور ملکی ترقی میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔اس وقت جی۔سی یو کے 29 تعلیمی شعبہ جات ہیں جن میں چار تحقیقاتی ادارے بھی شامل ہیں۔جی۔سی یو نے2013ء ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پا کستان کی طرف سے درمیانے درجے کی جامعات میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔اس کے علاوہ جی۔سی یو ملک میں سب سے زیادہ گریجوایشن ریٹ کی حامل ہے۔ جی۔سی یو میں پڑھنے والے طالب علم راوئینز کہلاتے ہیں۔
کون لوگ ہیں یہ جو راوئین ہیں؟؟
کس طرح کے لوگ ہیں جو راوئین ہیں؟؟
کیسے راوئین ہیں خود کو کیسے انھوں نے راوئین کے نام کے ساتھ وابستہ کیا؟؟
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کیسی درسگاہ اور درگاہ ہے جس کے لیے ہر کوئی دلی خواہش رکھتے ہیں؟؟
تو آئیں اب اس عظیم نام "راوئین” اور "جی۔سی لاہور” کا تعارف آپ احباب سے کراتا چلوں۔راوئین وہ لوگ ہیں جو اپنی تعلیم مادر عالمی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے سائے میں حاصل کرتے ہیں۔پاکستان کے %100 لوگ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے وابستہ ہونا چاہتے ہیں اور اپنی تعلیم کا آغاز اس جگہے سے کرنے کی حسرت رکھتے ہیں۔لیکن وہ کہتے ہیں نا حسرتیں ہر کسی کی پوری ہوتی نہیں اور اگر پوری ہوتی بھی ہے تو بہت کم لوگوں کی پوری ہوتی ہیں۔اور جن کی یہ حسرت پوری ہوتی ہے أن کو ایک اعزاز سے نوازا جاتا ہے اس اعزاز کا نام ہے”راوئین”۔آخر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور ہی کیوں؟۔۔۔۔مجھے آج بھی یاد ہے اور ابھی کی بات معلوم ہوتی ہے ہمارے بزرگ حضرات کہتے تھے اگر آپ کا ماضی اچھا ہوگا اور آپ نے ماضی میں کچھ اچھا کیا ہے تو آپ کے حال کو لوگ خود بخود اچھا بنائیں گے۔ماضی میں اگر آپ نے کچھ اچھا کیا ہے اور اگر آپ کی تاریخ ماضی کی اچھی ہوگی تو وہ ماضی کی تاریخ آپ کے حال کی تاریخ کو اچھا ثابت کرنے کا ذریعہ بنے گی۔اسے کہتے ہیں ماضی کا فائدہ۔اور جتنا یہ کام آسان لگ رہا ہے سن کر اس سے کہیں زیادہ مشکل کر کے دیکھانا ہے۔ایک طالب علم کے لیے سب سے مشکل اور سب سے بڑی چیز یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے اندر یہ بات پیدا کرے کہ وہ اپنی زندگی میں جو چاہے کر سکتا ہے،وہ سب کچھ کر سکتا ہے،جیسا وہ چاہے وہ کر سکتا ہے۔یہ بات جتنی کہنے میں آسان لگ رہی ہے أس سے کہیں زیادہ مشکل ایک طالب علم کے اندر یہ بات پیدا کرنا ہے۔جی۔سی لاہور کا ماضی اور اس کی تاریخ اتنی پرکشش اور نہایت آمدہ ہے کہ جو بھی اس درسگاہ سے نہیں بلکہ اس درگاہ سے وابستہ ہوتا ہے اس کے اندر یہ احساس خود بخود پیدا ہوتا ہے اگر وہ چاہے تو سب کچھ کر سکتا ہے۔اور أسے امید ملتی ہے کہ وہ جیسا چاہے کر سکتا ہے۔اور أسے یہ بھی پتہ ہوتا ہے وہ وجہ جی۔سی ہی ہو گی۔
راوئین اپنے آپ کو دوسرے تمام لوگوں سے اعلیٰ سمجھتے ہیں اور اس بات پہ ان کا پختہ یقین ہوتا ہے کہ وہ دوسرے لوگوں سے بہت کچھ بڑا اور مختلف کر سکتے ہیں اور وہ کرے گے اور کرتے بھی ہیں۔اور وہ جانتے ہیں کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور اس امید کو پورا کرنے کا ذریعہ بنے گی۔گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور وہی عمارت ہے جہاں آج بھی محترم شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی باتیں،ان کا فلسفہ،اور ان کی وہ سوچ جو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے شروع ہوئی تھی وہی سوچ جس نے مسلمانوں کو ایک کرنے کے لئے جنم لیا تھا وہ سوچ آج بھی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے ارد گرد گردش میں ہے اور راوئینز سے کہہ رہی ہے ہر زمانے کا اقبال جی۔سی سے ہی پیدا ہوگا۔جی۔سی نے ایسے بہت سے رہنما پیدا کیا ہے جنہوں نے دنیا کو اپنی باتوں سے قائل کیا اور دنیا کو اپنی بات دلائل کے زور پر منوایا جیسے، پطرس بخاری،فیض احمد فیض،اشفاق احمد،عبد السلام،بانو قدسیہ،قدرت اللہ شہاب،اور ایسے بہت سے رہنما آج کے اس دور میں بھی پاکستان میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور لوگ ان شخصیات جیسا بننا چاہتے ہیں۔جی۔سی نے ہر طرح کے لوگ پیدا کیا ہے۔جی۔سی نے ایسے لوگوں کو پیدا کیا ہے جو آج بھی پاکستان کے ہر ایک شعبے میں ایک عظیم مقام پر فائز ہیں۔اور آج بھی دنیا انھیں یاد کرتی ہے۔اگر ہم جی۔سی لاہور کے چمکتے ستاروں کی گنتی شروع کریں تو پورا دن یا پوری رات ان کے تعارف میں وقف کرنا ہوگا۔اتنے کثیر تعداد میں عظیم سے عظیم تر لوگ موجود ہیں جن کا ایک ایک کر کے تذکرہ کرنا بہت مشکل ہے۔یہ وہی جی۔سی ہے جس نے اتنے رہنما پیدا کیا جس نے اقبال جیسی شخصیات کو اس مقام تک پہنچایا کہ آج انہیں دنیا یاد کرتی ہیں اور اپنے ان "راوئینز” پر فخر محسوس کرتے ہیں۔یہ عظیم شخصیات جب پہلی بار اس مادر علمی درگاہ سے وابستہ ہوئے تھے تو ان کے پاس الفاظ نہیں تھے خود کا تعارف کرنے کیلئے کہ وہ ہیں کون۔۔۔۔لیکن جب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے وابستہ ہو کر اس کی ہر ایک چیز کو خود میں سماء کر اور جس مقصد کے لئے وہ یہاں آئے تھے وہ اپنا مقصد پورا کر کے جب اس درگاہ سے رخصت ہوئے تو أن کے تعارف کرنے سے پہلے ہی لوگ خود أن کا تعارف کرتے تھے کہ آپ وہ جناب ہیں نہ جی،جی۔اگر دیکھا جائیں تو پڑھائی ہر کالج،یونیورسٹی اور ہر درسگاہ کا اولین مقصد ہوتا ہے۔لیکن جی۔سی پڑھائی کے ساتھ ساتھ انسان کو اس کے معاشرے کا ایک اہم شہری بننے کا موقع فراہم کرتی ہے اور پھر وہ زندگی میں کسی بھی چیز سے ہار نہیں مانتا۔گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے طلبہ اور دوسرے درسگاہ کے طلبہ میں آسمان و زمین کا فرق ہوتا ہے۔ایک "راوئین” کو لوگ أس کی شخصیت سے پہچان کر کہتے ہیں یہ جی۔سی کے طلبہ ہیں۔وہ باد صبا کے ساتھ ساتھ "راوئینز” کا ایک ہجوم کوئی (Main building) جا رہا ہے تو کوئی (New block) تو کوئی(Oval ground) کی طرف جا رہا ہے۔اور ہاں وہ (Gothic lady) جی۔سی کے ٹاور کے نیچے بیٹھ کر دوستوں کے ساتھ دیر تک گفتگو کرنا اور تو اور وہ (Oval ground) سے اوپر کی طرف ہو کر گھنٹوں تصاویر بنانا پھر (Oval ground) کے سنٹر میں بیٹھ کر گھنٹوں ٹاور کو گھورنا۔”راوئینز” گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی لڑکیوں سے زیادہ جی۔سی کے ٹاور (gothic laday) کو گھورتے ہیں یہ حقیقت ایک "راوئین” ہی جانتا ہے۔میرے حساب سے اگر جی۔سی میں صرف لڑکیاں ہوتی اور لڑکے ہوتے ہی نہیں تو ہر لڑکی کا (boyfriend) جی۔سی کا ٹاور(gothic laday) ہوتا۔ٹاور(gothic laday) جی۔سی کی شان ہے جی۔سی کی آن ہے اس ٹاور سے ہی تو "راوئینز” کے احساسات اور پیار جڑے ہوئے ہیں۔بہت سے جونیئرز(Juniors) سے جب ہم پوچھتے ہیں کہ آپ جی۔سی میں کیوں آئیں ہیں اور کیوں جی۔سی میں آنے کی چاہت تھی تو وہ کہتے ہیں جی۔ سی کے اس ٹاور(Gothic lady)کو دیکھ کر ایک احساس اور ایک رشتہ ہمارے دل میں پیدا ہو گیا تھا اور یہی جی۔سی کا ٹاور(Gothic lady) ہمیں جی۔سی کھینچ لایا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ لڑکوں کے ہوتے ہوئے بھی ٹاور(Gothic lady) نے لڑکیوں کے دلوں میں قبضہ کر رکھا ہے اور لڑکے بھی اس ٹاور(Gothic lady) پر جان فدا کرتے ہیں۔گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور وہ جگہ ہے جس سے وابستہ ہونے کے بعد انسان کو خود بخود علم کی تڑپ ہوجاتی ہے۔جی۔سی اس درگاہ کا نام ہے جو کسی بھی انسان میں علم کی تڑپ کو تیز سے تیز تر کر دے۔کچھ کرنے کا جنون اور بہت بڑا کرنے کی امید جی۔سی کو دیکھ کر خود بخود پیدا ہوتا ہے۔جنون کا دوسرا نام جی۔سی ہے۔کیسے علم کی تڑپ پیدا نہ ہو جب "راوئینز” جی۔سی کے چمکتے ہوئے ستاروں کے بارے میں پڑھتے ہیں اور (gallery of legends) کو دیکھتے ہیں تو ایسا ہو نہیں سکتا کہ ان کے اندر کوئی احساس اور کوئی جنون پیدا نہ ہو جو انہیں کچھ مختلف کرنے پر آمادہ نہ کر پائیں۔جی۔سی کے چمکتے ہوئے ستاروں کے بارے میں پڑھ کر دوسرے اداروں کے طلبہ کو (Motivation) ملتی ہے اور احساس پیدا ہوتا ہے تو ایک "راوئین” جو دن رات جی۔سی کے سائے میں اپنی زندگی گزار رہا ہے تو اس کے اندر کیسے احساس پیدا نہیں ہوگا یہ آپ بہتر بتا سکتے ہیں۔جی۔سی ہی وہ جگہ ہوتی ہے جہاں ہر "راوئین” اپنے خوابوں کو اور اپنے حسرتوں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھتا ہے۔اور آج بھی محترم شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے کمرے کی دیواروں سے علامہ صاحب کے خیالات اور فلسفہ ٹکرا ٹکرا کر "راوئینز” کو کہہ رئیں ہیں آؤ اور جو چاہو حاصل کرو۔ایک انسان کے اندر یہ بات پیدا کرنے میں لوگوں کی عمر لگ جاتی ہے کہ وہ چاہے تو سب کچھ کر سکتے ہیں۔لیکن جو لوگ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے وابستہ ہوتے ہیں ان کے اندر یہ بات خود بخود پیدا ہوتی ہے یہ فرق ہے جی۔سی اور دوسرے درسگاہ میں۔بہت سے لوگوں کو اور طلبہ کو میں نے یہ کہتے ہوئے دیکھا ہے کہ کاش اگر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور جیسی درسگاہ ہمارے علاقے میں بھی ہوتی تو ہم وہی پڑھتے ارے،میرے بھائی جی۔سی جیسی عمارت بھی بن جائے گی لیکن جی۔سی جیسی تاریخ کہاں سے لاؤ گے۔جی۔سی میں پہلا دن ہر ایک کے لئے بہت الگ اور بلکل نیا ہوتا ہے۔
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔”راوئینز” کا جی۔سی میں آخری دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخری دن وہ دن ہوتا ہے جس کو بیان کرنے کے لیے "راوئینز” کے پاس الفاظ نہیں ہوتے ہیں۔أس دن کچھ عجیب سا احساس ہوتا ہے۔۔۔۔۔ایک عجیب سا خیال۔۔۔۔۔۔۔ایک عجیب سی خاموشی۔۔۔۔۔۔۔ایک عجیب سا سماء۔۔۔۔۔۔۔ایک عجیب سا شور۔۔۔۔۔۔ایک عجیب سی گفتگو۔۔۔۔۔ایک عجیب سی فضا۔۔۔۔۔۔ایک عجیب سی دھن ایک عجیب سا ساز۔۔۔۔۔۔۔۔اگر میعار کی بات کرے تو جی۔سی اور "راوئینز” کا معیار ایسا ہے جس کو فالو کرنا لوگوں کی مجبوری ہوتی ہے اور وہ لوگ جی۔سی اور "روائینز”کی راہ میں چلنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔آخر میں ایک بات کہوں گا جی۔سی خواب کو حقیقت سے ملانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ایک آخری بات آپ احباب سے کھبی کسی "راوئین” سے أن کا جی۔سی میں آخری دن کے بارے میں مت پوچھنا۔ کیونکہ وہ فوراً اداس ہو جاتے ہیں۔جی۔سی أس درگاہ کا نام ہے جس کو ایک بار اس جگہے سے حوصلہ اور امید مل جائے تو أس کے بعد زندگی میں پھر أنھیں کسی اور حوصلے کی ضرورت درکار نہیں ہوتی۔اور ایک راوئین ہمیشہ ایک راوئین ہوتا ہے۔
(فیصلان شفاء اصفہانی گلگت بلتستان کی تاریخ کے سب سے پہلے کم عمر کالم نگار ہیں جو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں زیر تعلیم ہیں)
نوٹ ۔ تمام نگارشات ،کالم ، مضامین اور تحریریں نیک نیتی اور عوامی آ گہی کے لءے شا ئع کی جاتی ہیں ، ادارہ کا کالم نگار کے موقف سے متفق ہو نا ضروری نہیں ۔ ادارہ