بجٹ پاس ہو جانا جتنی عام سی بات ہے بجٹ کا پاس کرا لینا اتنا ہی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ کسی بھی حکومت کی طرف سے بجٹ پاس کرا لینا در حقیقت ایک بار پھر سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر کے ایک نئی طاقت حاصل کر لینے کے مترادف ہوتا ہے یہی وجہ ہے جیسے ہی بجٹ پیش ہوتا ہے اپوزیشن ہنگامہ آرائی شروع کر کے حکومت پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیتی ہے اور بار بار اپنے بیانات کے زریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہم بجٹ پاس نہیں ہونے دیں گے مگر بجٹ تو ہمیشہ پیش ہی پاس ہونے کے لیے ہوتے ہیں مگر اپوزیشن نے جب اسی تنخواہ پر ہی کام کرنا ہوتا ہے تو پھر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ بجٹ پیش ہونے سے پاس ہونے تک پورے سیشن کے دوران ہاہاکار کے کیا مقاصد ہوتے ہیں
اس بار بھی یہی ہوا شور شرابے سے شروع ہونے والی کہانی ہنگامہ آرائی ، لڑائی مار کٹائی ، تو تکرار اور گالم گلوچ تک پہنچی اور پھر سب کچھ صابن کی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور حکومت نے 138 کے مقابلے میں 172 ووٹ سے بجٹ پاس کرا لیا اور اجلاس میں اپوزیشن لیڈر سمیت بہت سے اپوزیشن اراکین اس روز اسمبلی میں بھی نہیں آئے یہی وجہ ہے کہ وفاقی بجٹ پاس ہونے کے بعد حکومتی وزراء پھولے نہیں سما رہے تھے جیسے انھوں نے بہت بڑا معرکہ سر کر لیا جس کا اندازہ ان کے بیانات سے لگایا جاسکتا ہے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ بجٹ تو آسانی سے پاس ہوگیا شہباز شریف سمیت ان کے تیس کے قریب اراکین اسمبلی میں بھی نہیں آئے ترجمان پنجاب حکومت مسرت چیمہ بولیں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی بڑھکیں مارنے والے ایوان میں بھی نہیں آئے فردوس عاشق کہاں پیچھے رہنے والی تھیں کہا نااہل اپوزیشن اسمبلی میں بھی متفق نہیں ہوسکی۔ بجٹ کے پاس ہوجانے سے کس کی جیت ہوئی اور کس کی ہار اور حکومتی حلقوں میں اس کی کتنی خوشی ہے اور اپوزیشن حلقوں میں کتنی خاموشی مگر ہماری نظر میں بجٹ کا پاس ہوجانا اتنا اہم نہیں ہوتا بلکہ اس بجٹ کے زریعے حکومت کا پاس ہونا زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
سچ تو یہ ہے بجٹ اور معیشت جتنے خشک اور بور موضوع ہیں اتنے ہی اہم اور ضروری ہیں بندہ جتنا بھی چاہے ان سے بھاگ نہیں سکتا بےشک آپ بجٹ تقریر نہ سنیں ، حکومت کے دعووں کو نظر انداز کر لیں ، اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں نہ الجھیں ، اپوزیش کی بڑھکوں پر دھیان نہ دیں حزب اختلاف کی تجاویز ” اگر وہ دیں تو ” اور حکومت کی ترامیم غرضیکہ بجٹ کے ہر قسم مضر اثرات سے بچنے کے لیے آپ صرف منہ پر ماسک ہی نہیں آنکھوں پر پٹی باندھ کے کانوں میں روئی بھی ٹھونس لیں مگر جیسے ہی آپ بازار جائیں گے آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوجائے گا حکومت کے دعوؤں کے مطابق عوام دوست اور منافع کے بجٹ کے بعد جب ہمارے گھر کا بجٹ خسارے میں جاتا ہے تو ہوش ٹھکانے آجاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں بجٹ پاس ہونے کے بعد وفاقی وزیر شوکت ترین اسمبلی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم باتیں نہیں عمل کرتے ہیں جو اعداد و شمار رکھے ہیں پورے کر کے دکھائیں گے جب چالیس لاکھ لوگوں کو گھر ملیں گے اور زراعت اور کاروبار کے لیے سود سے پاک قرضے فراہم ہونگے تو اس سے ملک میں خوشحالی آئے گی اور اپوزیشن فارغ ہوجائے گی انھوں نے کہا کہ 74 سال کی تاریخ میں پہلی پاکستان میں غریب عوام کی فلاح و بہبود ، ترقی اور خوشحالی کے لیے روڈ میپ دیا گیا ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی”