جھورا،، سرائیکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ، غم، دکھ اور افسوس وغیرہ ، جیسے لفظ،ارداس،،، گذارش ، درخواست اور التجا کی کیفیت کے لیے بولا جاتا ہے ۔ خیر اب تو ساری زبانیں دب کے رہ گئی ہیں اور تو اور ، اشاروں کی زبان بھی مفقود ہوچکی ، شاعر نامدار کی طرح ہم چاہتے ہیں کہ
جو دل کی بات سمجھ لے فقط نگاہوں سے ،
تمام شہر میں ایسی نظر بھی ہے ؟
خیر سے نہ دل باقی ہے اور نہ شہر، اب تو بستیوں کو بھی اندیشہ لاحق ہو گیا ہے کہ ،،،
جنگل بستیوں تک آ گیاہے ،،،
ہمیں بھی یہی ،،، جھورا ،،، ہے کہ یہ ہوا جا رہا ہے ۔
جھورا ، یہ نہیں ہے کہ ہم دکھی ہیں بلکہ جھورا یہ ہے کہ باقی کیوں سکھی ہیں ،، دوسروں کے سکھ ہمیں پریشان کئے جاتے ہیں ،،،
جھورا یہ بھی ہے کہ ریاست اور حکومت ایک ہو گئے ہیں ۔ ہمارے لیے یہ آج بھی دونوں لائق عزت و تکریم ہیں لیکن خدارا ہمیں بتائیے بلکہ سمجھا ئیے کہ اس ملاپ میں کہیں عوام بھی ہیں اور اگر ہیں تو کتنے خوش ہیں ،،
ماضی میں برصغیر کے مسلمانوں کو اپنی مملکت کی تلاش تھی مگر جیسے ہی مملکت یعنی ریاست ملی ۔ عوام کہیں کھو گئے اور آج دونوں ایک دوسرے تلاش میں نکلے ہوئے ہیں ،، آپ کو اگر کہیں سے خبر ملے تو بتائیے گا ضرور ۔۔۔۔
ہمیں ایک اور بھی پراسرار جھورا ، لاحق ہے کہ ہم زندہ ہیں اور ہماری زندگی کوئی اور جی رھا ھے ،
اب کس،کس جھورا ، کا ذکر کریں علم کا جھورا ، صحت کا جھورا، انصاف کا جھورا ، امن و سلامتی کا جھورا ، مہنگائی کا جھورا ،خالص پانی ، ہوا، اور دوا کا جھورا ،
یہ جھورا ہی ہے جو جمہور کی جان کا جانی بنا ہوا ہے ورنہ باقی تو سارے سنگی ، بیلی ، یار رشتے دار سب ساتھ چھوڑ گئے ،،، آ فرین ہے اس وفا شعار جھورا ، کی جو ساتھ نبھا رہا ہے ،،، کبھی خواہش تھی کہ ،
میں اس سے جھوٹ بھی بولوں تو مجھ سے سچ بولے،،
میرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو ،،، اور
دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو ،،
کوئی تو ہو جو میری وحشتوں کا ساتھی ہو ،،۔۔۔
دیکھتے ہیں کہ یہ جھورا ، کب تک ساتھ نبھانے میں کامیاب ہوتا ہے یا دوسرے بے وفاؤں کی طرح یہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے ،،،