اسلام آباد . وفاقی حکومت کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا گیا ہے جس پر اب سپریم کورٹ کے جسٹس نے صدر مملکت عارف علوی کو دوسرا خط لکھ دیاہے جس میں انہوں نے حکومتی اراکین کی جانب سے میڈیا پر کی جانے والی کردار کشی پر سخت افسوس کا اظہا ر کیاہے اور لندن میں پراپرٹیز کے حوالے سے تفصیلات بتائی ہیں جبکہ انہوں نے صدر مملکت عارف علوی سے درخواست کی کیا وزیراعظم عمران خان نے اپنے گوشواروں میں انگلینڈ میں موجوداپنے بیٹوں اور بیویوں وغیرہ کی پراپرٹیز ظاہر کی ہیں؟ اور اگر کی ہیں تو مجھے اس کی کاپی فراہم کی جائے۔
تفصیلات کے مطابق خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہناتھا کہ میرے خلاف جو ریفرنس دائر کیا گیا اس کی کاپی فراہم کرنے کا کہاتھا لیکن وہ مجھے نہیں دی گئی جبکہ کونسل نے ابھی تک کوئی نوٹس جاری نہیں کیا ہے لیکن میرے خلاف ایک تحریک شروع کر دی گئی ہے جس کا مقصد جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر اثر انداز ہو نا تھا ۔ان کا کہناتھاکہ ریفرنس میں جن تین جادئیدادوں کا ذکر کیاگیاہے ، ان سے کیسے اخذ کیا جاسکتاہے کہ میں نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے ؟
انہوں نے کہا کہ جناب صدر ،حکومتی اراکین کی جانب سے میری فیملی کو آدھے سچ کے زریعے بدنام کیا جارہاہے جو کہ اہل خانہ اور میرے لیے نہایت ہی تکلیف دہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میری بیوی عبدالحق کھوسو کی بیٹی اور سپین کی شہری ہے ، مجھے فخر ہے کہ میری بیوی اور بچے مجھ پر انحصار نہیں کرتے ہیں وہ پڑھے لکھے اور خود کفیل ہیں ، میری اہلیہ نے برونل یونیورسٹی اور آسٹن یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر ررکھی ہے ، میری 31 سالہ بیٹی شادی شدہ ہے اور اس کے تین بچے ہیں اور وہ بھی بیرسٹر ہے ۔
ان کا کہناتھا کہ حکومت کے خفیہ ذرائع بھی یہ بات جانتے ہوں گے کہ میرے بچے تعلیم حاصل کرنے کے بعد لندن میں قانونی طور کام کر رہے ہیں ، حکومتی اراکین کی جانب سے جن پراپرٹیز کی تفصیلات جاری کی گئیں ہیں ، یہ دراصل وہ ہیں جن میں میرے بچے اور ان کی بیویاں رہتی ہیں ۔یہ پراپرٹی کے مالک وہی ہیں ، یہ جن کے نام پر ہیں ، ان کی ملکیت چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے ، نہ تو انہیں کسی ٹرسٹ کے تحت اور نہ ہی کسی آف شور کمپنی کے تحت حاصل کیا گیاہے ۔
مجھ پر یہ فرض نہیں ہے کہ میں اپنے مالی معاملات ظاہر کروں لیکن میں یہ پھر بھی رضاکارانہ طور پر کر رہاہوں کیونکہ میری سالمیت پر شک کیا جارہاہے ، میں پاکستان میں ٹیکس اداکرنے والا ایک فرمانبردار شہری ہوں ، میری اہلیہ اور بچوں کی پراپرٹی کے حوالے سے مجھے کبھی بھی کوئی نوٹس نہیں بھیجا گیا ہے ، جب سے میں نے قانون کا شعبہ اپنایا تب سے میں ٹیکس ادا کر رہاہوں ، میرے ذمے ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی کوئی رقم بقایا نہیں ہے ۔مجھے امید ہے جن لوگوں نے ریفرنس دائر کیا ہے انہوں نے مکمل چھان بین کی ہو گی۔ جب انہیں کچھ بھی نہیں ملا تو جھوٹے الزامات لگائے گئے ہیں۔
قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ جناب صدر اس سے پہلے کہ کونسل مجھے نوٹس بھیجتی، میرا جواب آتا، میرے خلاف میڈیا پر کردار کشی کی مہم شروع کر دی گئی ہے۔ وزیر قانون، وزارت اطلاعات کے سینئر ارکان اور مختلف حکومتی ارکان ریفرنس کے مخصوص حصے میڈیا میں پھیلا رہے ہیں۔حکومتی ارکان میڈیا میں ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے ہیں،کیا یہ مناسب رویہ ہے اور کیا یہ آئین سے مطابقت رکھتا ہے؟ حکومتی ارکان اسے میرے خلاف احتساب کا شکنجہ قرار دے رہے ہیں۔ کیا شکایت کے مخصوص حصے میڈیا میں لیک کرنا اٹھائے گئے حلف کی خلاف ورزی نہیں ہے؟۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ بننے سے پہلے میں ایک لیڈنگ لاءفرم کا پارٹنر تھا ، کیا یہ ستم ظریفی نہیں ہے کہ جو لوگ سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں ان کو نشانہ بنایا جائے اور جولوگ ٹیکس بہت کم دیتے ہیں ان سے پوچھا ہی نہ جائے ۔سپریم کورٹ کے جسٹس نے صدر مملکت سے درخواست کی کہ وزیراعظم سے پوچھیں، کیا انہوں نے اپنی بیویوں اور بچوں کی جائیدادیں اور اثاثے ظاہر کیے ہیں۔ جب وزیراعظم نے آپ کو ریفرنس دائر کرنے کا کہا تو بطور صدر آپ کا فرض بنتا تھا کہ آپ ان سے بھی یہ سوال پوچھتے۔ان کا کہناتھا کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر اگر پراپرٹیز کو ظاہر کیا ہے تو مجھے ان کی کاپیاں فراہم کی جائیں۔ حکومت نے یہ جو کچھ کیا ہے منصفانہ ٹرائل کے حق کے خلاف ہے۔اگر حکومتی اراکین سمجھتے ہیں کہ مجھ پر دباو¿ ڈال کر حلف کی خلاف ورزی پر مجبور کریں گے تو یہ لوگ یہ خیال ذہنوں سے نکال دیں۔ مجھ پر کسی قسم کا کوئی دباو¿ نہیں ہے۔ میں بلا خوف اور قانون کے مطابق کام کروں گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہناتھا کہ میرے والد قاضی محمد عیسی نے قائد اعظم کے ساتھ مل کر جدوجہد کی اور آزادی حاصل کی۔ میں قائداعظم کے نظریات کو کبھی نقصان پہنچنے نہیں دوں گا۔ میرے خلاف جو ہتھکنڈے استعمال کیے گئے ان کا مقصد آزاد عدلیہ کو دباو¿ میں لانا تھا۔ جناب صدر آپ اطمینان رکھیں میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ آئین کو تحفظ دوں گا اور اس کا دفاع کروں گا۔