گدھے پر کتابیں لاد دینے سے گدھا عالم، فاضل، پروفیسر، ڈاکٹر، دانشورنہیں بن جاتا،بلکہ وہ صرف وزن اٹھانے والا جانور ہی رہتا ہے اسی طرح مختلف کتابوں کا مطالعہ کرنے اور مختلف ڈگریاں حاصل کرنے سے انسان ڈگری ہولڈر تو کہلا سکتا ہے تعلیم و تہذیب یافتہ نہیں کہلا سکتا،تعلیم انسان کے اندر شعور،آگاہی پیدا کرتی ہے جس شخص میں تعلیم یہ چیزیں پیدا نہ کرے تو اس کی مثال وہی ہے جو ابتدا میں لکھی گئی ہے،
گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج لیہ کا میگزین سال 2020-21 ”تھل“نظروں سے گذرا دیگر موضوعات پڑھنے سے قبل صحافی ہونے کی وجہ سے صحافت کے موضوع پر لکھا گیا مضمون ”لیہ میں اردو صحافت کا آغاز و ارتقا“سب سے پہلے پڑھنے کا اتفاق ہوا،مضمون کی تحریر جوں جوں پڑھتا گیا مجھے صحافت پر لکھنے والے لکھاری کی تعلیمی ڈگریوں،مختلف عہدوں اور اب ایک سیاسی و مذہبی جماعت کے عہدہ پر خدمات سرانجام دینے والے دورانیہ پر میں بھی بہت سے سوالیہ نشان اٹھا سکتا ہوں،ان کے بطور لیکچرر،پروفیسر،پرنسپل،چیئرمین بورڈ،پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں دی گئی خدمات اور حاصل کی گئی ڈاکٹریٹ کی ڈگری پرگفتگو و ضبط تحریر لاکر اچھا برا تبصرہ کیا جاسکتاہے جوکہ میں نہیں کروں گا کیونکہ میرے اساتذہ اور بزرگوں کی طرف سے دی گئی تعلیم و تربیت آڑے آتی ہے کہ کسی کی ذات پر حملہ کرنے سے درگذرکیا جائے،موضوع صحافت ٹائٹل میں لیہ کی صحافیوں کو ان پڑھ،جاہل،علم سے نابلد کہا گیا،یہ ہماری ذات پر لکھاری کے ذاتی حملے ہوسکتے ہیں ان الفاظ پر کوئی تبصرہ نہیں کرتا مضمون کے آخر میں میرے ادارے ڈسٹرکٹ پریس کلب لیہ پر اور اس کے انتظام و انصرام چلانے والے مختلف ادوار کے منتخب عہدیداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کو قبضہ گروپ قرار دیا گیا اپنے ادارے اور اس کی تنطیم کے منتخب عہدیداروں پر الزام تراشی کی تحریر پر جواب دینا میرا حق ہے اور میری تعلیم وتربیت اس بات کی متقاضی ہے کہ اپنی ذات پر حملہ پر درگذر کرلیا جائے لیکن جب تمہارے دین، بزرگوں، گھر اور ادارہ کی طرف کوئی انگلی اٹھائے تو اس کا جواب ضرور دینا،اسی بات کا جواب دینے کیلئے چند الفاظ لکھنے لگا ہوں کہ ڈسٹرکٹ پریس کلب لیہ کے مختلف ادوار میں مختلف شخصیات جن کا مختلف اخبارات سے تعلق رہا ہے وہ اس ادارہ کے عہدوں پر اپنی خدمات احسن طریقہ سے ا دا کرکے ضلع لیہ کے قلم قبیلہ سے تعلق رکھنے والوں کو ایک بہترین ادارہ ڈسٹرکٹ پریس کلب لیہ دیا،جس میں سینئر جونیئر صحافتی حضرات اپنی صحافتی فرائض ادا کرتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت کررہے ہیں، اور نہ کہ یہ قبضہ گروپ ہیں، ڈسٹرکٹ پریس کلب لیہ ضلع لیہ کا وہ فعال ادارہ ہے جس میں شعور و آگاہی کے لئے سیمینارز،مشاعرے،تفریحی،ادبی و ثقافتی پروگرام کا انعقاد،قومی لیڈرز،عام و خاص عوام اپنے مسائل، مشکلات اپنی آواز بذریعہ پریس اعلیٰ حکام تک پہنچانے کیلئے پریس کانفرنس کرتے ہیں کورڈ 19کے ابتداء میں ضلع لیہ کی عوام کو مشکلات سے نکالنے کیلئے سب سے پہلے ڈسٹرکٹ پریس کلب لیہ میں سول سوسائٹی،سیاستدان،مذہبی وسیاسی جماعتوں کے عہدیداران،سرکاری افسران،تاجر تنظیموں،ضلع لیہ کے بااثر و دولت مند طبقات کو اس بلڈنگ میں اکٹھا کرکے عوامی ایشو پر ایک بیج پر لاکر عوامی خدمت سرانجام دیں،اسی طرح لیہ ڈویژن بناؤ تحریک کا آغاز بھی اسی بلڈنگ سے کیا گیا جس کوقبضہ گروپ کہا گیا،پریس کلب لیہ کی بنیاد 1972میں رکھی گئی 1982ء میں ضلع بننے کے بعد اس کا نام ڈسٹرکٹ پریس کلب لیہ رکھ دیا گیا جس میں بیٹھنے والے صحافی حضرات تاحال اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں،اور آئندہ بھی دیتے رہیں گے،اب بات کرلی جائے کالج”تھل“ میگزین کی،میں سمجھتا ہوں کہ کالج میگزین چھاپنا اور اس لیول کا چھاپنا ایک اچھی کاوش ہے جس کیلئے موجودہ پرنسپل ڈاکٹر مزمل حسین،مدیر اعلیٰ طاہر مسعود مہار،مدیران،مجلس ادارت،مجلس مشاورت ودیگر جن کی اس تھل میگزین کی اشاعت میں کردار ہے قابل تعریف ہیں،سیشن 2020-21ء کا ”تھل“کالج میگزین میں مختلف موضوعات جن میں تاریخ، ثقافت، ادب، فنون لطیفہ، سیاست، صحافت، شخصیات، متفرقات کا تفصیلی جائزہ لیا تو مجھے کالج میگزین کی تعریف جس کے بارے میں اپنے طالبعلمی کے دور میں بطور کالج میگزین مدیر میں نے کام کیا تھا بات سمجھ سے بالا تر ہوگئی کیونکہ کالج میگزین خصوصی طور پر زیر تعلیم طلباء و طالبات کی تحریروں سے مزین ہوتا ہے جس کی وجہ سے طلباء و طالبات میں لکھنے کا رجہان پیدا ہوکر ان کی ذہنی آبیاری ہوتی ہے 720صفحات پر شائع کئے گئے”تھل“ کالج میگزین میں مجھے طلباء کی تحریروں کے بجائے دیگر افراد کی تحریریں پڑھنے کو ملی ہیں جبکہ طلبا و طالبات کے نام غزلوں،سنہرے موتی انتخاب کے حوالے سے شائع ہوئے ہیں جس دورمیں ہم پڑھتے تھے اس دور میں کالج میگزین کا مدیر طالبعلم ہوا کرتا تھا،میگزین کا اداریہ بھی طالبعلم مدیر لکھا کرتا تھا کیونکہ جس طرح تعلیمی ادارہ تربیت گاہ ہوتی ہے اسی طرح وہاں کی جانے والے سرگرمیاں بھی اس تربیت کا حصہ ہوتی ہیں اور کالج میگزین بھی اس تربیت کا ایک اہم سلسلہ ہوا کرتا تھا جو اس میگزین میں کہیں بھی نظر نہیں آیا۔
اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے”آپ کہہ دیجئے کوئی برابر ہوتے نہیں سمجھنے والے اور بے سمجھ،سوچتے وہی ہیں جن کو عقل ہے“