وطن عزیز کی سیاسی تاریخ ہو یا کوئی بھی سیاسی تحریک کسی بھی حوالے سے اسے یادگار یا شاندار نہیں قرار دیا جاسکتا کیونکہ ہمیشہ پرانی کہانی نئے رنگ سے پیش کر کے عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے اسٹیج بدل جاتا ہے کردار بدل جاتے ہیں مگر کہانی نہیں بدلتی بیان دینے والے بدل جاتے ہیں مگر بیان نہیں بدلتے۔ کل تک جو اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر جلسہ گاہوں کی کرسیاں گنا کرتے تھے آج کل جلسہ گاہوں میں کرسیاں لگا رہے ہیں اور جو کل تک جلسہ گاہوں میں کرسیاں لگایا کرتے تھے آج کل اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر جلسہ گاہوں کی کرسیاں گن رہے ہیں ۔ کل تک جو رات کے جلسوں کو مجرا قرار دیتے تھے آج کل جمہوریت کے نام پر دن رات جلسے کر رہے ہیں اور کل تک جو جلسوں کو جمہوریت کا حسن قرار دیتے تھے آج کل جلسوں کو سرکس قرار دے رہے ہیں کل تک مسلم لیگ ن کو اپوزیشن کے جلسے اس نظام اور جمہوریت کے لیے خطرہ نظر آتے تھے آج کل تحریک انصاف کو اپوزیشن کے جلسوں سے اس نظام اور جمہوریت کے لیے خطرات نظر آرہے ہیں کل تک تحریک انصاف کو انتخاب میں دھاندلی نظر آتی تھی اور مسلم لیگ ن کی حکومت کو انتخاب صاف و شفاف دکھائی دیتے تھے اور آج کل مسلم لیگ ن سمیت تمام اپوزیشن انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیتی ہے اور تحریک انصاف کی حکومت انتخابات کو صاف شفاف قرار دے رہی ہے کل مسلم لیگ ن کی حکومت کو سب اچھا نظر آتا تھا آج تحریک انصاف سب اچھا کا راگ الاپ رہی ہے مسلم لیگ ن کی حکومت میں سابقہ حکمران پی پی پی والے چور تھے آج تحریک انصاف کی حکومت میں بھی سابقہ حکمران مسلم لیگ والے چور ہیں۔
اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں جمہوریت وہی خوبصورت ہوتی ہے جو ہمیں قابل قبول ہو یا پھر صرف وہی جمہوریت ہوتی ہے جس میں ہمارا کوئی نہ کوئی کردار ہو یعنی ہم نہیں تو جمہوریت نہیں ہم نہیں تو کچھ بھی نہیں یہی وجہ ہے کل تحریک انصاف چار حلقوں کو لیکر چار مہینوں تک سڑکوں پر احتجاج کرتی رہی اور آج بھی پسند کی جمہوریت کا وہی مشن لے کر اپوزیشن سڑکوں پر نکلی ہوئی ہے۔ یہ بات تو ایک حقیقت ہے کہ ماضی کے احتجاج اور تحریکیں ہوں یا حال میں ہونے والا احتجاج اور تحریک یہ سب جمہوریت کے نام پر تو ہوتے ہیں مگر جمہوریت اور جمہور کے لیے نہیں ہوتے ان کا مقصد ماضی میں بھی اقتدار کا حصول رہا اور آج بھی اقتدار کی جنگ لڑی جارہی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ تحریک انصاف کی حکومت کی نصف مدت پوری ہونے کے بعد اپوزیشن اپنے ہونے کا ثبوت دینے کے لیے متحرک ہوئی ہے۔
تاہم ان احتجاجی جلسوں کا مختلف پہلو یہ ہے کہ اپوزیشن پہلی بار اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر کھل کر بول رہی ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ملک کی سیاست میں ہر دور میں کسی نا کسی طرح اسٹیبلشمنٹ کا کردار رہا ہے اور ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت اسٹیبلشمنٹ کی نرسریوں میں تیار ہوئی پلی بڑھی پھلی پھولی اور آج کل سب نے جمہوریت کے نام پر طوفان مچا رکھا ہے۔
علاج کیلئے لندن جانے والے میاں نواز شریف ویڈیو لنک کے ذریعے جذباتی خطاب کر کے اگر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ انقلابی لیڈر ہیں تو انہیں یہ کیوں بھول جاتا ہے کل تک جب وہ لاڈلے تھے تو مخالفین کو رگیدنے کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے پی پی پی والے بھول جائیں تو بھول جائیں مگر یہ قوم کہاں بھول سکتی ہے کہ ان کی جماعت مسلم لیگ ن نے محترمہ بینظیر بھٹو کی کردار کشی میں تمام حدیں پار کر لیں تھیں آج میاں صاحب جو سوالات اٹھا رہے ہیں اس وقت کیوں نہیں اٹھاۓ جب وہ خود اس کھیل میں کھل کر کھیل رہے تھے اسی طرح ماضی میں جو بھی اس کھیل کا حصہ رہا اسے اس وقت تک اسے سب اچھا نظر آتا رہا جب تک لاڈلے کا تاج اس کے سر پر رہا بالکل ایسے ہی آج کل موجودہ حکومت کو بھی سب اچھا دکھائی دیتا ہے وزیر اعظم اپوزیشن کے جلسوں پر خاصے برہم اور شدید غصے میں دکھائی دیتے ہیں ان کی پوری ٹیم اپوزیشن کے جلسوں کو ناکام ثابت کرنے کے لیے سر توڑ زور لگا رہی ہے جبکہ وزیر اعظم نے ٹائیگر فورس سے خطاب کرتے ہوۓ انتہائی غصے میں اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا تم واپس آؤ میں تمہیں دیکھتا ہوں اور یہ کہ اب کی چور کو رعایت نہیں ملے گی کسی کو باہر نہیں جانے دیا جاۓ گا ان کو عام قیدیوں کے ساتھ جیل میں رکھا جاۓ گا یہ سب کرنے کی باتیں ہیں جو وہ اکثر کرتے رہتے رہتے ہیں عمل کب اور کیسے ہوتا ہے اس کا اندازہ ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ہاں اگر ان کا یہ غصہ عوام کو ریلیف دلانے ، مہنگائی کے خاتمے ذخیرہ اندوزوں اور لوٹ مار مافیا کے خلاف ہوتا تو سوچا جاسکتا تھا کہ جلسوں کے بعد اب نیا عمران خان آگیا لیکن کہاں کل جب پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے خلاف بات کرتی تھی تو مسلم لیگ ن اس کا دفاع کرتی ہے اور آج وہی مسلم لیگ ن اور تمام اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر سوال اٹھا رہی ہے اور تحریک انصاف اس کا دفاع کرتی نظر آتی ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ سے لے کر ہر سیاسی تحریک تک سب سے تاریک پہلو یہی ہے ماضی میں بھی سیاستدان استعمال ہوتے رہے اور آج بھی استعمال ہورہے ہیں مگر اس طرح ان سیاستدانوں کو معصوم یا بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ ماضی میں بھی حکمران خفیہ ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیکر اپنے ہاتھ مضبوط کرتے رہے اور قوم کے ساتھ ہاتھ کرتے رہے اور آج بھی حکمران خفیہ ہاتھ کو ہاتھ میں لیکر ہاتھ ہلاتے ہوۓ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ہاتھ مضبوط ہیں مگر یاد رکھنا ہوگا جب تک جمہور مضبوط نہیں ہوگی جمہوریت مضبوط نہیں ہوسکتی##
مظہر اقبال کھوکھر
03007785530