سابقہ 70سالوں میں پاکستان کی تقدیر بدلنے کے لئیے متعدد تحریکوں ، دعووں،نعروں سے سیاسی جماعتیں و لیڈر پیدا ہوئے ، کئی حالات کی غلام گردشوں میں گم ہو گئے اور کئی آب حیات کا پیالا پی کر امر رہے،تحریکوں مین کبھی تو روٹی کپڑااور مکان کا نعرہ بلند ہوا تو کسی جگہ سے قرض اتارو ، خود کو سنوارو،ادھر خوشحال پاکستان ابھرا تو ساتھ میں انصاف آپکی دہلیز پر بھولی بسری عوام کو خواب دکھانے لگے ، چیختی چنگھاڑتی تحریکیں دم توڑنے لگتی تو معلوم ہوتا انکے مقاصد و حصول کچھ اور تھاعوام ہر تحریک کو روشنی کی کرن سمجھ لیتی اور دوڑ پڑتی کہ اس بار ہم نہیں تو کون ، اور تبدیلی ہم سے پر ستاروں پر کمند ڈالنے کی امیدیں باندھ لیتی ، سابقہ ان 70سالوں کو کوستی عوام کو نئے سرے سے خواب دکھانے کے لئیے موجودہ حکومت کی سیاسی جماعت تحریک انصاف نے بھی پاکستان کی تحریک بدلنے کے نت نئے انداز سے نعرے متعارف کرائے، نئے خواب ، آسماں و جہاں دکھانے شروع کر دئیے جس سے عوام نے امیدیں باندھ لی کہ اس بار کوئی اور نہیں ہم خود ہی ہوں گے اور اپنے مسائل سن کر حل کریں گے ، موجودہ حکومت کا سب سے زیادہ مقبول نعرہ 100روزہ پلان سے توقعات باندھ لیں ، ہر شہری نے اپنے مطابق تعبیر اخذ کر لی، 100روزہ پلان میں توانائی بحران کا خاتمہ ، نوجوانوں کے لئیے روزگار کی فراہمی، 50لاکھ گھرون کی تعمیر، سیاحت کی ترقی، کاروبار کے لئیے سازگار ماحول، عام شہریوں کے مالی وسائل میں اضافہ ، اور زراعت کی ترقی جیسے متعدد منصوبے شامل تھے، دوسرے شعبوں میں کتنا اور کس حد تک عمل ہوا یہ پاکستان کی 22 کروڑ سے زائد عوام بہتر جانتی ہے لیکن خود کو زراعت کے شعبے سے منسلک ہونے کی بنا پرزراعت اور کسان بدحالی کا شکار ہے موجودہ حکومت نعرے تو بہت لگا رہی ہے کہ بہت کچھ کر دیا ہے او ر ہم مصروف تھے، اگر حقائق پر نظر دوڑاتے ہیں تو نتائج برعکس نکلتے ہیں، ذاتی اندازے و اعدادوشمار کے مطابق سابقہ دور حکومت میں کسان پر شوگر ملز مافیا، محکمہ فوڈ و مالو دیگر سرکاری و غیر سرکاری اداروں کا راج رہا، شوگر ملوں کا دیر سے چلنا، مقررہ ریٹ سے کم ریٹ پر خریداری ، ایڈنٹ کی تقسیم میں رشوت ، اقربا پروری ، اجارہ داری سمیت پیمنٹ کے حصول میں کسانوں کو زلیل و خوار کرنے میں کوئی کمی نہ چھوڑی گئی شوگر ملیں جو ماہ اکتوبر مین چلنا تھیں ماہ دسمبر میں بھی نہ چلیں، اس موسم میں کسان کی مشکلات کا اندازہ لگائیں تو اسی موسم میں گندم کی کاشت کا موسم ہوتا ہے جو کہ مخصوص دن میں کاشت کرنی ہوتی ہے کھاد بیج و ادویات کی خرید کے لئیے رقم کی ضرورت سمیت کالی کھیت بھی درکار ہوتا ہے جب شوگر ملیں ہی ماہ دسمبر میں چلیں گی تو کھیت کیسے خالی کرے گا اور بیج و ادویات کیسے خرید کرے گا ، یہ ایک سوچنے کی بات ہے جس پر سوچنا ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں موجود بیوروکریٹس ، بڑی گاڑیوں میں گھومتے وزراء ؤ مشیران کے بس کا نہیں ہے ۔سابقہ دور میں بھی یہ شوگر ملیں بروقت نہیں چلیں تھیں تبدیلی کی حکومتمیں بھی اب تک نہیں چلیں اور نہ ہی گنے کی خرید شروع ہوئی نہ ہی کسانوں کے کھیت خالی ہوئے ، ساتھ میں گندم کی کاشت میں بیج، کھاد، ڈیزل و پانی کی ضروریات بڑھ جاتی ہیں سرکاری سطح پر ایک ادارہ بیج مہیا کرتا ہے جس کا سٹاک وقت سے پہلے سرمایہ دار ، آڑھتی اُٹھا لیتا ہے کسان کے پہنچنے تک ختم ہو چکا ہوتا ہے جس کی بعد متعدد نجی کمپنیاں خود ریت مقرر کرکے مارکیٹ میں فروخت کرتی ہیں جس کے معیاری ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی، گندم کی قیمت فروخت 1300 روپے فی من مقرر کی گئی ہے جبکہ بیج گندم 5500روپے فی بوری تھ فروخت ہوتا رہا ہے سابقہ اور موجودہ حکومت میں یکساں نظام رائج رہا ہے ،ڈی اے پی ،یوریا کی اشد ضرورت ہوتی ہے جو کہ ان دنوں میں بلیک میں فروخت ہوتی ہے ، ہر دکاندار و کمپنی کا اپنا ریٹ مقرر ہوتا ہے سرکاری اداروں کی کارکردگی نظر آنے میں سموگ رکاوٹ بن جاتی ہے ، سابقہ سال DAPکی قیمت 2500سے 2700روپے ، یوریا 1200سے 1350روپے تک فروخت ہوتی رہی موجودہ سال میں ڈی اے پی اور یوریا بالترتیب 3500 اور1800روپے تک سرعام فروخت ہوتی رہی جبکہ دوسری کھادوں میں اسی طرح اضافی دیکھا گیا ہے ، ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ و کمی بیشی سب کے سامنے ہے ان دنوں میں ڈیزل پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کسان پر کیا معاشی بوجح ڈال سکتا ہے کسی ادارے و تبدیلی نے اندازہ لگانے کی کوشش نہیں کی، ساتھ میں پانی کی کمی کا بہانہ بنا کر نہریں بند کرکے کسان کو پیٹر انجن، ٹیوب ویل سے بھاری اخراجات کی طرف دھکیل دیا گیا یہ صورت حال دوسری فصلات کے ساتھ بھی تواتر سے جاری ہے ، ذاتی اعداوشمار کیمطابق کسانوں کی جانب سے خرید کی جانے والی چیزوں پر100سے 150 فی صد تک اضافہ ایک سال میں ہوا ہے جبکہ قیمت فروخت میں تبدیلی نہیں ہوئی، ڈالر کی اڑان نے بھی متعدد جنس و اشیا ء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا ہے کیونکہ ہم اکثر فصلوں کے بیج میں خود کفیل نہیں ہوئے اور انڈیا سے خصوصاَ باجرہ ، جوار، مکئی،تربوز،پیاز،مرچ کا بیج باہر سے منگواتے جس کی ادائیگی ڈالر میں کرنی ہوتی ہے جو کہ مہنگی ہوتی ہیں اور اسکا خمیازہ کسان کو بھگتنا پڑتا ہے ، بس اس کااندازا لگا لیں کیں کی تبدیلی جتنی بھی رونما ہو چکی اسکا حصہ کسان کو نہیں ملا، سابقہ دور میں کسانوں نے گنا فروخت کرکے مہنگے داموں بیج خرید کئیے تھے، کھیت جنوری کے آخر میں خالی کئیے تھے،گندم بھی 1300روپے فی من فروخت کی تھی موجودہ تبدیلی کی حکومت میں بھی مہنگائی میں اضافہ کے ساتھ سابقہ حالات پر گزارہ کررہی ہے تبدیلی کے 100دنون میں کسانوں کو کچھ نہیں ملا۔۔۔۔۔۔
Call: 03097239980….Watsup: 03038229933
Email: kamranlyh@gmail.com