پاکستان کے بنتے ہی ایک ظالم غاصب جابر انگریز کا پروردہ ٹولہ عنان حکومت کے کل پرزوں میں گھس گیا ،،،قائد کے بعد لیاقت علی خان آخری مخلص قیادت کی نشانی تھی جس کو اس ٹولہ نے بذریعہ سازش صفحہ ہستی سے مٹا دیا ،،،اس قبضہ گروپ کے بارے میں قائد محترم نے تعمیر پاکستان میں بے بسی کا اظہار کرتے ہووے فرمایا تھا کہ کیا کروں کہ ،،،میری جیب کے اکثر سکے کھوٹے ہیں اور کھوٹے سکے تعمیر میں رکاوٹ ہیں ،،،، پھر کیا ہوا امیروں کے منشیوں کے کتے بھی مری کے ٹھنڈے ماحول میں جانا شروع ہوگئے مگر غریب کو غریب تر کردیا گیا اور اسکی بیٹی ننگے پاوں ننگے سر اور اسکا چاند جیسا بیٹا ننگے بدن انکے محلات کیلیے گندم ریشم فرنیچر اور چمڑے کیلیے دن رات سردی گرمی اور بھوک پیاس کی شدت سے بے نیاز ہوکر سر گرداں رہا ،،،حالات انگڑائی لیتے رہے مگر یہ ٹولہ بے قابو ہوگیا ،،،تحریکیں چلیں مگر دم توڑ جاتیں،،قاضی حسین احمد نے ،،،،پہلے احتساب پھر انتخاب ،،، کا نعرہ دیا جناب احمد شاہ نورانی ،،نواب نصراللہ خان اور عمران خان اس بائیکاٹ میں شامل تھے ،،،آخری وقت پر خان صاحب الیکشن میں اتر گئے اور جماعت اسلامی بائکاٹ کرکے آوٹ ہوگء ،،قاضی صاحب کی حیات کے بعد خان صاحب نے دوبارہ اس نعرے میں جان ڈالی ،،،عوام جاگی نوجوان اٹھا ،،پکار ہوئی للکارا ہوا ،،احتساب اور عدل کی گونج کانوں میں آء،،وڈیرہ سرمایہ دار جاگیردار نے اس انگڑائی اور بدلتی کروٹ میں اپنی چمڑی ادھڑتی دیکھی ،،،پڑھے لکھے محنتی منجھے نوجوان کو آگے آتے دیکھا ،،،بغیر دھن دھونس الیکشن ہوتے دیکھا ماہرین معاشیات ماہرین سیاسیات ماہرین بین الاقوامی تعلقات ،،پلاننگ اور ڈیولپمنٹ کے غریب دیانتدار ماہرین کو اسمبلی اور پارلیمنٹ جاتے دیکھا ،،،اپنا منشیات سمگلنگ پلاٹوں اور قبضہ مافیا کا کاروبار ٹھپ ہوتے دیکھا اپناکھایا مال اور لوٹی دولت اور کھربوں کے معاف کرائے گئے قرضے واپس ہوتے دیکھا ،،تعلیم ملازمت اور ٹرانسفر کے میرٹ بنتے دیکھا ،اپنے برائلر ڈفر نالائق اور عیاش اولاد کا مستقبل تاریک اور عبرتناک ہوتے دیکھا ،،،تو ہر نسل علاقہ اور پارٹیوں کے فرعون سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ اگر کوئی غریب ہمدردتحریک کامیاب ہوگء تو انجام یہ ہوگا لہذا اٹھو کہ دیر نہ ہوجائے اتحاد بناو پارٹیاں جھنڈے نعرے اور نام بدلو اس سے پہلے کہ ہمیں کوئی گریبان سے پکڑ کر کہے کہ ہم خود ہی کہ دیتے ہیں کہ لوٹ کھسوٹ نے نظام کو بدلو ،،،بجائے اسکے کہ ہمارا احتساب ہو ہم خود محتسب بن جاتے ہیں بجائے اسکے کہ ہمارے بارے میں عدل ہو آج وقت ہے ہم خود ہی عادل بن جاتے ہیں ،،،حالیہ الیکشن کی ٹکٹ اور کمپین میں وہی ایلیکٹیبلز اور وننگ ہارس کو ترجیح ،،کالا دھن دھونس اور دھاندلی ترجییح ،،،لوٹ مار کرپشن اقرباء
پروری قصہ پارینہ ہوکر خدمت دیانت اور عظمت میں بدل گئی تبدیلی والے منہ لٹکائے اپنی کھوکھلی بھرم اورشرم رکھنے کیلیے طرح طرح کی تحویلات اور طفل تسلیوں سے اپنا ٹوٹا دل بہلا رہے ہیں ،، کہ کمانڈر قابل ہوتو سب کچھ ٹھیک ہو جایگا ،،،، انکو ممبر وزیر بننے دو پھر دیکھنا انکا احتساب ،،،وہ کچھ بھی نہی تو اسی فیصد ن پی پی اور ق لیگ والے ٹکٹیں لے گئے جب وہ قانون سازاور وزیر بن جائیں گے تو پھر ملک چلاو گے یا ان ذمہ داران کو جیلوں میں ڈالوگے ،،اس کوتاہ نظری سے تو گھر بھی نہی چلتے ملک تو دور کی بات ،،،،،چین نے کرپٹ ذمہدار کو پھانسیا ں دیں ترقی کر گیا ہم اس طبقہ کی جہالت ظلم کالا دھن دھونس دھاندلی لوٹی ہوئی لمبی چوڑی جاگیر وں اور جائیدادوں کی عزت اور حوصلہ افزائی کرکے ترقی عدل اور احتساب کے راستہ پر گامزن ہونا چاہتے ہیں ،،،،یہ سمجھ سے بالاتر ہے ،،،اگر کھوٹے سکے کام دیتے تو قائد اعظم اور خآن لیاقت علی خان یہ فریضہ سر انجام دے جاتے جبکہ ان کھوٹے سکوں میں قدرے کچھ شرم و حیا تھی ،، خان صاحب سے قوم کو توقعات تھیں اسلیے ان سے قوم کا گلہ ہے ،،،،بے لاگ اور غیر جانبدار کڑا احتساب فوری اور مفت عدل و انصاف اس ملک کی زندگی اور بقا کیلیے فرض قرار پا چکا ہے ،،، اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے دیر ہے اندھیر نہی ،،،،، وقت بدلے گا غریب مخلص دیانتدار باصلاحیت عنان حکومت سنبھالے گا ہر نسل اور پارٹی گینگز کے سرغنے اور انمیں رہبر کا روپ دھارے رہزنوں کا کڑا احتساب ہوگا ،،، خان صاحب سے منافق مشیروں نے وننگ ہارس کی بات منوا کر تبدیلی کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ،،تبدیلی کے صاف دل متوالوں سے غداری کی تبدیلی کے سونامی کا رخ موڑا اور خان صاحب کو ملا ہوا ایک بہترین موقع کو سازش کے تحت ضائع کرادیا ،،،ورنہ اگر تن تنہا جمشید دستی ضلع مظفر گڑھ کے فراعنہ کو اکیلا نکیل ڈال سکتا ہے تو خان کی پچیس سالہ محنت اور بے بہا وسائل آخر کیوں نہی ،،کسے وکیل کروں کس سے منصفی چاہوں ،،،،کسے بتاوں دل میں زخم کیا کیا ہیں ۔