لاہور ۔ پاکستان بھر کے بڑے شہروں میں تاجروں کی بڑی تعداد حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے دو روزہ شٹر ڈاون ہڑتال جاری رکھے ہوئے ہے۔
تاجر برادری کا یہ احتجاج ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب وزیراعظم عمران خان کے استعفے کے لیے شروع کیا جانے والا اپوزیشن کا احتجاجی مارچ نواز شریف کے شہر لاہور پہنچا ہے۔ آل پاکستان انجمن تاجران اور مرکزی تنظیم تاجران پاکستان سمیت تاجروں کی چھوٹی بڑی متعدد تنظیموں کی اپیل پر پشاور، لاہور ، کراچی، کوئٹہ اور اسلام آباد سمیت ملک کے بڑے شہروں میں کاروباری مراکز اور تجارتی منڈیوں کی بڑی تعداد میں کام بند ہے۔ راولپنڈی، ملتان، فیصل آباد، سیالکوٹ، حیدر آباد، سکھر، گوجرانوالہ اور سرگودھا سمیت ملک کے مختلف حصوں سے بھی شٹر ڈاؤن ہڑتال کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
ادھر لاہور کی تمام بڑی مارکیٹوں میں بھی شٹر ڈاون ہڑتال جاری ہے۔ اکبری منڈی، سرکلر روڈ، بانساں والا بازار، شاہ عالم مارکیٹ، بیڈن روڈ، ہال روڈ، فیروز پور روڈ، آٹو مارکیٹ ، اعظم مارکیٹ، ، انارکلی، لنڈا بازار، حفیظ سنٹر، ماربل مارکیٹ، لوہا مارکیٹ اور اچھرہ بازار سمیت شہر کی بیشتر بڑی مارکیٹیں بند ہیں۔ بعض مارکیٹوں میں اکا دکا دوکانیں کھلی ہیں جبکہ کنٹونمنٹ کے علاقوں میں ہڑتال نہیں کی گئی۔
آل پاکستان انجمن تاجران کے رہنما نعیم میر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملک کے تمام چھوٹے بڑےشہروں میں ہڑتال کامیاب رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تاجر برادری ٹیکس دینے کو تیار ہے لیکن سامان کی خرید و فروخت پر شناختی کارڈ کی پابندی قبول نہیں اور فکسڈ ٹیکس کا معاملہ بھی تاجروں کی مشاورت سے حل کیا جائے، ”اگر ہمارے مطالبات اڑتالیس گھنٹوں میں نہ مانے گئے تو پھر ہم تاجر برادری کی مشاورت سے مزید سخت لائحہ عمل اختیار کریں گے۔‘‘
انجمن تاجران لاہور کے جوائنٹ سیکریٹری میاں محمد سلیم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ”حکومت کی معاشی ٹیم ناتجربہ کار ہے، جن کی پالیسیوں کی وجہ سے آج حکومت اور تاجر برادری آمنے سامنے ہے، معاشی ٹیم اور چئیرمین ایف بی آر حالات کی سنگینی کو سمجھیں اور ٹیکس اصلاحات کے حوالے سے تاجر برادری کو اعتماد میں لیں۔‘‘
مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے تاجروں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں۔ ان مذاکرات کے بعد حفیظ شیخ نے میڈیا کو بتایا کہ اس وقت ملک میں تین لاکھ بانوے ہزار ٹریڈرز ٹیکس دے رہے ہیں اور حکومت پوری کوشش کر رہی ہے کہ ٹیکس دینے والے تاجروں کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں، ان کے مسائل حل کئے جائیں۔ ان کے مطابق دوسری طرف ملک میں تیس پینتیس لاکھ ٹریڈرز ایسے ہیں جو ابھی تک ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں اور حکومت کی کوشش ہے کہ ان تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کاروباری برادری کے رہنما اور ایوان صنعت و تجارت لاہورکے سابق صدر میاں شفقت علی کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں اس مسئلے کو حکمت کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے فیڈرل بورڈ آف ریوینو کو تاجر برادری کو فیس سیونگ دیتے ہوئے کوئی درمیانی راہ نکالنی چاہیے۔ اس سلسلے میں پاکستان کا سب سے بڑا چیمبر، لاہور چیمبر آف کامرس اہم کردار ادا کر سکتا ہے، پچیس ہزار اراکین والے اس چیمبر میں تاجروں اور صنعتکاروں دونوں کی نمائندگی موجود ہے۔
ایک سوال کے جواب میں میاں شفقت کا کہنا تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی لاہور چیمبر ایسے مسائل کا حل نکال کر حکومتی ریونیو ٹارگٹ پورا کرنے میں مدد دے چکا ہے۔ ان کے مطابق یہ بات درست نہیں ہے کہ تاجر ٹیکس نہیں دیتے، ” چودہ کروڑ لوگ تو بغیر ٹیکس دیے سو روپے کا کارڈ بھی لوڈ نہیں کر سکتے، ایف بی آر ترانوے فیصد ٹیکس تو براہ راست ان ڈائریکٹ طریقے سے لے لیتا ہے، صرف سات فی صد ٹیکس ایف بی آر کی مشینری اکٹھا کرتی ہے اور اس مشینری پر اٹھنے والے اخراجات بھی سترہ فی صد کے قریب ہیں۔‘‘
میاں شفقت کہتے ہیں کہ ٹیکس جمع کرنے کے لیے ٹیکس لینے اور ٹیکس دینے والوں کا ایک پیج پر ہونا ضروری ہے، ”ایک ایسا ماحول جہاں دوکاندار کی سیل بیس فی صد رہ جائے، تاجر اپنی دوکانیں بیچنے پر مجبور ہو جائیں، ہونڈا اور ٹویوٹا جیسی کمپنیاں بھی اپنی پروڈکشن کم کرنے پر مجبور ہو رہی ہوں تو ٹیکس ٹارگٹ کیسے پورے کیے جا سکتے ہیں؟‘