یسے جیسے کورونا بے قابو ہوتا جارہا ہے ہم بھی قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں جب پہلے پہل ہمارے ملک میں کورونا نے پاؤں جمانے شروع کیے تو ہم اس کے خلاف لکھنے کے لیے بے قابو ہوگئے ہم نے سوچا کورونا کو لکھ لکھ کر ماریں گے۔ جیسے کسی سیانے خان نے کھجور خریدی تو اس میں سے کیڑا نکل آیا۔۔۔۔ اس طرح کے لطیفے عام طور پر ہمارے سکھ اور پٹھان بھائیوں سے منسوب ہوتے ہیں ہمارا نہیں خیال کہ اس طرح کے حد سے زیادہ "سیانے” لوگ کسی مخصوص قومیت میں پاۓ جاتے ہیں بلکہ ہر قوم اور ہر نسل میں اس طرح کے بڑے دماغ والے حد سے زیادہ سیانے لوگ موجود ہوتے ہیں جو خود کو عقل کل سمجھتے ہیں جو باتیں زیادہ اور کام کچھ نہیں کرتے جو سوچ کر فیصلہ نہیں کرتے بلکہ فیصلہ کر کے سوچتے ہیں۔
بہر حال اس نے کیڑا دیکھا تو غصے سے لال پیلا ہوگیا صاف ظاہر ہے اس نے رقم خرچ کی تھی اس نے کیڑے کو اٹھایا اور اپنے سر پر رکھ دیا جو چلتے چلتے اس کے پاؤں تک پہنچا تو اس نے پھر اٹھا کر اپنے سر پر رکھ دیا دو تین بار اس نے ایسا کیا تو کسی پوچھا خیر تو ہے خان صاحب ایسا کیوں کر رہے ہیں۔۔؟
دیکھتا نہیں یہ ہمارے تول میں آیا ہے لہذا ہم اس کو ٹرا ٹرا کر مارے گا۔۔
خان انتہائی سنجیدگی سے جواب دیا
یعنی اس کو چلا چلا کر مارے گا ایسے ہی ہم نے سوچا کورونا کو ہم لکھ لکھ کر ماریں گے شاید کسی نے سوچا ہو ہم گن گن کر ماریں گے اور کوئی چن چن کر مارنا چاہتا ہو مگر جب یہ سنا کہ کورونا نے لکھوں لکھ یعنی لاکھوں لاکھ مارنا شروع کر دیے ہیں تو ہم کورونا سے بچنے کے لیے بے قابو ہوگئے اور میدان میں نکلنے کا فیصلہ کر لیا۔ یوں سمجھیے کیسز کم تھے تو خوف زیادہ تھا اب کیسز زیادہ ہوگئے ہیں تو خوف کم۔۔۔
اور آج کل ہم میدان میں ہیں میدان سے مراد ہر کوئی اپنی اپنی فیلڈ میں ہے اور کورونا بھی فیلڈ میں ہے سب اپنے اپنے کام میں مگن ہیں کورونا اپنا کام کر رہا ہے اور ہم اپنا کام کر رہے ہیں وہ بھی بے قابو ہورہا ہے اور ہم بھی قابو میں نہیں آرہے اور دونوں ایک دوسرے کو قابو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں دیکھتے ہیں کون کس کو قابو کرتا ہے۔
ہمارا نہیں خیال کہ پاکستانی قوم کو قابو کرنا آسان کام ہے کیونکہ زندگی کا کوئی شعبہ اٹھا کر دیکھ لیں۔۔۔
حکومت ہو یا اپوزیشن ، سیاست ہو یا سیاست کے نام پر خدمت ، جمہوریت ہو یا آمریت ، صنعت ہو یا تجارت ، مذہب ہو یا مسلک ، قومیت ہو یا لسانیت ، کرپشن ہو یا لوٹ مار ، جھوٹ ہو یا منافقت ، دو نمبری ہو یا دس نمبری ، دجل ہو یا فریب ، مہنگائی ہو یا ہیرا پھیری ، ذخیرہ اندوزی ہو یا ناجائز منافع خوری ، بلیک مارکیٹنگ ہو یا بلیک منی ، بھوک ہو یا غربت ، کام چوری ہو یا سینہ زوری ، ملائیت ہو یا پیری مریدی ، بیرونی قرضے ہوں یا اندرونی عیاشیاں ، کابینہ کا حجم ہو یا سادگی کے دعوے پاکستانی قوم ہر محاذ پر بے قابو نظر آتی ہے نہیں معلوم یہ مٹی کا اثر ہے یا آب و ہوا کچھ ایسی ہے کہ یہاں ہر چیز بے قابو ہوجاتی ہے ۔
ٹڈی دل کو ہی دیکھ لیں پاکستان میں آکر کچھ اس طرح بے قابو ہو گئی ہے جیسے ٹڈی دل نہ ہوئی یا شوگر مافیا ہو گئی۔ شوگر مافیا جو ہر حکومت میں بے قابو رہتا ہے گنے کی خریداری ہو یا چینی کی فروخت ، چینی کی درآمد ہو یا برآمد ، سبسڈی لینی ہو یا چینی کی قیمت مقرر کرنی ہو اسے کوئی بھی قابو نہیں کر سکتا یا پھر کوئی بھی قابو نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اس ملک میں یا تو شوگر مافیا حکومت میں ہوتا ہے یا اس کی اپنی حکومت ہوتی ہے۔ آج کل ٹڈی دل کچھ اس طرح کسانوں کو تباہ کر رہی ہے جس طرح 72 سالوں میں جمہوروں ، نیم جمہوروں اور آمروں نے اس ملک کو تباہ کیا ۔ ٹڈی دل بھی اس طرح فصلوں کو نوچ رہی ہے جیسے اس ملک کو برسوں سے نوچا جارہا ہے کسان بیچارے ڈھول اور پیپے تو بجا رہے ہیں اس قوم نے تو اف تک نہیں کیا خاموشی سے لٹتی رہی اور بے بسی سے دیکھتی رہی۔ تحریک انصاف کے سربراہ نے کہا تھا کہ اقتدار میں آکر سب کو قابو کریں گے مگر لگتا ہے
فی الحال تو وہ خود قابو میں ہیں۔
یوں کورونا اپنی جگہ بے قابو ہے اور ٹڈی دل اپنی جگہ ، شوگر مافیا اپنی جگہ بے قابو ہے اور حکومت اپوزیشن اپنی جگہ بے قابو روزانہ ایک دوسرے پر الزام لگا کر سوتے ہیں اور ایک دوسرے کو کوستے ہوۓ اٹھتے ہیں چوریاں ہر روز پکڑی جاتی ہیں مگر چور کسی روز بھی قابو میں نہیں آتے۔ بہر ملک میں بے قابو ہوتی صورتحال کسی بھی طور سود مند نہیں حکومت اور اپوزیشن کو اپنی غیر سنجیدگی اور عوام کو اپنی غیر ذمہ داری پر قابو پانا ہوگا ورنہ کورونا اور ٹڈی دل اسی طرح بے قابو ہوتے گئے تو پھر خدا نخواستہ کچھ بھی قابو میں نہیں رہے گا#
مظہر اقبال کھوکھر
03007785530