علاقہ تھل کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بسنے والے لوگ، شہر اور آبادیاں بہت قدیمی ہیں ،پرانے کھنڈرات، ٹھیکرال، ریت کے ٹیلوں سے نکلتے سکے، مورتیاں اور قلعہ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ یہاں رونقیں و ریل پیل ہوا کرتی تھی، پیار و محبت، فرمانبرداری و اطاعت کے محافل تھی تو ساتھ میں بغاوت، سرکشی و نفرت کے شعلے تلواروں کو بے نیام کردیتے تھے گھوڑے ہاتھی، رچھ نکلتے تھے تو سرسب میدان خون کے چھینٹوں ، گردنوں اور انسانوں کے دھڑوں میں تبدیل ہوتے محسوس ہوتے تھے، کوئی شہر خاموشاں میں مصروف عمل با آواز اور کوئی سربازار خاموشی کا مجسمہ کہیں آہوں وسسکیوں میں ڈوبی شا میں تو ساتھ میں گھنگرووں کی چھنکار میں گزرتی راتیں ، غریب کا استحصال و طاقت کا بے دریخ استعمال ۔ ۔ یہ تھل کے ان اونچے نیچے ٹیلے خاموش ہیں کہ یہاں سے بادشاہ بھی گزرے ہیں اور گدا بھی، یہاں سے فقیر بھی راستہ بھٹکے ہیں تو سخی بھی صحراء کی بھول بھلیاوں میں ناجانے کیاں گم ہو گئے ہیں ، یہ وہی صحراء ہیں جہاں کوئل کی آواز بھی بھلی لگتی تھی اور ہرن کا قلابازیاں دیکھ کر آنکھ حیران تھی ۔ ۔ یہاں بھی شہر آباد تھے انسان بستے تھے، خوشحالی تھی تو میاں عبدالنبی جیسے حکمران ریاست کابل سے ایک لاکھ روپیہ پر جاگیر حاصل کر لیتے تھے نواب محمد خان ایک لاکھ بیس ہزار رنجیت سنگھ کو ادا کر دیتے تھے، خوشحالی تھی نواب آف دائرہ دین پناہ سوالاکھ میں جاگیر کی سند پکڑ لیتا تھا، آمدن تھی تو انگریز تحصیل لیہ سے 95 ہزار مالیہ وصول کر لیتے تھے اسی تھل کی تاریخ نے یہ بھی دیکھا کہ خشک سالی ہوئی تو میاں عبدالنبی تین سال کا ٹھیکہ نہ دے سکنے پر معزول ہوا اور پابند سلاسل ہوا، تھل کے صحراء میں فصل کی کمی ہوئی تو منکیرہ کا حاکم حافظ احمد خان 25 ہزار دے کر سکھوں سے حکومت کی جان کی امان مانگ رہا تھا،
اسی طرح جب ہم مہر نور محمد تھند کی کتاب ;3939;تاریخ لیہ ;3939; پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ لیہ پانچ ہزار سال قبل بھی موجود تھا، ابن حنیف اپنی سات دریاوں کی سرزمین لکھتا ہے تو بتاتا ہے ملتان کے موجودہ مقام پر جب پہلی بستی بسائی گئی تو یہاں کے مختلف علاقے جلیل پور، وہنی وال، مغل والا، موہنجودڑو، ہڑپہ،لیہ، گوملہ پہلے پہل آباد تھے ۔ ۔ تاریخ مزید یہ بتاتی ہے کہ جب محمد بن قاسم پورٹ قاسم پر اترا تھا اور یہاں راجہ داہر کی حکومت تھی تو لیہ ملتان کے ماتحت تھا، راجہ دیوپال نے علاقہ تھل کو کنٹرول کرنے کے لئیے ایک قلعہ تعمیر کیا اسکا نام دیوپال گڑھ رکھا جو محمود غزنوی نے قلعہ فتح کرنے کے بعد قریشی خاندان کے حضرت سلطان حسین قریشی جدامجد حضرت بہاوالدین زکریا ملتانی کو عنایت کی، اور صوبہ کوٹ کروڑ مشہور ہوا، جوکہ چنگیزی حملوں کے بعد تقریباً 1399ء میں صوبائی حیثیت ختم ہوگئی اور مختلف ریاستوں کے زیرتسلط چلتا رہا ۔ تاریخ اپنے اوراق پلٹتی ہے تو 1695ء سے 1727ء تک کمال خان میرانی غاذی خان کی حکومت میں صوبہ لیہ کا حکمران رہا اور لیہ کو صوبائی دارلحکومت کادرجہ حاصل ہوگیا،
سندھ میں آدم شاہ کلہوڑا حکمران تھا تو اسکی اولاد میں سے نورمحمد کلہوڑا جب اقتدار میں آیا تو شکار ہور کے حکمرانوں سے جائیداد کی حدود کا تنازعہ کھڑا ہوگیا داوود پوتروں سے لڑائی کرتا کمال خان مرانی سے علاقہ لیہ حاصل کرکے لیہ کو مرکز بنا کر سندھ ساگر دوآب تھل سلطنت قائم کرلی مشرق میں دریائے چناب شمال میں دریا خان تک قابض ہوکر لیہ کلہوڑا خاندان کا مرکز دارلحکومت بن گیا، یوں لیہ صوبائی دارلحکومت سے مرکز کا دارلحکومت بن گیا ۔ 1787ء تا 1789 علاقہ تھل ریاست کابل کے زیرتسلط چلی گئی، عہد درانی میں محمد خان سدوزائی جوکہ لیہ، بھکر، اور ڈیرہ اسماعیل خان کا کابل حکومت کی جانب سے حاکم تھا نے 1809ء میں ان تین علاقوں پر مشتمل اپنی الگ ریاست بنا لی اور لیہ مرکزی دارلحکومت بنا لیکن بعد ازاں منکیرہ کو مرکز بنا لیا1801ء میں رنجیت سنگھ پنجاب میں اپنی حکومت قائم ۔ کر چکا تھا تو 1810ء میں نواب محمد خان سدوزائی نے سکھوں کو ایک لاکھ بیس ہزار روپے نزرانہ دے کر اپنی ریاست و حکومت بچا لی لیکن انکے مرنے کے بعد نواب احمد خان سے متعدد بار سکھوں نے نذرانہ وصول کرنے کے بعد قلعہ منکیرہ پر حملہ آور ہوا اور 1821ء میں لیہ، بھکر اور منکیرہ کو فتح کرکے تخت لاہور کے ساتھ الحاق کردیا 1848ء تک سکھوں کے زیرتسلط رہنے کے بعد انگریزوں کی جانب سے ملتاں کو فتح کرنے کے لئیے جو فوجیں بھیجی گئی تھی ان میں سے ایک مسٹر ایچ بی ایڈورڈز نے آسانی سے لیہ پر قبضہ کر لیا اور جب 23 فروری 1849ء میں مولراج سے ملتان حاصل کیا تو لیہ کو ضلع کا درجہ دے دیا گیا، ضلع لیہ میں میانوالی، منکیرہ، بھکر، لیہ اور سناواں (موجودہ کوٹ ادو) کو اسکی تحصیلیں بنایا گیا، 1850ء میں ڈویژنل ہیڈ کوارٹر مقررکیا اور ڈیرہ اسماعیل خان، ڈیرہ غاذی خان، اور خان گڑھ (مظفر گڑھ) بطور اضلاع لیہ ڈویژن سے منسلک ہوئے،کرنل راس پہلے کمشنر مقرر ہوئے وہ 1857ء تک کمشنر رہے انکی قبر آج بھی لیہ کے گورا قبرستان میں موجود ہے ستمبر 1857ء میں میجر پولک کمشنر لیہ بنے 1858ء میں میجر براون کمشنر مقرر ہوئے 1853ء میں منکیرہ تحصیل کو توڑ کر چوبارہ، نواں کوٹ، اور موج گڑھ کے علاقوں کو تحصیل لیہ سے منسلک کردیا گیا، 1860ء میں لیہ ڈویژن کو ختم کرکے ڈیرہ اسماعیل خان کو ڈویژن بنادیا گیا 1861ء میں لیہ کی ضلع سے تحصیل بنا کر ڈیرہ اسماعیل خان سے منسلک کردیا گیا 1873ء میں لیہ کو میونسپل کمیٹی کا درجہ دیا گیا تو 1874ء میں کوٹ سلطان اور کروڑ لعل عیسن کو میونسپل کمیٹی بنا دیا گیا ۔ ۔ 1879ء میں یہ تینوں میونسپل کمیٹیز ختم کردی گئیں 9 نومبر 1901ء کو لیہ تحصیل کو ڈیرہ اسماعیل خان سے الگ کرکے ضلع میانوالی کی تحصیل بنایا گیا، یکم اپریل 1909ء میں لیہ کو میانوالی سے الگ کرکے ضلع مظفرگڑھ کی تحصیل بنا دیا گیا جوکہ قیام پاکستان کے بعد جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں پنجاب کے گورنر جنرل غلام جیلانی نے یکم جولائی سے لیہ کو ضلع کا درجہ دے دیا جوکہ راجہ ظفرالحق وفاقی وزیر نے ڈپٹی کمشنر کے دفتر پر قومی پرچم لہرا کر افتتاح کیا
6291 مربع کلومیٹر پر تین تحصیلوں لیہ، کروڑ اور چوبارہ پر مشتمل ہے جہاں قیام پاکستان کے بعد سیاسی جماعتوں ، وڈیروں ، جاگیرداروں اور آمروں نے ملک کو لوٹا وہیں علاقہ تھل و لیہ میں بھی کسی قسم کی کمی نہیں چھوڑی گئی، تخت لاہور کی جانب سے کئیے گئے فیصلے کسی کے لئیے تو چاندی سونا و جواہرات ثابت ہوئے تو کئی بہتر زندگی کی تلاش میں منوں مٹی تلے جا سوئے، عرصہ دراز سے الگ صوبہ کے ساتھ لیہ و تھل ڈویژن بنانے کے باتیں و نعرے زینت اخبارات و گفتگو رہے، حکومتیں آئیں تعمیر و ترقی کے نئے نعرے ایجاد ہوئے، کاغذی فائلیں بنیں عوامی نمائندوں نے اپنے حصے کا خواب دکھا کر ڈویژن و صوبہ بنانے کی نوید سنائی ساتھ میں ۔ مسند اقتدار کے مزے لوٹے، آجکل ایک بار پھر تبدیلی کی سرکار کے دور میں نئے ریشمی لبادوں میں اوڑھا کر ڈویژن بنانے کی تحریک جاری ہے، لیہ کے اخبارات و قلم کار دوستوں کے پاس بات پہنچی کہ تھل ڈویژن بنایا جا رہا ہے لہذہ اہل قلم نے لیہ کو اسکا ہیڈکوارٹر بنانے کے لئیے تگ و دو شروع کردی ہے، عوام میں ڈویژن بناو مہم جاری کی گئی ہے تمام مکاتب فکر و سٹیک ہولڈر کو دعوت دی جارہی ہے لیکن افسوس یہ ہوتا ہے اس بار بھی کہیں نہ کہیں غلطی ضرور ہو رہی ہے، جو ہم سابقہ 70 سالوں میں پاکستان کی قیادت چنتے ہوئے کر دیتے ہیں ۔ لیہ ڈویژن مہم میں نوجوانوں کے کردار کی ضرورت ہے یہ قیادت نوجوانوں کے سپرد کی ۔ جائے، بہرحال لیہ ڈویژن بننا چاہئیے کیونکہ ڈویژن سے لیہ کاغیر آباد و بنجر 9 لاکھ ایکڑ رقبہ آباد ہو سکتا ہے، دریائے سندھ کے ستائے ہوئے اور تھل کے صحراء میں بستے بے حال و مفلوک لوگ کی ایک نئی ذندگی کا آغاز کرسکتے ہیں تخت لاہور کے اونچے ایوانوں تک پہنچ لیہ کے منتخب عوامی نمائندوں کی ہے ان سے گزارش ہے کہ اپنا کردار ادا کریں ، کیونکہ ہم نے تخت لاہور کے ظلم بہت سہہ لئیے ہیں اب تو ہ میں جینے دو ہ میں ۔ ہمارا حق دو تھل ڈویژن بنا کر لیہ کو اسکا ہیڈ کوارٹر بنایا جائے ۔ ۔ بس اب کی بار بنایا جائے ۔