یکم مئی تاریخ میں ایک حیثیت رکھتاہے یہ دن امریکا کے شہر شگاگومیں محنت کشوں کی جدوجہد کو یاد رکھنا ہے جن کی پر امن تحریک پر گولیاں چلانے کی وجہ سے آج بھی پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔میں شگاگو کے مزدوروں کو سلام پیش کرتا ہوں اس کے علاوہ اپنے وطن میں موجود ہرمزدور کو سلام پیش کرتا ہوں ۔لیکن شگاگو ہو یا پاکستان مزدور کی زندگی تبدیل نہیں ہو سکی ان کی زندگی مزید بدتر سے بدتر ہوتی جا رہی ہے اگر شگاگو میں مزدوروں کی ریلی پر فائرنگ کی جاتی ہے تو پاکستان میں مزدوروں کو مارنے کا اپنا ہی اسٹائل ہے ۔جس کی ایک دو مثال میں آپ کو سناتا ہوں۔
میری گاڑی کا رُخ بہاولپور سے جنوب کی طرف تھا آج میری منزل روہی تھی ۔اسلام آباد سے زاہد جمال ترین صاحب اور میں ایک ہی گاڑی میں روہی کے سحر انگیز مناظر کو دیکھ رہے تھے ۔روہی کے روہیلے (روہی میں رہنے والے)اپنی بکریوں ،گائیں اور اونٹوں کے ریوڑ لے کر جا رہے تھے ۔کہیں روہی کی عورتیں اپنی خاص لباس میں ملبوس ہو کر دنیا سے بے پروا ہو کر چلی جاتی تھیں ہماری گاڑی ایک لمبے سفر کے بعد اپنی منزل پر پہنچی میزبانوں نے بڑی محبت سے استقبال کیا ۔ہم نے مختلف لوگوں سے انٹرویو کرنے تھے میں ایک خاتون کا انٹرویو لینے لگا خاتون کا نام نورین تھا 28سے 30سال کے لگ بھگ عمر میں تین بچوں کی برین کینسر سے لڑتی ماں تھی۔جب وہ مجھے بتا رہی تھی کہ مجھے برین کینسر ہے تو ایک لمحہ کے لیے میری قلم رک گئی میں نے منہ اوپر اٹھا کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا اس خاتون کے چہرہ پر بلا کی بہادری تھی جیسے ایک سپہ سالار جنگ میں بلا خوف خطر لڑے جارہا ہوتا ہے۔میں نے لڑکھڑاتی آواز میں پوچھا باجی وہ آپ کے خاوند کیا کام کرتے ہیں انہوں نے بتایا کہ وہ کوئی کام نہیں کرتے ہیں وہ شدید بیمار ہیں اور گھر پر ہوتے ہیں اگلا سوال میرا تھا کہ گھر کو کون سنبھالتا ہے انہوں نے کہا کہ اللہ پاک کا لاکھ شکر ہے بچے گورنمنٹ سکولز میں پڑھ رہے ہیں میں مزدوری کرتی ہوں کسی کی فصل کی چنائی ہو ،فصل سے غیر ضروری گھاس پھوس چننا ہوسب ہی خود کر لیتی ہوں اس کے علاوہ تین بکریاں اور ایک گائے رکھی ہوئی ہے۔میں جو کما کر لاتی ہوں وہ بچوں کی تعلیم،میرے اور میرے خاوند کی دوائی پر خرچ ہوتا ہے باقی چھوٹے موٹے خرچ ان بکریوں کے بچوں کو بیچ کر پوری کرتی ہوں۔میں نے پوچھا علاج انہوں نے کہا کہ میں علاج کے لمبے چکر میں نہیں پڑتی کیونکہ نہ اتنے پیسے ہیں کہ میں علاج کروا سکوں اس لیے میں ایسے ہی خوش ہوں۔سچ پوچھیے وہ لمحات مجھ پر قیامت بن کر گزر رہے تھے ایک برین کینسر کی مریضہ اتنا پر اعتماد چہرہ میرا دل کر رہا تھا کہ اس کو کھڑے ہو کر سیلوٹ کروں شاید اس وقت تو میں منہ سے کچھ نہ کہ سکا لیکن آج کے یوم مزدور کا دن میں ضرور آپ کو سلام پیش کرنا چاہوں گا۔
دوسری کہانی لیہ کے شبیر کی ہے جو کہ ٹرکوں سے سامان اتارنے اور چڑھانے کا کام کرنے والا مزدور ہے ۔چار بیٹیوں اور دو بیٹوں کا باپ بچے چھوٹے ہیں پڑھ رہے ہیں ایک دن اس کو ہارٹ اٹیک آیا اللہ پاک نے زندگی تو بچا لی ڈاکٹر نے مَنہ کر دیا کہ کوئی بھی اب وزن نہیں اُٹھانا۔واحد کفیل تھا اپنے گھر کا کہتے ہیں جب مصیبت آتی ہے تو اونٹ پر بیٹھے بندے کو بھی کتا کاٹ لیتا ہے ۔ اس غریب کی غربت کا مذاق بنانے کا خیال واپڈا کو آیا اور 25000کا بل بھیج دیا ایک سیور استعمال کرنے والے اور ایک پنکھے والے جو کہ 250کا بل بھرتے تھے
اتنا بل کہاں بھر سکتے ہیں جس کی وجہ سے 6مہینہ سے وہ بغیر بجلی کے بغیر وقت گزار رہے ہیں میرے پاس آیا کہا بھائی اب میں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو پسینے سے شرابور نہیں دیکھ سکتا کسی نے بتایا کہ چیئرمین واپڈا ہی معافی دے سکتے ہیں ہاں اگر وہ معافی نہیں بھی دے سکتے ہیں تو میں اپنا ایک گردہ ان کو دے سکتا ہوں تاکہ میرے بچے ذلیل نہ ہوتے رہیں۔خیر وہ آج بھی ڈاکٹر کے منہ کرنے کے باوجو د کام کررہا ہے مجبوری ہے بچوں کو بھوکا تو نہیں مارا جا سکتا۔
آج ہم پورے پاکستان میں چھٹی کریں گے وہ بھی یوم مزدور کی اور مزے کی بات ہے صرف چھٹی نہیں ہوگی تو مزدور کو نہیں ہوگی۔ یوم مزدور کے حوالے سے یہ وعدہ ہمیں بحثیت قوم کرنا ہوگا کہ ہم اپنی مزدوروں کو حقوق دلوائیں گے ان کی یومیہ اجرت میں اضافہ اور حکومت وقت سے یہ اپیل ہے کہ مزدوروں غریبوں کا مفت علاج کے صرف دعوے نہ ہوں کام کروا کر دکھائیں ۔
پاکستان کے محنت کشوں کو پوری پاکستانی قوم کی طرف سے سلام ۔بابا اشفاق کی اس دعا کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں کہ اللہ پاک آپ کو آسانیاں عطا فرمائیں اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے آمین
(نورین اور شبیر کے نام تبدیل ہیں صرف اس لیے کہ ان کو تکلیف نہ پہنچے )شکریہ
اپنی رائے کے اظہار کے لیے Anthropologist786@hotmail.com129پر ای میل کریں۔