زندگی وسوسوں اور خوف میں گھر چکی ہے ۔موت کروونا وائرس کی شکل میں اپنے شکار تلاش کرتی پھر رہی ہر طرف مردہ جسم اور موت کا خوف رقص بسمل کی طرح رقصاں ہے ۔کئی زندگیاں منوں مٹی تلے سو رہیں خاندان اجڑے ۔تاباں چہرے اپنی تابانی کھو بیٹھے اور خاک ہوگئے ۔میری دنیا کی فضا میں ہراساں کرنے والے موت چکرا رہی جو سانس میں تحلیل ہوکر اپنے شکار ڈھونڈنے کی سعی کر رہی ۔
ایسی خوفناک فضا میں انسانی کوششیں اس نادیدہ دشمن سے نبرد آزما ہیں ۔انسانی عقل اسکے علاج کی تلاش میں سر گرداں ۔امید بس ایک امید اور حوصلہ کہ ہم اس دشمن سے ہار نہیں مانیں گے اور بالاآخر اسے شکست دیں گے ۔کیونکہ یہ انسانیت کا دشمن ہے ۔ اور ایک بار پھر اچھا دور لوٹ آئے گا باغوں میں پھر سے پھول کھلیں گے ۔یہ دہشت آمیز فضا پھر سے خوشگواریت میں بدل جائیگی ۔پرندے پھر سے چہکیں گے اور ہونٹ پھر سے مسکرائیں گے ۔بچے گلے میں بستے ڈالے ایک بارپھر سکول کی جانب رواں دواں ہونگے ۔میرے وطن کی سڑکیں پھر سے آباد ہو جائیں گی ۔میرے محافظ پھر سے اپنے ٹھکانوں پہ جائیں گے ۔یہ خوف کا ناسور ختم ہو جائے گا اور زندگی لوٹ آئے گی ۔کسقدر خوش کن ہے ناں یہ سب ۔مگر کیسے ؟؟ یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے مگر اس کا جواب اس خواب کی تعبیر کہاں ہے ؟؟آئیے میں آپ کو بتاتی ہوں ۔ ہمارا۔مقابلہ جب بھی کسی دشمن سے ہوتا ہے تو ہم اس سے دو طرح سے مقابلہ کرتے ہیں ایک حکمت عملی سے اور دوسرا ہتھیار سے ۔
اگر خوف غالب آجائے تو ہم جیتی جنگ بھی ہار جاتے ہیں مگر حد درجہ بے خوفی اور بد احتیاطی بھی شکست سے ہمکنار کرتی ۔تو قارئین۔اس نادیدہ دشمن سے خوفزدہ نہ ہوں بلکہ تدبیر اور حکمت عملی سے ہتھیار کا استعمال کرتے ہوئے اس سے لڑیں ۔خوف ایک ایسا زہر ہے جو مایوسی کی طرف لے جاتا اور مایوسی گناہ ہے ۔بحیثیت مسلمان ہمیں کبھی مایوس نہیں ہونا دعا اور تدبیر کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔اب کیا حکمت عملی ہے صرف اتنی کہ ہمیں خود کو محدود کرنا ہے سوشل ایکٹیویشن کو محدود کرنا ہے ماسک کا استعمال کرنا ہے تاکہ نہ خود کو نقصان ہو نہ دوسروں کو صفائی کا خاص خیال رکھنا ہے ۔ہاتھوں کو بار بار دھونا خصوصا باہر سے آکر ۔غیر ضروری طور پر باہر نکلنے اور ملنے جلنے سے اجتناب برتیں صاف ہاتھ محفوظ زندگی۔خوف کی فضا سے نکلیں اور امید کی فضا میں سانس لیں۔
خوف زندگی کی امید۔کو کھا جاتا ہے ہمیں مل کر اس امید کو بچانا ہے تاکہ زندگی پھر سے رواں دواں ہو سکے ۔گورنمنٹ کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات میں اس کا ساتھ دیں کیونکہ اس میں ہماری بہتری ہے یہ وقت تنقید اور بغاوت کا نہیں بلکہ تمام تر ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر مل کر چلنے کا ہے ۔خوف کو ذہن سے کھرچ کر اچھی امید رکھنے کا آپ کی زندگی آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے اگر آپ خود اپنا بچاؤ کریں گے تو آپ نہ صرف خود بلکہ دوسروں کی زندگیوں کے بھی محافظ بنیں گے ۔احساس کریں ان ڈاکٹرز۔اور محافظوں کا جو فرنٹ لائن پر آپ کی حفاظت کے لیے دشمن کے آگے صف آرا ہیں۔انہیں دوسروں کو بھی بچانا ہے اور خود کو بھی ۔وہ صرف آپ کی حفاظت کے لیے برسر پیکار ہیں ۔
آپ نے بس چند احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہیں اور اپنی حفاظت کرنی ہے ۔اور پھر سے مسکرانا ہے ۔
خوف ایک ایسا زہر ہے جو مایوسی کی طرف لے جاتا ہے اور مایوسی گناہ ہے
امید، بس ایک امید اور حوصلہ کہ ہم اس دشمن سے ہار نہیں مانیں گے
پرندے پھر سے چہکیں گے اور ہونٹ پھر سے مسکرائیں گے
یہ اور ایسے بہت سے امید دلاتے جملوں سے سجا یہ کالم پڑھ کر بہت اچھا لگا
آپ نے اس بیماری کے خلاف قلم سے جہاد میں شامل ہو کر ثابت کیا کہ اہل فکر و دانش ہمیشہ مشکل گھڑی میں سیدھے راستے پر قوم کو چلاتے ہیں
اسے امید دیتے ہیں اس میں لڑنے کا جذبہ بیدار کرتے ہیں اور اس میں اتحاد و اتفاق کی قوت بھر دیتے ہیں
ایک بہت خوبصورت تعمیری کاوش پر بہت سی داد اور دعائیں