پاکستان اس وقت وجود میں آیا جس وقت اور بھی کئی قومیں اپنی آزادی کے لیے برسر پیکار تھیں کوئی نسلی جنگ لڑ رہا تھا تو کوئی قومیاتی ۔مگر پاکستان اپنی نظریاتی اور واحدانیت کی جنگ کے نتیجے میں دنیا کے نقشے پر ابھرا ۔ہندوستان کی تقسیم ایک ایسی جنگ تھی جو سچ کی تلوار اور اصولوں کے ڈھال کے بل بوتے پر جیتی گئی ۔اگرچہ تقسیم کی مد میں ہر طرح سے ایک کمزور پاکستان دینے کی سازش کی گئی مگر الحمد اللہ مسلمانوں کا جذبہ انکی ہمت اسقدر جواں تھی کہ لاکھوں قربانیوں کے باوجود پایہ استقامت میں لغرزش نہ آئی اور وہ پاکستان کو بہتر بنانے میں جت گئے ۔ یہ پاک سر زمین ایک ایسی نعمت خداوندی تھی جس کا جتنا شکر ادا کیا جاتا کم تھا ۔غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئیں اور مسلمان آزاد ہو گئے ۔اس معرکہ حق وباطل میں جو کھویا اس نقصان کو بھولنے کا ایک ہی انعام تھا آزاد پاکستان۔ ہماری اپنی زمین جہاں ہم کسی کے غلام نہیں بلکہ خود مالک ہیں یہ احساس ہی بہت خوش کن تھا ۔حقیقتا آزادی کی قدر پابند سلاسل ہی جانتا ہے ۔بھارت نے جانے کس طرح یہ برداشت کیا مگر دل سے کبھی پاکستان کو تسلیم نہ کیا ۔اندرونی سازشیں جو ہندو بنیے کی مکارانہ سوچ کا عکس تھیں‛ کسی نہ کسی صورت اس کے دماغ میں خناس کی طرح پنپتی رہیں ۔اور بالآخر 1965 کی جنگ کی صورت میں سامنے آئیں۔بھارت کا خیال تھا کہ پاکستانی عسکری اور دفاعی اعتبار سے کمزور ہیں مگر یہ اس کی خام خیالی ثا بت ہوئی اور اس نے ہر محاذ پر منھ کی کھائی ۔تب اسے بھاگتے ہی بنی ۔ زخم خوردہ سانپ بل کھاتا بل میں تو چلا گیا مگر اپنی فطرت سے باز نہ آیا اور 1971 میں ایک دفعہ پھر اپنی مکارانہ فطرت دکھائی شومئی قسمت اس بار اس کا داؤ چل گیا اور پاکستان کا دایاں بازو اس کے قبضے میں چلا گیا مشرقی پاکستان ۔پاکستان سے جدا ہوگیا ۔پاکستان کے لیے یہ ایک بڑا سانحہ تھا ۔مگر اس کے باوجود پاکستان نے خود کو سنبھالا اور اپنی قوت کو مجتمع کیا۔اسلام کے نام پہ حاصل کی گئی اس ریاست کے باسی اتنے کمزور نہیں کہ حوادث زمانہ سے ہار مان لیں آخر کار ہم نے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کی اور دنیا کی صفحہ ہستی پر ایک قوت بن کر ابھرے اگرچہ دہشت گردی ۔فرقہ پرستی کی سازشیں بارہا ہم پر عتاب کی طرح نازل ہوتی رہیں اس کے ساتھ ساتھ سرحدی حملے بھی جاری رہے ۔مسئلہ کشمیر اس رقابت کا ایک اہم جز ہے ۔کشمیریوں پر دل دہلا دینے والی بربریت نے بھارت کا سیاہ چہرہ اقوام عالم کے سامنے بے نقاب کیا مگر درپردہ سپر پاور کی ہلا شیری بھارت کے کاندھے تھپکتی رہی ۔ہم نے ہمیشہ ہر مسئلے کا حل ٹیبل ٹاک رکھا ۔مگر کئی وعدے ہوئے اور بھارت مکرتا چلا گیا ۔اب جبکہ پاکستان اس کی جارحیت کا منھ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے تو بقول شاعر
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
بھارت کی کم ظرفی ملاحظہ کریں اگر اس کے ملک میں کتا بھی مر جائے تو اس کا الزام پاکستان پر عائد کر دیتا ہے جبکہ حقائق کچھ اور ہوتے ہیں۔ بار بار کی گیدڑ بھبھکیاں سن۔سن کر پاکستانی شیروں کے کان پک چکے ہیں میری قوم کے آپس میں لاکھ اختلاف سہی مگر اس پاک وطن کے لیے ہم سب ایک ہیں اپنے وطن کے چپے چپے کی حفاظت کرنا جانتے ہیں ۔اس دھرتی کی مائیں بزدلوں کو جنم نہیں دیتیں اور راہ وطن میں اپنے بہادر۔سپوتوں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں ۔بھارت کو سمجھ لینا چاہیے کہ اگر ہم شرافت کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو اسے بھی عقل پر پڑے پردے ہٹانے ہونگے ورنہ اس کی داستان نہ ہو گی پھر داستانوں میں۔وزیر اعظم عمران خان نے واشگاف لفظوں میں فوج کو اجازت دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کی جارحیت کا منھ توڑ جواب دیا جائے ہماری شرافت کو بزدلی نہ سمجھا جائے ۔دل تو یہی چاہتا ہے کہ مودی سرکار کے طبق ایک بار روشن کر ہی دیے جائیں ۔ لیکن ہم ایک امن پسند قوم ہیں بلاوجہ کی جارحیت پسند نہیں کرتے ۔آج کل پلوامہ حملے کو بنیاد بنا کر بھارت نے پاکستان پر الزامات اور بیانات کی بوچھاڑ شروع کی ہوئی ہے ۔ اور ہمیشہ کی طرح جنگ کی دھمکیاں سامنے آ رہی ہیں ۔پاکستان کا صبر بھی جواب دیتا جارہا لہذا اب ضروری ہے کہ بھارت کو مزہ چکھایا جائے ۔پاکستان جنگ نہیں چاہتا مگر جنگ مسلط کی گئی تو بھارت خود ذمہ دار ہوگا۔اگر بھارت کے پاس کوئی شواہد نہیں تو یہ الزامات کیوں اور کیسے ۔اور اگر بھارت کے پاس ثبوت نہیں تو یہ الزامات کیا معانی رکھتے ہیں؟ اس کا مقصد سوائے پاکستان کو دنیا کے سامنے دہشت گرد ثابت کرنے کے کچھ نہیں ۔افسوس کہ بھارت کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ جب پاکستان ترقی کی جانب سفر کرتا ہے بھارت کی دم میں آگ لگ جاتی ہے ۔ٹیبل ٹاک سے گریز ہی بھارت کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے کافی ہے ۔ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف سازشیں ہی کیں ہیں ۔اور اندرونی و بیرونی طور پر نقصان ہی پہنچایا ہے۔اور ہم نے دفاع کی طاقت کے باوجود صبر و تحمل کو شعار بنایا ہے ۔مگر اب وہ وقت آگیا ہے کہ بھارت کو بتایا جائے کہ اس کی ان ریشہ دوانیوں کو مذید برداشت نہیں کیا جائے گا ۔
باقی سب باتیں تو ایک طرف مگر خدانخواستہ یہ صورتحال گھمبیر رخ اختیار کر گئی تو کیا دونوں ممالک ایٹمی جنگ کے متحمل ہو سکتے ہیں ؟اور اس میں کتنا قیمتی جانوں کا ضیاع ہوگا دونوں ملک معاشی اور اقتصادی طور پر کس حد متاثر ہونگے یہ ایک سوالیہ نشان ہے ۔مودی حکومت محض الیکشن جیتنے کے لیے دونوں ممالک کی عوام اور فوج نفرت کی آگ میں جھونک رہی ہے کیا یہ عمل درست ہے ۔مودی سرکار کا یہ عمل انڈیا کی عوام کے لیے بھی سوال اٹھا رہا کہ ان کو کس طرح قربانی کا بکرا بنایا جارہا ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ ہوش سے کام لیں ۔تاکہ امن و امان قائم رہ سکے ۔