اسلام آباد:(مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ میں بلوچستان میں پانی کی قلت سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں بلوچستان کی فکر ہے، کیوں صوبے کو خود سے حکمرانی کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی؟
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بلوچستان میں پانی کی قلت سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی جس سلسلے میں عدالت کے طلب کیے جانے پر دو سابق وزرائے اعلیٰ عبدالمالک بلوچ اور ثنااللہ زہری پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے عبدالمالک بلوچ سے سوال کیا کہ کیا آپ اپنے صوبے میں پانی کی صورتحال سے مطمئن ہیں؟ بلوچستان میں جھیلیں سوکھ گئی ہیں آپ نے کیا اقدامات کیے؟
عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ جب اقتدار سنبھالا توفرقہ واریت سے 248 افراد ہلاک ہوئے تھے، ہم نے سب سے پہلے لا اینڈ آرڈر کی صورتحال کو بہتر کیا، لا اینڈ آرڈر کے بغیر کچھ درست نہیں ہوسکتا۔
سابق وزیراعلیٰ نے بتایا کہ حکومت کو فعال کرنے کی بہت کوشش کی، 2013 سے 2105 تک جرائم کی شرح میں کمی ہوئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صوبے میں 6054 اسکولوں کی دیوار اور ٹوائلٹ نہیں ہیں، اس پر عبدالمالک بلوچ نے بتایا کہ بلوچستان کا کل بجٹ 42 ارب روپے ہے، نئے اسکولوں کو بنانے کے لیے 62 ارب روپے چاہئیں، ہم نے تعلیم کے بجٹ کو 4 فیصد سے بڑھا کر 24 فیصد تک کردیا۔
جسٹس ثاقب نثار نے مکالمہ کیا کہ بجٹ کا ایشو مت بتائیے گا کہ پیسہ نہیں ہے، سالانہ 100 اسکولوں کواپ گریڈ کریں گے تو60 سال میں 6 ہزاراسکول اپ گریڈ ہوں گے، سب یہی کہتے ہیں بجٹ نہیں ہے، کوئٹہ کے اسپتالوں میں سی سی یونہیں ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسپتالوں کی حالت انتہائی خراب ہے جس کو دیکھ کر دکھ ہوا، جب میں نے دورہ کیا اسپتالوں کا عملہ کئی روز سے ہڑتال پر بیٹھا تھا۔
جسٹس ثاقب نثار نے عبدالمالک بلوچ سےمکالمہ کیا کہ آپ قوم کے رہنما ہیں، بلوچستان پسماندہ نہیں بلکہ دولت سے مالامال ہے، صوبےکو جید لیڈر کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹس نے عبدالمالک بلوچ سے سوال کیا کہ آپ 5 سالہ دور میں صحت، تعلیم اور پانی سے متعلق اپنے اقدامات بتائیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ پانی کی قلت ختم کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے یہ بتائیں؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جب بلوچستان گیا تو بہت دکھ ہوا، ہمیں توبلوچستان کی بہت فکرہے، کیوں بلوچستان کوخود سے حکمرانی کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی؟ کیا بلوچستان کے لوگ سیاسی طور پر طاقت میں نہیں ہیں؟
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ صوبے میں غیر جانبدارانہ الیکشن ہونے چاہئیں، صوبے میں آج تک غیر جانبدار الیکشن نہیں ہوا، بلوچستان کو وفاق سے اس کا حصہ نہیں ملتا، پانی کے لیے بجٹ میں ایک روپیہ بھی نہیں رکھا گیا۔
جسٹس ثاقب نثار نے مکالمہ کیا کہ یہی صورتحال رہی تو لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوں گے۔
عبدالمالک بلوچ نے عدالت کو بتایا کہ پانی کی قلت کے حوالے سے اربوں روپے درکار ہیں، بڑے اور چھوٹے ڈیموں پر کام شروع کیے تھے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے عبدالمالک بلوچ سے سوال کیاکہ کیا یہ ڈیمز بن گئے ہیں؟ کیا یہ ڈیمز صرف کاغذات تک محدود ہیں؟
سابق وزیراعلیٰ نےبتایا کہ کچھ ڈیمز مکمل اور کچھ پر کام ہورہا ہے، کوئٹہ کا ڈیم 35 فیصد مکمل ہوچکا، گوادر ڈیم کا تعمیراتی کام مکمل ہوچکا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صوبے میں پانی ختم ہورہا ہے، پانی کی قلت ختم کردیتے لوگوں کو پانی فراہم کردیتے، ہمیں بتائیں عدلیہ بلوچستان کے حالات کے حوالے سے کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟
عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ جن لوگوں نے کام کیا عدالت ان کی ستائش کرے، جن لوگوں نے کام نہیں کیا ان کی سرزنش کریں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ جنہوں نے کام نہیں کیا ان پر ذمہ داری عائد کرنی پڑے گی۔
سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران آئندہ سماعت پر آئی جی ایف سی جنوبی اور شمالی کو طلب کر لیا۔