اس نے ایک لمبی سی سا نس لی اور بو لتے بو لتے رک گیا اور سستانے کے انداز میں اپنی آ نکھیں مو ند لیں ، لیکن میں جا نتا تھا کہ وہ اپنے آ نسووں کو پینے کی کو شش کر رہا ہے زبرد ستی سے بھنچی آ نکھوں نے اس کے تپتے اور لزرتے چہرے کے بوڑھے رخساروں پہ اتنی گنجلک لکیریں کھینچ دی تھیں کہ اس کا چہرہ لق و دق صحرا کا نقشہ لگنے لگا اس با بے سے میری ملاقاتچند ہفتے قبل ہو ئی ہ جب میں رات کے ڈیڑھ بجے کمپیوٹر آ ن کئے کی بورڈ پر نظریں جمائے سر تھا مے بیٹھا تھا جب بھی جی لکھنے کو آ مادہ ہو تا ہے ایسے ہی ہو تا ہے سونے کی کو شش بھی کروں تو سو نہیں پا تا نیند کہیں کھو جاتی ہے اور کروٹیں
لیٹے لیٹے تنگ آ کر کمپیوٹر پر آ بیٹھتا ہوں جس زمانے میں کمپیوٹر نہیں ہوا کرتے تھے تب سرہانے رکھے قلم اور کا غذ کام آ تے تھے نہ بستر سے نکلنا پڑتا تھا اور نہ ہی کچھ اور تردد ٹیبل لیمپ روشن کیا اور رضائی کی بکل مار کے دیوار کا سہارا لے کر لکھنا شروع کر دیا لیکن اب ایسا نہیں ہو تا میرے پاس لیپ ٹاپ تو ہے مگر مجھے ڈیسک ٹاپ پر ان پیج میں لکھنا پسند ہے ظاہر ہے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر ٹیبل پر پڑا ہو تا ہے اور وہاں تک مجھے پہنچنے کے لئے گرم بستر کی قربانی دینا پڑتی ہے اور کمپیوٹر آ ن کر نا پڑتا ہے اس ساری جد جہد کے بعد اہم مسئلہ یہ ہو تا ہے کہ لکھا کیا جا ئے طبیعت آ مادہ ہے لکھنے پر مگر مو ضوع کی تلاش ہے ذہن میں اتنے اتنے سدا بہار مو ضوعات کلبلا رہے ہ ہو تے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آ تا کہاں سے شروع کروں ۔ مہنگا ئی ، دہشت گردی ، سٹریٹ کرائم ، پا نی کی کمی کا مسئلہ ، سیاستدانوں کی قلا بازیاں ، عوامی خزانے کی لوٹ مار ، عوامی بد حالی ، ٹوٹی سڑکیں ، زبوں حال ادارے ، رشوت شفارش اقربا پروری ، نا جائز الاٹمنٹ اور نا جائز ایڈ جسٹمنٹ اور بہت کچھ ایک ہی قسم کی با تیں لکھ لکھ کر میں بھی تھک گیا ہوں اور یقیناًپڑ ھنے والے قارئین بھی شا ئد تنگ آ گئے ہوں گے ۔
لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہم تنگ آ نے والی قوم نہیں ہیں ہم گذرے ستر سالوں سے ایک ہی نسل اور ایک ہی جیسے چہروں کو بھگت رہے ہیں ملک دو لخت ہوا خزانہ خالی ہو گیا سب کچھ لوٹ کر کھا گئے مگر ہزار شکا یتوں کے بعد بھی ہم نے نہ اپنا سیاسی ٹیسٹ چینج کیا اور نہ ہی سیاسی قبلہ تبدیل کیا ، وہی نظام وہی حکمران وہی نعرے اور وہی وعدے ستر سالوں سے بس ایک جیسا سیاسی موسم نہ بد لا ہے اور نہ بد لنے کی خواہش ہے ہماری ، یہاں تک کہ صبح آ ٹھ بجے سے رات کے بارہ بجے تک ایک ہی قسم کی خبریں ایک ہی قسم کے نیوز ٹاک شو ، ایک ہی قسم کے میزبان اور ایک ہی قسم کے مہمان چہرے اتنی استقامت سے دیکھتے ہیں کہ کیا مجال ہے کسی کی کہ ہمارے ہو تے کو ئی ہمارے من پسند نیوز چینل کو تبد یل کر نے کی جسارت کر سکے ۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ہم ایک ہی جیسی تکرار سنتے اور ایک ہی جیسے چہروں کو دیکھتے تھکتے نہیں ۔ مجھ جیسے ویلے با بے تو چو بیس گھنٹوں میں سے اٹھارہ گھنٹے یہی میڈ یا کی ٹاپ سٹوریاں سنتے با خبر رہتے ہیں شا ئد یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں نیوز چینل کی ریٹنگ انٹر ٹینمنٹ چینلز سے زیادہ ہے کہ فلم ، ڈرامہ ، گیت اور غزل تک ہماری زند گیوں سے بے دخل ہو چکے ہیں ۔ ایک زمانہ تھا سنیما آ باد تھے راتوں کا پہلا پہر ہلے گلے میں گذر جایا کرتا تھا اب تو شب کی پہلی ساعت سے سورج کی پہلی کرن تک بس یو نہی گذر جاتی ہے بے کیف پھسپھسی سی نہ کو ئی سننے والا ہے اور نہ کوئی سنانے والا ، سچی بات یہ کہ سننے سنانے کی تو فرصت ہی نہیں کسی کے پاس کہ اس مو ئے مو بائل اور سوشل میڈیا نے آ کٹو پس کی طرح پوری قوم کو جکڑ ا ہوا ہے جانے والی نسل کو بھی اور آ نے والی نسل کو بھی ۔ اور یوں ہر بندہ دوسرے بندے سے بے نیاز بس اپنے من میں ڈوب کر زندگی کا سراغ پا نے کی لگن لئے مو بائل پر انگلیوں سے مستقبل تلاش کر رہا ہے ۔
خیر بات ہو رہی تھی بابے سے ملاقات کی ۔ ڈھلتی رات کے پچھلے پہر میں کمپیو ٹر آن کئے مجھے کسی موضوع کی تلاش تھی من چاہ رہاتھا کچھ لکھنے کو بہت سے موضوعات ذ ہن میں گڈ مڈ ہو رہے تھے اور سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا لکھوں اور بات کہاں سے شروع کروں اچا نک مجھے لگا جیسے کمپیوٹر سلیپنگ موڈ میں چلا گیا ہو اس کی سکرین سیاہ ہو گئی تھی ، لیکن ایل ڈی سی کے دائیں کو نے پر چھوٹے سے پاور بٹن کی نیلگوں روشنی کمپیوٹر کی زندگی کا احساس دلا رہی تھی رات کے سناٹے میں ٹیپل لیمپ کی مدھم روشنی میں بے ساختہ میری آ نکھیں اس کمپیو ٹر پاور بٹن سے نکلنے والی نیلے رنگ کی روشنی پر جم سی گئیں ، میں خالی ذہن سا یک چشم کمپیوٹر کی نیلی روشنی کو دیکھنے لگا نہ معلوم کب سے میں نظریں جمائے اسے دیکھ رہا تھا کہ مجھے لگا روشنی کا ہالہ بڑا ہو نے لگا ہے آ ہستہ آ ہستہ نیلے رنگ کی روشنی کا یہ ہالہ بڑھتے بڑھتے سارے کمرے میں پھیل گیا میرے چاروں طرف نیلے رنگ کی فوک لائٹ جیسی یہ نیلگوں روشنی اتنی زیادہ تھی کہ میری آ نکھیں چند ھیانے لگیں ادھ کھلی آ نکھوں سے مجھے محسوس ہوا کہ منظر بدل رہا ہے اور روشنی کا یہ ہالہ سمٹ رہا ہے کچھ ہی لمحے بعد کمیوٹر سکرین روشن ہو گئی نیلے رنگ کی روشنی اور سکرین کے ایک کو نے میں کسی icon کی مانند ایک (animated gif)کارٹون نما با با بتیسی کھولے ایسے ہا تھ ہلا رہا تھا جیسے وہ مجھے اپنے ہو نے کا احساس دلا رہا ہو ۔ میں نے غیر ارادی طور پر اس پر کلک کیا تو وہ کارٹوننیلا بابا اوپن ہو کر ساری سکرین پر پھیل گیا اس کی ہییت عجیب سی تھی مجھے لگا جیسے اس تصویر میں بہت سے تضادات ہیں ۔۔یار کارٹون ایسے ہی ہو تے ہیں ذہن کے کسی گوشہ میں ابھرنے والی سر گو شی نے مجھے سمجھا نے کی کو شش کی ۔۔
” جی ہاں کارٹون ایسے ہی ہو تے ہیں ” دفعتا ٹک ٹک کے ساتھ سکرین پر الفاظ ٹائپ ہو گئے
لگتا تھا اس نیلے رنگ کے کار ٹون با بے نے میری سوچ پڑھ لی تھی ۔ سکرین پر نا دیدہ ہا تھوں سے کمپوز کئے گئے لفظوں سے مجھے ڈر لگنے لگا ، جسم میں پیدا ہو نے والے خوف کے کرنٹ سے پیشانی پسینے سے بھیک گئی دل چا ہا کمپیوٹر آف کر کے بستر میں جا گھسوں اور کمبل لے کر آ یت الکرسی پڑھنا شروع کر دوں ۔۔
ٹک ٹک ۔۔۔ لفظ تحریر ہو نا شروع ہو گئے ۔۔
"ارے ڈر گئے ؟ کیا بندہ اپنے آپ سے بھی ڈر تا ہے ؟”
تم کون ہو ؟ میں نے ہکلاتے ہو ئے پو چھا
"ہا ہا ہا نہیں پہچان پائے نا یار اپنے آپ کو ؟ میں تم ہی ہوں ” جواب ٹائپ ہو گیا
"میں تم ” سمجھ نہں آ یا میں نے دھیمے اور کھو کھلے سے لہجے میں جواب دیا
لگتا ہے تم کنفیوزڈ ہو ۔۔ بو لنا مشکل ہو رہا ہے تمہارے سے ۔۔ بو لو مت ۔۔ بس سوچو ۔۔ سکرین پر الفاظ ابھرے
کیا مطلب ؟ میں نے پو چھا
مطلب یہ میرے دوست تم جو سو چو گے اس کا جواب ترت تمہیں مل جائے گا
وہ کیسے ؟ میرے ذہن میں سوال ابھرا
وہ ایسے میری جان تمہاری اور میری سوچ ایک ہے میں تمہیں اتنا ہی جا نتا ہوں جتنا تم اپنے آپ سے واقف ہو ۔۔۔ مجھے لگا کہ یہ لکھتے ہوئے کارٹون بابا زور زور سے کلکاریاں مار کے اچھلنے لگا ہو ۔۔
ارے یار تم ہو کون ؟ میں نے جھنجھلا کے سو چا ؟
میں تمہارا نیگیٹو ہوں ۔۔
نیگیٹو ۔۔ سکرین پہ ابھرے الفاظ مجھے ماضی میں لے گئے ۔ ابھی کمپیوٹر ، مو بائل نہیں آ ئے تھے اس زمانے میں تصویریں بنانے کے لئے ہمیں فوٹو گرافر کی دکان پر جانا پڑتا تھا ۔تصویر بنا نے کے لئے فوٹو گرافر کیمرے کی فلم پر پہلے ا یکسپوز کرتا پھر کیمرے کی فلم کو ڈویلپر میں پڑے کیمکل سے دھو کر کالے کلوٹے بھدے سیاہ سفید دھبوں پر مشتمل نیگیٹیو کی سیاہی کم کرتا اس کے بعد شیشے پر رکھ کر پنسل سے اس کی ریٹیچنگ کرتا اور اتنے مراحل کے بعد اس نیگیٹیو کو انلارجر پرنٹڑ میں لگا کر تصویر بنا تا ۔ فوٹو گرافر پیسے لے کر تصویر ہمیں دے دیتا اور نیگیٹیو کو چھو ٹے سے لفافے میں نمبر لگا کر کسی دراز میں پھینک دیتا ۔۔
ہاں ہاں میں وہی نیگیٹیو ہوں تمہارا کا لا کلو ٹا بد صورت بھدا سا جو تم نے ایک مدت سے بھول کی دراز میں رکھ چھوڑا ہے ۔ مگر یار سچ یہی ہے کہ میں ہی تمہارا اصل چہرہ ہوں اس نے طنز سے بھرا جملہ لکھا ۔۔ ایسا لگا جیسے مجھے تنگ کر کے وہ لطف لے رہا ہے ۔۔
اگر تم ہو تو میں کیا کروں مجھے کیوں سنا رہے ہو میں نے تو تمہیں نہیں بلایا اور نہ جگایا کیوں مصیبت کی طرح میرے ذمہ لگ گئے ہو ؟ ۔۔ یہ سو چتے ہو ئے میں نے اکتائے ہو ئے شخص کی طرح کند ھے اچکائے ۔۔
اگر تم مجھے نہ بلاؤ اور نہ جگا ؤ تو کیا سمجھتے ہو کیا میں تم سے علیحدہ ہوں ؟ دور ہوں ؟ نہیں میری جان میں تو تمہاری روح کی طرح ہر وقت ہر لمحہ تمہارے ساتھ مو جود ہوں بلکہ کہہ لو میں ہی تمہاری روح ہوں ۔ ایک کے بعد ایک لفظ کمپوز کرتے ہو ئے اس نے فقرہ مکمل کیا ۔
میں چا ہتا ہوں تم میرے بارے ۔۔۔نہیں نہیں۔۔ اپنے بارے لکھو
سکرین پر آ ئے میسج کے جواب میں میں نے قدرے بلند آواز میں پو چھا ۔۔ کیا لکھوں ؟
شور مت مچاؤ رات کے تین بجے ہیں گھر والے جاگ گئے تو کیا سمجھیں گے ؟ ٹیکسٹ ریپلائی آ یا
کیا سمجھیں گے ؟ میں نے خا موشی کی زبان سے سوال کیا
یہی کہ بابا اس عمر میں سٹھیا گیا ہے ۔۔ تمہیں پاگل سمجھیں گے اور کیا ۔۔
یہ میسج کمپوز کرتے ہو ئے (animated gif)کارٹون نما با بے نے میری طرف اپنی دائیں آ نکھ سے تمسخرانہ انداز میں انتہائی بے ہودہ اشارہ اچھا لا ۔ تبھی میں نے دیکھا اس کی دونوں آ نکھوں کی پتلیوں کا رنگ مختلف تھا ایک آ نکھ کی پتلی زرد رنگ کی تھی ور دوسری میں سر خی کا رنگ گہرا تھا ، اس کا بے ہود گی کے ساتھ آ نکھ مارنا مجھے اچھا نہیں لگا میں نے اپنے گریبان کا آ خری بٹن بند کرتے ہو ئے سوچا بہت ہی بے شرم ہے یہ تو ۔۔باقی اگلی قسط میں
ضرور پڑھیں ۔ بات بتنگڑ قسط 2