میں بچپن میں جب بھی کسی ایسے ہم عمر بچے ّ سے ملتا جس کا والد یا والدہ فوت ہو چکے ہوتے تو میں حیران وپریشان اُسے دیکھنے لگتا اور اپنے آپ سے سوال کرتا کہ والد یا والدہ کا سایہ اٹھ جانے کے بعد یہ کس طرح زندہ ہے ;238; اُس سمے مجھے یوں لگتا کہ خدانخواستہ میرے والد یاوالدہ میں سے اگر کوئی فوت ہوگیا تو میرے لیے جینا مشکل ہوجائے گا ۔ شاید میں ان کے ساتھ ان کے غم میں ہی زندگی کی بازی ہار دوں ۔ پھر جب بڑا ہوا تو والد کی نسبت والدہ سے قربت کے باعث ایک دوسرے عجیب سے احسا س نے جنم لیا کہ والد کی وفات پر تو شاید میرے آنسو بھی نہ نکلیں لیکن والدہ (انھیں اللہ تعالیٰ تا دیرسلامت رکھے ) اگر فوت ہوگئیں تو میں بے اختیار رووَں گا، چلاؤں گا ۔ لیکن میرے یہ دونوں خیال غلط ثابت ہوئے ۔ ایک تو یہ کہ ابّاجی کی وفات کو کئی سال گزرگئے ہیں ۔ دوسرا یہ کہ 6 نومبر2015 (جمعتہ المبارک) کو ابّا جی کی وفات کی خبر پاکر میں ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ آفیسر ہوتے ہوئے پہلے ڈی سی اواحمدمستجاب کرامت سے گلے لگ کر اورپھر اپنے دفتر میں کرسی پر بیٹھا سٹاف کے سامنے زاروقطار روتا رہا ۔ آنسو تھے کے رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔ یادیں تھیں کہ قطار اندر قطار میرے ذہن میں دوڑی چلی آرہی تھیں اور میرا دل بیٹھ رہا تھا آنسووَں کی لڑیاں مسلسل میرے چہرے پر لڑھک رہی تھیں اور اس روز میں نے دو،تین بار کرسی سے اٹھ کر اپنا چہرہ دھویا ۔ اور اپنے آنسو پونچھے ۔ چونکہ 2015;247;ٗ;247; کے بلدیاتی الیکشن میں بطور رےٹرننگ آفیسر فراءض انجام دے رہا تھا ۔ لہذا 31 اکتوبر کو ہونے والے الیکشن کی حتمی رپورٹیں روتے دھوتے الیکشن کمشنر کے دفتر میں جمع کروائیں پھر میں اپنے مقامِ تعیناتی بھکر سے کلورکوٹ کے لیے روانہ ہوا ۔ میرے دیرینہ دوست راوَ ذوالفقار علی میرے ہمراہ تھے ۔ اس روز بھکر سے کلورکوٹ ایک گھنٹہ کا سفر بہت طویل لگ رہا تھا ۔ راستے میں ہمارے درمیان زیادہ ترخاموشی رہی اس خاموشی کی وجہ ابّاجی کا وہ خوبصورت اور بارونق چہرہ تھاجو باربار میری آنکھوں کے سامنے آجاتا اور پھر میں ان کی شفقت کے سائے میں گزرے لمحوں کی یادوں میں کھو جاتا ۔ کبھی وہ دن یاد آتاجب وہ میری انگلی پکڑکر مجھے گورنمنٹ پرائمری سکول نمبر 1 (المعروف ڈونگہ سکول) کلورکوٹ میں داخل کروانے کے لیے لے گئے ۔ پھر جب میں خوفِ مدرسہ کی وجہ سے تیسری جماعت تک سکول جانے سے کتراتا تھا تو اس کی وجہ بھی شاید ابّا جی کا مشقانہ روّیہ تھا کہ وہ میرے استاد فلک شیرسگو سے مل کر مجھے ہر جماعت میں رعایتی پاس کرواتے رہے تھے ۔
کلاس چہارم میں ماسٹر جی (ماسٹر محمد شریف ) کی خصوصی شفقت کی بدولت میری پڑھائی میں دلچسپی بڑھنے لگی اور یوں جماعت پنجم میں وظیفہ کے امتحان میں بیٹھا جس کے لیے اس زمانے میں چند طلبا ء کا انتخاب ہوتا تھا ۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب میں جماعت پنجم میں ’’وظیفہ‘‘ کا امتحان دے کر باہر نکلا تو سامنے ابّاجی کھڑے تھے ۔ جو یقینا میری حوصلہ افزائی کے لیے آئے تھے ۔ جماعت پنجم کا امتحان پاس کرنے کے بعد میں ہائی سکول میں داخل ہو گیا ۔ اور ابّا جی مقامی کاروبار سے دست بردار ہو کر لائلپور (فیصل آباد )اور پھر لاہور کی ایک کمپنی الفلاح انٹرنیشنل سے منسلک ہو گئے ۔ یوں میں ابّا جی کی شفقت اور براہ ِ راست نگرانی سے محروم ہو گیا ۔ لیکن میرے اور دیگر بھائیوں کے تعلیمی سلسلہ پر ان کی کڑی نظر تھی ۔ جب بھی گھر آتے مجھ سمیت تمام بھائیوں سے تعلیمی پراگرس کی بابت پوچھتے ’’ گھر،مدرسہ اور سکول ‘‘ ان کا سلوگن تھا ۔ سختی سے ہدایت کرتے کہ ان تین جگہوں کے علاوہ چوتھی جگہ جانے سے گریز کریں ۔ عصراور مغرب کے درمیان پڑھنے لکھنے سے منع کرتے تھے ۔ کہ ایسا کرنے سے نظر کے کمزور ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ آج بھی جب کبھی میں عصراور مغرب کے درمیان پڑھنے لکھنے بیٹھوں تو ابّاجی کی آوازکی گونج میرے کانوں سے ٹکرانے لگتی ہے ۔ اور میں حتی ّا لا مکان آج بھی ان اوقات میں پڑھنے لکھنے سے گریز کرتا ہوں ۔
جب میں ہائی سکول کے درجے میں پہنچا تو ابّا جی وقتاََ فوقتاََ میرے سکول کے اساتذہ سے ملتے رہتے اور میری کارگردگی کے بارے آگاہی حاصل کرتے اور مجھے اکثرتعلیمی میدان میں مزیددلچسپی لینے کی ہدایت کرتے ۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد میرے ایف ایس سی میں داخلہ کی بات چلی تو میں نے کہا کہ سائنس مضامین میری دلچسپی واجبی ہے ۔ مجھے آرٹ اور لٹریچر میں دلچسپی ہے ۔ تو انھوں نے بخوشی مجھے آرٹ مضامین پڑھنے کی اجازت دے دی ۔ انھوں نے تعلیم کے معاملہ میں اور مضامین کے انتخاب میں کبھی بھی مجھ پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ بس ان کی خواہش ہوتی کہ میں تعلیمی مدارج اعلیٰ نمبروں کے ساتھ طے کروں تاکہ فارغِ اتحصیل ہونے کے بعد احسن انداز میں زندگی کی دوڑ میں شامل ہو سکوں ۔
ایک بہن (شاہدہ پروین زوجہ پروفیسر عبدالسلام مر حوم ) اور چھ بھائیوں (رانا محمد شفیق الرحمن،رانا عبدالرحمن،راناعتیق الرحمن ، رانا حبیب الرحمن انجم،محمد شاہدرانا(راقم) اور محمد ساجدرفیق رانا میں میرا نمبر چھٹاہے ۔ ساجد رفیق تومجھ سے آٹھ سال چھوٹا ہے ۔ لیکن سب بڑے بہن بھائیوں کی نسبت میرا پڑھائی لکھائی کی طرف زیاد ہ رجحان تھا ۔ لہذا ابّا جی ایک بڑے کنبہ کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ میری تعلیمی ضروریات کا بھی برابر خیال رکھتے ۔ جب گورنمنٹ انٹرمےڈےٹ کالج کلور کوٹ (جو اب پوسٹ گرےجواےٹ کالج ہو چکا ہے) سے ایف ۔ ا ے کا امتحان پاس کرنے کے بعد میں گورنمنٹ کالج بھکر میں داخل ہوا تو ڈے سکالر کے طور پرکلورکوٹ سے بھکر آتے جاتے ،سفر کرتے، دن کا کافی وقت ضائع ہو جاتا یوں مجھے لگا کہ شاید میں یونیورسٹی میں داخلہ کے لیے مطلوبہ نمبر حاصل نہ کر سکوں ۔ لہذا انھوں نے میری تجویز پر مجھے لاہور کے کِسی بورڈنگ کالج میں مائیگریشن کروانے کی اجازت دے دی اس طرح میں بی ۔ اے کے آخری سال میں گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور میں داخل ہو کر ;34; فارانےن;34; کہلاےا اور کریسنٹ ہاسٹل میں مقیم ہوگیا ابّا جی بھی چونکہ ان دنوں لاہور ہی کی ایک فرم سے منسلک تھے ۔ لہذا ہفتہ، عشرہ بعد ابّا جی سے لاہور میں ملاقات رہتی ۔ کئی کئی گھنٹے کی نشست میں باپ، بیٹا جہاں تعلیمی معاملات پر بات کرتے وہاں ابّاجی مجھے قیامِ پاکستان سے قبل اپنے آبائی گاؤں میں گزرے واقعات اور ہندوستان سے پاکستان ہجرت کے سفر کی روداد بھی سناتے ۔ ابّا جی دنیا کے کسی بھی خطے میں ہونے والی سب سے بڑی ہجرت کا حِصّہ بنے اور پھر پاکستان آکر انھیں نہ صرف اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع کرنا پڑا بلکہ روزگار کی تلاش میں مصائبِ و مشکلات کا سامنا بھی ۔ ایک مرتبہ انہوں نے مجھے بتایا کہ جب پاکستان بننے کے بعد محمد علی جناح ;231; پہلی مرتبہ لاہور تشریف لائے تھے ۔ تو اس روز وہ (ابّاجی) بھی روزگار کی تلاش میں لاہور میں سرگرداں تھے ۔ یہ سُن کر مجھے شدّت سے احساس ہواکہ ہ میں ہمیشہ رزق حلال کمانے کا درس دینے والے ابّا جی کی زندگی روزِ اوّل سے ہی مشّقت و ریاضت سے عبارت تھی ۔ وہ ’الکاسبُ حبیب اللہ‘ کے معانی اور مفہوم سے بخوبی آگاہ تھے ۔ اور انہوں نے ساری زندگی کام،کام اور کام کے اصول کوحفظ جان کیے رکھا ۔ ایک ایک پائی کا حساب رکھتے ۔ امانت و دیانت اُن کی شخصیت کا خاصہ تھی ۔ رِشتہ داروں کو برابر ان کا حق دیتے اور ہمیشہ یہ کوشش ہوتی کہ کبھی ان کے ہاتھوں کسی کی حق تلفی نہ ہو ۔ قناعت اورکفایت شعاری بھی ابّا جی کی شخصیت کا خاصہ تھی ۔ جس کی بدولت انہوں نے اپنے محدود وسائل کے باوجود اپنے اتنے بڑے کنبہ کی انتہائی سادگی مگر پُر وقار انداز سے پرورش کی ۔ اور انہوں نے ہمیشہ ہم بہن بھائیوں کو رزقِ حلال کھانے اور کفایت شعاری سے زندگی گزارنے کا درس دیا ۔ وہ ہمیشہ کہتے کہ اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاوَ ۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنی کمائی فضول رسم و رواج پر خرچ کرنے کی بجائے ہماری روز مرہ کی ضروریات اور تعلیمی سلسلوں کو جا ری رکھنے پر خرچ کی ۔ آج جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو ہ میں ابّا جی کی شخصیت ِ شجر سایہ دار کی طرح اپنے اوپر تنی ہوئی نظر آتی ہے ۔ کہ انہوں نے موسموں کے سرد ، گرم کو ایک شجرکی طرح اپنے اوپرلیا اور ہ میں ساز گار ماحول میں پھلنے پھولنے اور آگے بڑھنے کے مواقع دئیے ۔
گورنمنٹ اسلامیہ کالج سولائنز لاہور سے گرایجویشن کرنے کے بعد جب میں کلورکوٹ واپس لوٹا تو شاید میں پنجاب یونیورسٹی کی دہلیز پر قدم نہ رکھ سکتا اگر ابّا جی میرا ساتھ نہ دیتے ۔ کیونکہ میرے آبائی قصبہ میں اس وقت کے حالات کے مطابق میرے لیے بی اے تک تعلیم حاصل کر لینا ہی بڑی بات تھی ۔ لیکن جب میں نے اصرار کیا کہ میں مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں تو ایک روز ابّاجی نے مجھ سے استفسار کیا کہ کیا کہ آپ نے ایم ۔ اے کرنے کا مصممّ ارادہ کر لیا ہے تو میں نے کہا’’جی ہاں ‘‘ ۔ اور مجھے اعظم گارڈنز، لاہور کی وہ شام کبھی نہیں بھولتی جب ابّا جی نے اپنی جیب سے پنجاب یونیورسٹی کی فیس اور ہاسٹل میں داخلہ کے لیے کی رقم نکال کر مجھے دی اور میں اگلی صبح پنجاب یونیورسٹی کے پائنیئرز) ;80;ioneers) کی صف میں شامل ہو گیا ۔ تین سال بعد پنجاب یو نیورسٹی سے تیسری پوزیشن کے ساتھ ایم اے (سوشل ورک ) کی رزلٹ شیٹ اور امتیازی سر ٹیفکےٹ لے کر جب میں ابّاجی کو ملا تو ان کے چہرے کی خوشی دےدنی تھی ۔
ابّاجی ہندوستان کے ضلع انبالہ کے قصبہ باغاں والا کے شیر خانی محلہ میں مولاناحکیم رستم علی خان;231; کے ہاں پیداہوئے شناختی کارڈ پر آپ کا سنِ پیدائش 1932ء ہے ۔ بعد ازاں دادا جان کے ہمراہ قریبی قصبہ ملاّں پور منتقل ہو گئے وہاں سے1 میں قےام پاکستان کے بعد ہجرت کر کے کلور کوٹ میں مقیم ہو گئے ۔ ہندوستان کے گاؤں ;34;ملاّں پور;34;کی نسبت سے اہل کلورکوٹ کی اکثریت انہیں ’’ ملّاں جی‘‘ کہہ کر پکارتی تھی ۔ ابّاجی کے والدِ محترم اور ہمارے دادا جان مولانا رستم علی خان ہندوستان میں حکمت کے پیشہ سے منسلک تھے ۔ جبکہ سہارن پور کی جامع مسجد مظاہر العلوم میں بلا معاوضہ بحثیت خطیب فراءض سر انجام دیتے تھے ۔ 14 اگست 1947ء کو جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو ہمارے دادا مولانا رستم علی خان حج کیلئے سعودی عرب تشریف لے جا چکے تھے ۔ چونکہ ان کا پاسپورٹ ممبئی کا تھا ۔ لہذا ان کی واپسی ہندوستان میں ہی ہوئی ۔ جبکہ اس دوران ابّا جی ( جو ہمارے دادا جان کی واحد نرینہ اولاد تھے)ہجرت کی صعوبتیں برداشت کرتے اپنی پھوپھی ( جن کی قیام ِپاکستان سے قبل لائلپور کے ایک گاؤں میں شادی ہو چکی تھی ) کے ہاں لائلپور چلے آئے ۔ اور پھر وہاں سے اپنی ہمشیرہ اور دیگر رشتہ داروں کی دیکھا دیکھی ضلع میانوالی (موجودہ ضلع بھکر ) کے قصبہ کلورکوٹ میں مستقلاََ قیام پزیر ہوگئے ۔ ابّاجی کو ہمیشہ صوم و صلو۱ۃ کا پابند پاےا اور 1995;247;ء میں انھیں حج کی سعادت بھی نصیب ہوئی ۔ جبکہ انھوں نے اپنی زندگی کا ایک حصہّ تبلیغِ دین کے لیے وقف کر رکھا تھا اور وقتاََ فوقتاََ تبلیغی دوروں پر ملک کے مختلف حصوّں میں جاتے رہتے تھے ۔
ابّا جی نے اپنی پیشہ وارنہ زندگی کا آغاز پرائیوٹ سیکٹر سے کیا پھر چند سال میونسپل کمیٹی کلورکوٹ میں خدمات سرانجام دینے کے بعد ملازمت سے استعفیٰ سے دے دیا ۔ اور اپنے دور کی ایک بڑی چائے کمپنی ’’ بروک بانڈ ‘‘ سے منسلک ہو گئے اور پھر محنت اور کام سے لگن کی بدولت بروک بانڈ کمپنی کے ملتان ریجن کے ریجنل انسپکٹر ہوگئے ۔ ’’بروک بانڈ ‘‘ انتظامیہ نے ان کی کام سے لگن اور کمپنی کو احسن انداز میں ریجن میں متعارف کروانے پر انھیں متعدد تفریفی اسناد سے نوازا ۔ اس دوران انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے;34; ادیب اردوکا امتحان امتیازی حیثیت میں پاس کیا اور یونیورسٹی بھر میں دوسری پوزیشن حاصل کی ۔ برّصغیر کے کئی بڑے شعراء کے کئی اشعار انہیں زبانی ےاد تھے جنہیں وہ کبھی کبھی بلند آواز میں لے کے ساتھ پڑھا کرتے تھے ۔ شائد ادےب اردو ہونے کا ہی نتےجہ تھا کہ انہوں نے اپنے لئے ;34;عاصم;34; تخلص کا انتخاب کےا ۔ ان کی تمام دستاوےزات پر نام کے کالم میں محمد رفیق عاصم لکھا ہے ۔ لوگوں کے لیے انتہائی نرم خْو اور صلح جْو ابّاجی ، امی جان کے کے لیے ایک سخت گیرخاوند تھے ۔ ان کی سخت گیری کو امی جان نے مشرقی روایات اور خاوند کی اطاعت کے بارے اسلامی احکامات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہمیشہ خندہ پیشانی سے برداشت کیا ۔ ابّاجی غمِ روزگار کے سلسلہ میں ایک شہر سے دوسرے شہرجاتے تو امّی جان بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ان کے سر پرست کاکرداربھی ادا کرتیں ۔ اور ہم تمام بہن بھائیوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے امیّ جان نے، ابّا جی کے شانہ بشانہ مشقت و ریاضت کی ۔ اور بچوں کی تعلیم وتربیت میں کوئی کسرنہ چھوڑی جس کا پھل الحمداللہ آج ہم کھا رہے ہیں ۔ امیّ جان (رضیہ کلثوم)کی عظمت کو سلام ۔
ابّا جی کے دوستوں میں رانا عبدالستار (اصفہانی چائے والے) سب سے زیادہ گہرے دوست تھے ۔ اور ان کے ساتھ بھائیوں کاسا رشتہ استوار تھا ۔ اس لیے ہم سب بھائی انہیں چچاعبدالستار کہتے تھے ۔ اور انہوں نے بھی ہمیشہ ہمارے ساتھ مشقانہ روّیہ رکھا ۔ اور وہ ہ میں اپنے بچوں کی طرح سمجھتے تھے ۔ وہ جناح پبلک سکول کلورکوٹ کے سرپرست رانانذیر احمد کے برادر بزرگ او رجناح سکول وکالج کلورکوٹ کے مینجینگ ڈائریکڑ شبیراحمد رانا کے والد اور میونسپل کمیٹی کلورکوٹ کے سابق چیئرمین صغیراحمد رانا اور سماجی کارکن محمد امجدرانا کے تایا ابّوتھے ۔ میں نے اپنی زندگی میں چچا عبدالستار (مرحوم) جیسابے لوث اورفیاض شخص نہیں دیکھا ۔ اللہ پاک انھیں اپنی جوارِرحمت میں جگہ دے آمین ۔
ابّاجی کے دیگر دوستوں میں تبلیغی جماعت کے بے شمار ساتھیوں سمیت کلور کوٹ سے غلام محمد عرف پیر جی (مرحوم) حافظ اسلام الدین(مرحوم) فضل محمد مرحوم (والد حاجی شاکر- بخت ٹرےڈرز) ڈاکٹر عبدالغفور (مرحوم) عناےت حسین قرےشی (مرحوم) فتح محمد ، محمد نواز چدھرڑ (مرحوم) محمد جمیل شیروانی (ملتان) کمبوہ بردارز (لاہور) اور دیگر بہت سے قابلِ احترام نام شامل ہیں ۔
ابّا جی کی وفات پرجہاں ان کے اور ہمارے بہت سے جاننے والوں نے تعزیت کی اور ان کے لیئے دعائے مغفرت کی ۔ وہاں رائےو نڈ تبلیغی جماعت کے حضرت مولانا احسان الحق صاحب بھی پیرانہ سالی کے باوجود اپنے بیٹوں کے ہمراہ خاص طور پر تعزیت کے لیے ہمارے گھر ’’بیت ِ رفیق- کلور کوٹ ‘‘تشریف لائے ۔ اور انھوں نے ابّا جی کی وفات کو ایک بڑانقصان قراردیا ۔ اور ابّا جی کے لئے خصوصی دعائے مغفرت کی ۔
ابّا جی ،ہم سے بچھڑگئے ہیں ۔ لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ آج بھی ان کی دعائیں ہمارے ساتھ ہیں ۔ اور ہم اپنے ابّا جی کے لیے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ابّا جی کی مغفرت فرمائے اورانھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔ (آمین)
محمد شاہد رانا