پاکستان کے صوبہ پنجاب کی تحصیل جتوئی کے اسسٹنٹ کمشنر زریاب ساجد کمبوہ نے بیس سال سے قائم تحصیل پریس کلب جتوئی کی عمارت کو اپنی کرپشن بے نقاب کرنے کے غصہ میں مسمار کر ڈالا ہے۔ پاکستان کے اندر صحافت کرنا ویسے بھی بہت مشکل ہے مگر پاکستان کے مضافات کی صحافت تو اور بھی بہت مشکل کام ہے۔ جاگیرداری کے سماج سرائیکی وسیب کے اندر قلمکار بہت ہی مشکلات میں ہیں ۔
صحافتی اداروں کی طرف سے نہ ہی انہیں کوئی تنخواہ دی جاتی ہے اور نہ ہی انہیں کسی قسم کی کوئی مراعات ۔رضاکارانہ طور پر کام کرنے والے ان صحافیوں کا کر لمحہ مشکل ترین لمحہ ہوتا ہے اور ان کے لے کسی قسم کوئ تحفظ موجود نہیں ہوتا۔خبر کے حصول سے لیکر خبر کی اشاعت کے بعد تک انہیں اپنی جان پر کھیلنا پڑتا ہے۔قدم قدم پر عدم تحفظ ان کا استقبال کرتا ہے۔عام آدمی کی زندگی میں بہتری لانے کے لئے۔ عام آدمی کی آواز کوحکومتی ایوانوں تک پہنچانے کے لیے جس قدر جان جوکھوں میں ڈال کر مسائل کے ساتھ کام کر رہے ہیں اس کی مثال دنیا بھر میں کہیں بھی نہیں ملتی۔
جاگیردارانہ سماج کے اندر جہاں سامنے بات کرنے والے کوحقیر انسان سمجھا جاتا ہے وہاں پر پر اس انسان کے ساتھ کھڑے ہو کر قلم کے ذریعے اس کی آواز کو بلند کرنا بہت باہمت لوگوں کا کام ہے ۔اوریہ کا۔بخوبی اس وسیب کے یہ رضاکار صحافی کر رہے ہیں۔
جنوبی پنجاب کے اندر جسے سرائیکی وسیب کہا جاتا ہے میں اکثر رضاکارصحافیوں کی تعداد متوسط یا غریب مگر پڑھے لکھے لوگوں کی ہے جو یا تو ان مسائل کا شکار رہے ہیں یا ان مسائل کا ان کی زندگی سے کہیں نہ کہیں سے تعلق ضرور ہے مطلب آپ کہ سکتے ہیں کہ یہ رضاکار صحافی لوگ ہیں جو اس دھرتی کے مسائل یا دھرتی زادوں کے مسائل بخوبی جانتے ہیں اور ان کو آسان طریقے سے لکھ سکتے ہیں اور پیش کر سکتے ہیں ۔
جاگیردارانہ مزاج کے اس سماج کی تحصیل جتوئی میں پہلے ہی مختارمائی کا واقعہ عالمی سطح پر سامنے آ چکا ہے۔ یہ وہی تحصیل تو ہے جہاں پر ایک پنچایت میں بیٹھ کر پولیس کی سرپرستی میں میں ایک فیصلہ کیا جاتا ہے اور ایک نہایت غریب خاندان کی لڑکی مختار مائی کی عزت کو بھری پنچایت میں تار تار کر دیا جاتا ہے ۔ اس قیامت خیز گھڑی میں اس مظلوم عورت کے ساتھ صرف اور صرف جتوئی کے رضاکار صحافی دیتے ہیں۔سب سیاسی ۔مزہبی۔سماجی پنڈت بھاگ جاتے ہیں۔مگر اس شہر کے رضاکار صحافیوں نے مختیار مائ کا ساتھ دیتے ہوئے اس ظلم اور بربریت کو اپنے اخباروں میں خبر کی صورت شائع کیا۔اور پھر پوری دنیا اس خطے کی طرف دوڑ پڑی ۔
تحصیل جتوئی کے صحافی اس لیے بھی قابل فخر ہے انہوں نے مختارمائی پر ظلم کے خلاف آواز اٹھائ اور اس خطے کے جاگیردارانہ رویے پر ضرب لگائ۔ مختار مائی کے ظلم پر نہ تو کسی پولیس نے پہلے ایکشن لیا ۔نہ کسی ضلعی انتظامیہ نے ایکشن لیا تھا جبکہ اس ظلم اور بربریت کے واقعہ کو دو دن گزر چکے تھے۔
بلکہ اس واقعہ کے ملزمان کو وہاں کی پولیس ضلعی انتظامیہ جاگیرداروں سرمایہ داروں سیاسی پنڈتوں کی مکمل سرپرستی حاصل تھی۔لیکن یہاں کے رضاکار صحافیوں نے اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہوئے اس ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔آج اسی خطے کے اندر انہی رضاکار صحافیوں پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے ۔ضلعی انتظامیہ کے اسسٹنٹ کمشنر زریاب ساجد کمبوہ نے 20 سال سے وہاں پر موجود پریس کلب کی عمارت کو مسمار کر ڈالا ہے ہے اور الزام بھی عائد کیا ہے یہاں پر شراب پی جاتی تھی اور جواکرایا جاتا تھا ۔
صحافیوں کے مطابق اسسٹنٹ کمشنر زریاب ساجد کمبوہ اور ان کے دست راست جام غفار کے خلاف جب مقامی صحافیوں نے کرپشن بے نقاب کی تو وہ اسسٹنٹ کمشنر اس بات پر سیخ پا ہو گئے اور قانون کو ہاتھ میں لیتے ھوئے غیرقانونی طور پر پریس کلب کی عمارت کو مسمار کر دیا ۔
آج تحصیل جتوئی کے مظلوم رضاکار صحافی دنیا بھر کے صحافیوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی طرف دیکھ رہے۔ صحافی اور صحافیوں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
پاکستان کے موجود پریس کلب اور بڑے بڑے ے کالم نگاروں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
کیا ان کی آواز بھی سنی جائے گی؟
کیا ان کی خبر بھی کسی اخبار۔ کسی یوٹیوب کے چینل یا کسی کالم نگار کی تحریر کا حصہ بنایا جائے گا؟
جتوئی کےرضاکار صحافی آج ایک چھت سے محروم کردیے گئے ہیں۔
اس ریاست مدینہ میں جو ریاست لوگوں کو چھت فراہم کرنے جارہی ہے مگر انکے اسسٹنٹ کمشنر لوگوں سے ان کی چھت چھین رہے ہیں ۔
آئیے ان مظلوم رضاکار صحافیوں کی آواز بنئیے آج اگر یہ صحافیوں کی آواز مضبوط ہوگی تو یقین جانیے اس خطے کے عام آدمی کی آواز مضبوط ہوگی ۔اس خطے کے ظالم جاگیردار اور اس کی ماں بیوروکریسی کی آواز کمزور ہو گی۔