زندگی تیرا ہر رنگ نرالہ، عمل کا گر ردعمل نہ ہوتا، کھو جانے کے ڈر سے گر آگے بڑھنے کا جزبہ نہ ہوتا، تاریکی کے بعد گر اجالا نہ ہوتا، ہارنے کے بعد گر جیتنے کا حوصلہ نہ ہوتا، قربانی کے بعد گر شہادت کا رتبہ نہ ہوتا، تو ذرا سوچئے…. زندگی کا مقصد حیات کیا ہوتا….کہا جاتا ہے منزل انہیں کو ملتی ہے جو طالب مقصود ہوا کرتے ہیں ….
آج جب میں گاڑی ورکشاپ لے گیا تو میری ملاقات ایک شناسا نوجوان مکینک "شاہ زیب” سے ہوئی. اس نے بڑے ادب سے جھک کر مجھے سلام کیا، علیک سلیک کے بعد اپنا تعارف کرواتے ہوئے اس نوجوان نے بتایا کہ میں ایف ایس سی میں آپ کا سٹوڈنٹ رہا ہوں. میں نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا. اور پوچھا کہ "پڑھائی کہاں تک پہنچانی….”. تو کہنے لگا کہ سر ” بی ایس باٹنی” کر لی ہے…..
میں حیرت سے اس کا منہ تاکنے لگا….. کہ "بی ایس” کرنے کے بعد ایک پڑھا لکھا، خوش شکل، وضع دار لڑکا، گریس، موبل آئل سے اٹے میلے کچیلے کپڑوں میں،اس ان پڑھ ماحول میں کہاں اور کیوں دھکے کھا رہا……خیر پوچھنے پر معلوم ہوا کہ "سر، میں تو دوران پڑھائی تین، چار سال سے یہی کام کر رہا ہوں”. میں نے حیرت زدہ ہو کر اس سے پوچھا آخر کیوں…. اس نے سر جھکائے جواب دیا "سر، میں باہر (انگلینڈ) سے” ایم ایس (ایم فل) کرنا چاہتا ہوں”. میرے حالات اتنے بہتر نہیں تھے کہ میں اپنی فیس وغیرہ بھر سکتا، تو محنت مزدوری کر کے بی ایس کی، اپنا پاسپورٹ بنوایا، ایم ایس کی فیس (پاؤنڈز میں) اکٹھی کی، ٹیسٹ کلئیر کر چکا، ویزہ لگ گیا ہے اور اب بس انشاءاللہ اگلے ماہ روانگی ہے.
حیرت زدہ تو میں پہلے ہی تھا، شاہ زیب کے کندھے پر ہاتھ کےدباؤ سے شاباش دی، یقین جانئیے فرحت جزبات سے اس کی آنکھوں میں اتری نمی کو میں محسوس کر سکتا تھا کہ وہ کس قدر کٹھن، مشکل، ناہموار رستے کو صرف اور صرف اپنی محنت کے بل بوتے پر پار کر گیا. اور کہنے لگا "سر، آپ کے الفاظ نے مجھے یہاں تک پہنچایا کہ” غریب کے پاس آگے جانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ایجوکیشن ہے ". میں نے اسے آگے بڑھ کر گلے سے لگالیا… میں اس کی خوشی کو دل کی تیز دھڑکن سے محسوس کر سکتا تھا….