ایک اخبار میں خبر پڑھی کہ محکمہ صحت نے سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کو اپنے یا کسی بھی نجی کلینک میں پریکٹس کی اجازت دے دی ، دوسری خبر میں تھا کہ محکمہ تعلیم نے سرکاری اساتذہ کو نجی اکیڈیمیوں میں پڑھانے اور چلانے پر پابندی لگا دی ہے ، یہ ایک آئین کے ایک ملک کے ایک صوبہ میں دو اداروں کی مختلف کی خبریں تھی تو خیال آیا کہ لیہ میں ہزاروں کی تعداد میں نجی کلینک قائم ہیں جس میں سرکاری ڈاکٹرز ہسپتالوں میں اپنی ڈیوٹی کے بعد مریضوں کا چیک اپ کرتے ہیں ، ایک اندازے کے مطابق دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک ڈاکٹر روزانہ 30 سے چالیس مریض چیک اپ کرتا ہے اور اپنے کلینک پر اسطا ایک مریض کو 5-7 منٹ دیتا ہے جس کی فیس 500 سے ایک ہزار تک وصول کرتا ہے اس کے لئیے مختلف قسم کے ٹیسٹ اور ادویات الگ ہوتی ہیں جو کہ اسی نجی کلینک کی لیبارٹری اور فارمیسی سے منسلک ہوتے ہیں اور رقم کی ادائیگی الگ سے کی جاتی ہے ، جبکہ انہی نجی کلینک پر اپریشن کی مد میں 25 سے 50 ہزار روپے الگ سے ادا کئیے جاتے ہیں ، اگر انکی ماہانہ آمدنی کا اندازا لگائیں تو یہ ایک الگ کہانی ہو گی اور یہ لوگ کتنا ٹیکس دیتے ہیں الگ کہانی بنے گی ، گزشتہ دنوں مجھے زاتی طور پر تین سے چار ڈاکٹرز کے ساتھ ایک زاتی مریض کے ساتھ چیک اپ اور اپریشن کرانے کا تجربہ ہوا تو حیران رہ گیا کیونکہ ایک ڈاکٹر کے پاس ایک دن میں چالیس مریضوں نے چیک اپ کرایا اور فی مریض 300 روپے فیس ادا کی اور مریض کو 5 منٹ کے بعد فارغ کر دیا اسی طرح اس ڈاکٹر نے 10 مریضوں کا اپریشن کیا جس پر اوسطا 25 سے تیس ہزار روپے خرچ ہوئے اور اپریشن والے مریضوں کو ایک گھنٹہ بعد فری کر دیا گیا ڈاکٹر صاحب کی اپریشن فیس 8 ہزار روپے تھی ، باقی ادویات و اپریشن کے ساز و سامان کے تھے جبکہ فارمیسی پر ڈاکٹر صاحب کا بھائی براجمان تھا ، اسی طرح ایک اور ڈاکٹر کے پاس پہنچے وہ فی مریض ایک ہزار روپے فیس وصول کرتے ہیں اور اوسطا 30 مریض روزانہ چیک اپ کرتے ہیں ، لیبارٹری کے ٹیسٹ کے لئیے بھائی کے پاس بھیجتے ہیں ، جو کہ فی مریض رعایت کے ساتھ پانچ سو میں ٹیسٹ کر دیتے ہیں ، فارمیسی کی قیمت الگ ادا کرنی پڑتی ہے اور ڈاکٹر سے وقت لینے کے لئیے تین تین دن چکر لگانے پڑتے ہیں اور سخت سردی میں ڈاکٹر صاحب کے گیراج میں مریضوں کو انتظار کرایا جا رہا تھا جہاں ہیٹر نام کی کوئی چیز درکار نہ تھی ،جبکہ ڈاکٹر صاحب خود ہیٹرڈ روم میں برجماں تھے ، شوگر ٹیسٹ ، ہیپاٹائٹس و دیگر ایک دو ٹیسٹ کے لئیے ایک نجی لیبارٹری کا رخ کیا گیا جنہوں نے بغیر کسی پیٹھالوجسٹ کے خون لے کر لیبارٹری میں ٹیسٹ کرنے کے بعد 15 منٹ میں رپورٹ جاری کر دی جس کو مایہ ناز ڈاکٹر نے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے زاتی پسند کی لیبارٹری سے ٹیسٹ کو بہتر مانا اور دوسری بات آدھا گھنٹہ کے وقفہ سے خون نکالنے کیوجہ سے ٹیسٹ رپورٹس میں بھی کافی فرق دیکھنے میں آیا بہرحال ایسی اور بھی مثالیں کافی ہیں جو کہ تقریبا ہرانسان کے ساتھ پیش آتی ہوں گی ، صوبہ پنجاب میں محکمہ تعلیم نے سرکاری اساتذہ پر نجی اکیڈیمیوں پر پڑھانے پر پابندی لگا دی ہے کیونکہ وہ بچوں سے زیادہ فیسیں لیتے ہیں ، لیہ میں نجی کلینک کی طرح نجی اکیڈیمیاں اور تعلیمی ادارے بھی قائم ہیں جو کہ بچوں سے 500 سے 3000 روپے ماہانہ فیسیں وصول کرتے ہیں ، جبکہ ایک ماہ میں 26 دن روزانہ چار سےچھ گھنٹے پڑھاتے ہیں جس میں بچوں کو کلاس روم ،پانی وبجلی کی سہولیات سمیت اساتذہ بھی مہیا کرتے ہیں ،سیکورٹی کی فراہمی بھی انکے فرائض میں شامل ہے اگر پانچ سوروپے فیس وصول کرنے والے ادارے کی بات کریں تو اوسطا ایک گھنٹہ 3 روپے میں پڑتا ہے 1000 روپے والے ادارے تمام سہولیات بمعہ تعلیم تقریبا 6 روپے فی گھنٹہ ،
3ہزار روپے فیس وصول کرنے والے 20 روپے فی گھنٹہ جبکہ 5000 روپے والے ادارے 34 روپے فی گھنٹہ تعلیمی سہولیات ادا کرتے ہیں ، جبکہ لیہ میں 5 ہزار روپے فیس لینے والے ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں جو کہ والدین بروقت ادا کرنے والے انتہائی کم ہوتے ہیں ، جس طرح نجی کلینک پر ٹیسٹ اور ادویات کے لئیے قریبی لوگوں کی لیبارٹریاں اور فارمیسی قائم ہوتی ہیں اسی طرح چند نجی تعلیمی اداروں کے پاس بھی یہ سہولیات ہوتی ہیں لیکن ایسا بڑے شہروں میں تو ممکن ہوتا ہے لیکن چھوٹے شہروں میں نا ہونے کے برابر ہوتا ہے لیکن ہوتا ضرور ہے ، حکومتیں وعدالتیں نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں پر ایکشن لیتی ہیں فیسوں کی وصولی پر رعایت کا حکم دیتی ہیں ، کٹوتی کراتی ہیں لیکن ایسا نجی کلینک و ہسپتالوں پر کیوں ایکشن نہیں لیتیں جہاں صحت بھی تعلیم کی طرح ایک بنیادی سہولت میں ہے جس کو مییا کرنا حکومت وقت کا کام ہے ، ایک ہی آئین کے ایک ہی ملک کے ایک ہی صوبہ کی ایک جیسی حکومت میں دواداروں کے درمیان الگ الگ قوانین و فیصلے کہاں تک درست ہیں اسکا فیصلہ تو شایدآنے والا وقت کرے گا کیونکہ ایک ادارہ اپنے ملازمین کو سرکاری اوقات کار کے بعد نجی کلینک پر پریکٹس کی اجازت دے رہا ہے تودوسراادارہ ان سے یہ حقوق واپس لے رہا ہے اورپابندی لگا رہا ہے دوسری جانب اعلی ادارے کی جانب سے ازخود نوٹس ، فیسوں میں کمی کے احکامات اور اضافہ کا تعین کردیا جاتا ہے تودوسری بنیادی سہولت پرخاموشی کیوں ۔۔