ایڈز اس بیماری کا نام ھے جس سے انسان کے جسم میں قوت مدافعت ختم ھو جاتی ھے اور اگر کوئی وائرس حملہ کردے تو باڈی کا امیون سسٹم (قوت مدافعت) اس سے جھگڑا نہیں کر سکتا۔ اس کو روک نہیں سکتا۔ اس کو ایڈز ۔۔۔ AIDS (ACQUIRED IMMUNODEFICIENCY SYNDROME)
یعنی HIV ( HUMAN IMMUNODEFICIENCY VIRUS)
کے ذریعے ایڈز ھو جاتی ھے۔
ایڈز ایسی بیماری نہیں جو بیٹھے بیٹھے ھو جائے۔ اور یہ ایسی بیماری نہیں جس کو پیپلزپارٹی نے بنایا ھے یا وہ اس کی ذمہ دار ھے۔ وہ جہاں ذمہ دار ھے وہ مرحلہ آئے گا تو آپ کو اندازہ ھو جائے گا ۔
سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ یہ کن کن ممالک میں کس مقدار میں ہیں یعنی دنیا کے 229 ممالک میں سب سے زیادہ کس ملک میں ھے ، اس سے اموات کی شرح کیا ھے، اس میں علاج کس شرح سے ھو رہا ھے۔ بیماری کا ھو جانا کوئی بڑی بات نہیں ۔ یہ انسان کی بے خبری، بے صبری، غفلت اور اللہ اور معاشرے کے اصولوں کو توڑنے آتی ھے
دنیا میں سب سے زیادہ ایڈز ساوتھ افریقہ میں ھے۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر نائیجیریا ، تیسرے نمبر پر بھارت، اسے طرح سولہویں نمبر پر تھائی لینڈ ؟ پاکستان 33 ویں اور ایران 52 نمبر پر ھے ۔ اور بد قسمتی سے یہ سعودی عرب میں بھی یہ ھے اگرچہ نمبر اس کا 102 ھے۔ لیکن سعودی عرب جو حیثیت ھمارے لئے رکھتا ھے ویٹی کن سٹی عیسائیوں کے لئے اس کا نمبر 229 ھے اور وہاں یہ صفر تعداد میں ھے۔
دکھ کی بات یہ ھے جس پر پوری قوم پاکستان کو فکر کرنا چاہیے کہ اس کو روکنے میں کامیابی میں ساوتھ افریقہ نمبر 1 پر ھے ، تھائی لینڈ 40 نمبر پر ھے جبکہ پاکستان بد قسمتی سے 124 نمبر پر ھے
اس بیماری کی اموات میں نمبر 1 پر نائیجیریا ھے ، نمبر 2 پر ساوتھ افریقہ نمبر 3 پر موزمبیق، چوتھے پر بھارت، پانچویں نمبر پر انڈونیشیا ، سولہویں نمبر پر تھائی لینڈ اور پاکستان 29 ویں نمبر پر ھے ۔
میں موجودہ پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت کو انتہائی کرپٹ اور چور سمجھنے کے باوجود اس معاملے میں ان کو پریس کانفرنس کرنے کی بجائے صرف یہ کہہ سکتا ھوں کہ اس کو prevent کرنے کی ضرورت ھے ۔ صفائیاں دینا آپ کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتا نہ کسی مریض کو بچا سکتا ھے ۔ وہ پوائنٹ سکورنگ کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا
پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ھے اس بیماری کے پھیلنے کی کیا کیا وجوہات ھو سکتی ہیں ۔ دنیا کی بڑی تنظیمیں جو اس پر کام کر رہی ہیں ان کے حساب سے یہ خون ، جنسی تعلق، سرنج، اور لعاب کی صورت میں جس میں خون کی کچھ مقدار بھی ھو کے ذریعے جسم میں داخل ھو سکتا ھے۔
اس کی تحقیق کے دوران کچھ چیزیں دیکھی جا سکتی ہیں سب سے پہلے تو یہ ڈیٹا حاصل کیا جائے کہ ہر تحصیل میں کتنے لوگ زیادہ ایڈز والے ممالک میں گئے ہیں یا واپس آئے ہیں ۔ ڈاکٹرز اور عطائی بیماری کے دوران استعمال ھونے والے آلات جو تھرمامیٹر سے لیکر ، دانت کے آلات، آپریشن تھیٹر میں سٹرلائیزیشن ، کلینکس میں ڈرپ اور انجیکشن لگاتے ھوئے۔ بلڈ ٹسٹ یا خون نکالتے وقت استعمال ھونے والے سرنج، اسی طرح وہ مائیں جو دودہ پلاتی ہیں اور ان کو HIV ھے ان سے بھی بچوں کو یہ وائرس منتقل ھو سکتا ھے۔ عطائی اور نائی دونوں اس میں رول ادا کرتے ہیں ۔ اسی طرح ہر شہر میں کچھ آبادی اپنی غربت، جہالت یا کسی بھی مجبوری سے جسم فروشی کے دھندے میں مجبور کر دئیے گئے ہیں ان میں اس کی تعداد کا ھونے کا امکان بہت زیادہ ھے ۔ قوم لوط کو صرف اس لئے تباہ کیا گیا تھا کہ ان میں غیر فطری جنسی تعلق قائم کرنے کی شرح بہت زیادہ تھی بد قسمتی سے سندہ، بلوچستان ، بلکہ تمام پاکستان میں مختلف اداروں کے ھوسٹلز سمیت، مدرسے اور سکول ، اور دیہاتی آبادی اس میں ملوث ھے ۔ عام آبادی میں بھی اسلام سے بے راہ روی اور نشے کی عادت کی وجہ سے مردوں سے مردوں کے تعلق نے ، اور مرد کے عورت سے غیر فطری تعلق نے بھی اس بیماری کو بہت پھیلایا ھے
(نوٹ : یہ ایک انسان کا لکھا ھوا مضمون ھے ۔ جس کو اختلاف ھو وہ خود ریسرچ کرلے اور میری بھی راہنمائی کرے)