ہر دیس کی مٹی کی اپنی خوشبو ہوتی ہے، اور اس کی قدر پردیس جاکر معلوم پڑتی ہے۔۔
میری اس بات پر میرا بچپن کا دوست محمد مشہود اکثر مسکراتا تھا اور ایک ہی جواب دیتا ،
دیکھ یار یہ سب فرضی اور کتابی باتیں ہیں، اصل چیز رویپہ، پیسہ اور دستیاب سہولتیں ہیں، یہ چیزیں جہاں ملیں وہی آپ کا دیس ہے وہی آپ کی مٹی ہے۔
باقی خوشبو سے نہ تیرا پیٹ بھرنے والا ہے نہ ہی میرا،
چل اٹھ کینٹن پر ناشتہ کا بل دے اور 6th روڈ چلتے ہیں
کسی رویکروٹمنٹ ایجنسی پر اپنا مستقبل ڈھونڈتے ہیں۔۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اور محمد مشہود یونیورسٹی کا آخری سمسڑ کا امتحان دے کر فارغ ہوچکے تھے۔ ہم نرسری کلاس سے اکٹھے دوست تھے، ایک ہی گاوں اور ایک ہی گلی کے رہنے والے،
شہر آکر ایک کمرہ کا فلیٹ یونیورسٹی کے قریب لیا، اور وہیں اپنی دنیا بسا لی، دیکھتے ہی دیکھتے وقت پر لگا کر اڑتا گیا ہم کبھی ہوم ٹیوشن تو کبھی کسی اکیڈمی میں ٹیچنگ کرکے گزراوقات کرنے لگے، جوں جوں وقت گزرتا گیا مستقبل کی فکر زیادہ ستانے لگی، اور یہ فکر اس وقت اعصاب پر چھا جاتی ہے جب آپ کے کچھ دوست ، ساتھی ملک سے باہر جاکر اچھے ملبوسات میں اور پارکنگ میں کھڑی گاڑیوں کے ساتھ کھڑے ہو کر فیس بک پر جب تصاویر اپلوڈ کرتے ہیں تو پھر تو اس ملک میں آپ کو اپنا مستقبل تاریک ہی تاریک نظر آتا ہے۔
بس اسی اثنا میں ہم دونوں نے ریکروٹمنٹ ایجنسیوں کی خاک چھاننا شروع کی،
کبھی کوئی میڈیکل کے نام پر پیسے بٹور لیتا تو کبھی کچھ،
یہ کافی طویل داستان ہے اور اس حوالے سے مختلف تجربات بھی ہوئے جو انشاء اللہ آئیندہ پوسٹوں میں شامل کرتا رہوں گا۔۔
میں شروع ہی سےبیرون جاکر نوکری کرنے کے مخالف تھا مگر جب دوستوں کی فیس بک وال دیکھتا تھا جو بیرون ممالک جا چکے تھے تو بس دن رات ایک ہی الاپ ذہن میں چلتا تھا ” وہ بڑھے گئے ہم رہ گئے” 🤦♂️
المختصر ہم دونوں بھی ایک دن بیرون ملک پہنچ گئے،
کیسے پہنچے؟ کیا کیا ہوا؟ کن کے ہاتھ بکے؟ کہاں کہاں کی خاک چھانی؟ کتنے دن قید میں رہے یہ انشا اللہ اگلی پوسٹ میں کیونکہ یہ پوسٹ بہت طویل ہوجائے گی،
بس یہ جان لیں کہ آج 9 سال بعد میرے دوست نے صبح سویرے مجھے فون کیا اور کہا ۔۔
واقعی یار اپنی مٹی میں خوشبو ہوتی ہے اور یہ کبھی نہیں بھول سگتی ،
دنیا کی ہر آسائش سے اوپر ہوتی ہے اپنے دیس کی خوشبو ،
دیس اور اس کے باسی چاہے جیسے بھی ہوں، سسٹم چاہے جیسا بھی ہو، مگر دیس اپنا دیس ہوتا ہے،❤
آپ صرف اپنی گلی ، محلے اور بچپن کے گزرے پلوں کو یاد کریں تو آنسو چھلک جاتے ہیں ، کیسے سکول جایا کرتے تھے، وہ بستہ ، وہ کتابیں، وہ پین کی سیاہی، وہ امتحانات کی فکر، گرمی کی چھٹیاں، صبح چولہے کے پاس بیٹھ کر ماں کے ساتھ ناشتہ، سکول سے گھر آکر بغیر یونیفارم اتارے شام تک کھیلنا۔۔ الغرض کس کس یاد کو فوقیت دیں اور پردیس کی کس آسائش کے ساتھ، اس خوشی کا موازنہ کریں ؟؟
بس آنسوؤں چھلک جاتے ہیں ،😞
واقعی ہر دیس کی اپنی خوشبو ہوتی ہے ۔۔
جلد پھر ملتے ہیں ۔۔
خدا آپ کا حامی و ناصر ہو ۔۔ اللہ نگہبان۔