ہم لکیر کے فقیر لوگ ہر ڈے کو منانا اپنا اولین فریضہ سمجھتے یہ جانے بغیر کہ اصل حقیقت کیا ہے۔؟مثلا ویلنٹائن ڈے ۔اپریل فول وغیرہ اپریل فول کیا ہے؟ مغربی فضولیات میں سے ایک جسے ہم پاکستانی بھی بڑے شوق و ذوق سے کی طرح مناتے ہیں جبکہ بہت کم لوگ اس کی تاریخی حقیقت سے با خبر ہیں۔آئیے ذرا تاریخ کے جھروکوں میں جھانکیں
۔ اسپین میں مسلمانوں کے زوال کے بعد مسلمانوں پر بے انتہا ظلم و ستم ڈھائے گئے، ان کا قتل عام کیا گیا، ان کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو توڑا گیا اور مسلمانوں کو زبردستی اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، اور انکار پر مسلمانوں کو بے دخل کرکے ان کا بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ہیرالڈ لیم سمیت مختلف تاریخ دان لکھتے ہیں کہ جب ابو عبداللہ نے اپنے باپ اور تمام مسلمانوں سے غداری کی تو اس کے نتیجے میں فرنینڈو کو اسپین پر قبضہ کرنے میں بہت آسانی ہوگئی اور ابو عبداللہ کو عیسائیوں نے اپنا مقصد پورا ہونے کے بعد اسپین سے بے دخل کردیا، ابو عبداللہ نے جب غرناطہ کی کنجیاں شہنشاہ فرنینڈو کو دیں تو یہ الفاظ ادا کیے ’’ اے بادشاہ خدا کی یہی مرضی تھی، ہمیں یقین ہے کہ اس شہر کی رعایا کے ساتھ فیاضانہ سلوک کیا جائے گا‘‘ اس کے بعد وہ ایک پہاڑ پر چڑھ کر گزشتہ شان و شوکت کا نظارہ کرنے لگا اور پھر رونے لگا۔ اس کی ماں نے اس وقت اس سے یہ جملہ کہا کہ جس چیز کو مردوں کی طرح بچا نہ سکے اس گمشدہ چیز کے لیے عورتوں کی طرح آٓنسو بہانے سے کیا فائدہ۔ بحرحال آہستہ آٓہستہ عیسائی حکمرانوں نے مسلمانوں کے ساتھ بدترین سلوک کرنا شروع کیا ان کو اپنا مذہب بدلنے پر مجبور کیا گیا اور ایک آرڈیننس جاری کیا گیا کہ مسلمان یا تو عیسائی ہوجائیں یا نہ ہونے کے عوض 50 ہزار سونے کے سکے دیں، ایسا نہ کرنے والا سولی پر لٹکا دیا جاتا تھا، یا انتہائی اذیت ناک سزا دی جاتی تھی۔
مسلمانوں نے حالات کے پیش نظر اور جان کے خوف سے عیسائی مذہب قبول کرلیا تھا لیکن یہ سب ظاہری تھا جب بچے گھر آتے تو ان کا منہ فورا دھویا جاتا تاکہ بپتسمہ کا اثر ختم ہوجائے، جب مسلمان نکاح کرنا چاہتے تو وہ پہلے گرجا میں جاکر عیسائی طریقے سے شادی کرتے اور گھر آکر دوبارہ نکاح کرتے ،غرض حکمرانوں نے مسلمانوں پر ظلم روارکھا اور کچھ عرصے بعد یہ اعلان ہوا کہ مسلمان عیسائی لباس پہنیں گے یعنی مسلمانوں سے ان کی شناخت کی ہر چیز چھینی جارہی تھی، حکمرانوں نے اپنے کسی عہد کی پاسداری نہیں کی ان کے ظلم سے عورتیں اور بچے بھی محفوظ نہیں تھے۔ مختصر یہ کہ ان عیسائی حکمرانوں نے ایک چال چلی کہ بچے کھچےمسلمانوں سے کہا گیا کہ ان کو افریقہ بھیج دیا جائے گا وہ اسپین چھوڑ دیں، مسلمان اس جھانسے میں آگئے اور انھوں نے اپنا تمام مال و اسباب اور علمی ذخیرہ جمع کیا اور عیسائیوں کی جانب سے فراہم کردہ بحری جہازوں میں سوار ہوگئے، ان مسلمانوں کو علم نہیں تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، ان کو صرف یہ پتہ تھا کہ ظلم کے ماحول سے ہم دور چلے جائیں گے اگر چہ مسلمان اپنے وطن سے دور رہنے کو تیار نہ تھے لیکن ان کو اس بات کی بھی خوشی تھی کہ ان کی جان بچ جائے گی، بندرگاہ پرحکومت کے اہلکاروں اور جرنیلوں نے مسلمانوں کو الوداع کہا ۔ بیچ سمندر میں پہنچ کر منصوبہ بندی کے تحت ان جہازوں کو غرق کیا گیا اس کے باعث سینکڑوں مسلمان شہید ہوگئے اور ساتھ ساتھ وہ قیمتی و علمی ذخیرہ بھی برباد ہوگیا جو مسلمانوں نے بڑی مشکل سے جمع کیا تھا، یہ واقعہ یکم اپریل کو پیش آیا تھا اور یہ گیارویں صدی عیسوی کے اوائل کا واقعہ ہے۔
اس سازش پر اسپین بھر میں جشن منایا گیا کہ کس طرح مسلمانوں کو بے وقوف بنایا گیا اور اس کو فرسٹ اپریل فول کا نام دیا گیا یعنی یکم اپریل کے بے وقوف، اس کے بعد یہ اپریل فول کا دن اسپین سے نکل کر پورے یورپ میں پھیل گیا اور اب یہ دن باقاعدہ پوری دنیا میں منایا جاتا ہے جس میں ہم مسلمان بھی شریک ہوتے ہیں، جبکہ یہ مسلمانوں کو دھوکے سے شہید کرنے کی خوشی میں منایا جاتا ہے، یہ تو تھی اس کی تاریخ اب اگر اس کے نقصانات دیکھیں تو وہ اور بھی سنگین ہیں، سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جھوٹوں پر لعنت کی ہے، اس طرح ایک حدیث رسول میں منافق کی جو نشانیاں بتائی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے اس سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ جھوٹا شخص ایک تو اللہ کی لعنت کا مستحق ہوتا ہے اور دوسرا وہ ایک طرح سے نفاق کے درجے میں ہوتا ہے، ہمیں چاہیے کہ یکم اپریل کو اپریل فول منانے سے اجتناب کریں ۔اس اپریل نامی خرافت کی وجہ سے کئی جانیں بھی چلی جاتیں ہیں ۔ہم اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں اور خود کو ایک ترقی یافتہ قوم کہتے ہیں لیکن درحقیقت ہم ذہنی پس ماندگی کا شکار ہیں ۔اور یہی ہمارا زوال ہے۔