کہتے ہیں کہ کاروبار میں سب سے مشکل کام مار کیٹنگ ہے ، اخبار کی دنیامیں آپ اسے سرکو لیشن کہہ سکتے ہیں ۔ اخبار نکا لنا مشکل کام ہے لیکن اخبار کی سر کو لیشن اس سے بھی کئی گنا مشکل کام ہے اور میں نے ہمیشہ اس فیلڈ میں مار کھا ئی ہے ، لکھنا اور اخبار شا ئع کرنا میرے لئے کبھی پریشانی کا سبب نہیں بنا لیکن سر کو لیشن کے چیلنج نے ہمیشہ میرے طوطے اڑاءے ۔اس زمانے میں فیروز ندیم نیوز پیپرز سر کو لیشن منیجمنٹ میں ایک بڑا کا میاب نام تھے ، مجھے مرحوم کے ساتھ روزنامہ سنگ میل میں ایک ساتھ کام کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔ اس زمانے میں بانی سنگ میل ایم آر روھانی بقید حیات تھے ۔
صبح پا کستان روزنامہ بنا تو مجھے روزنامہ صبح پا کستان کی اشاعت کے لئے ملتان شفٹ ہو نا پڑا ۔ طے پایا کہ لیہ سمیت جنوبی پنجاب کے سبھی اضلاع میں اخبار کی ترسیل کے لءے نیوز ایجنٹ تلاش کءے جا ءیں ۔ نیوز ایجنٹس کی خدمات حاصل کی گئیں دیگر علاقوں میں جو حال ہوا سو ہوا لیہ میں جو حال ہوا وہ سب سے برا اور حوصلہ شکن تھا۔ ڈویژن بھر میں نیوز ایجنٹس تلاش کرنے کی بھر پور مہم چلائی گئی ، قدرے کا میابی بھی ہو ءی لیکن ان سب نے جو ہمارے ساتھ کیا سو کیا لیکن ما رکیٹنگ کے میدان میں سب سے بڑا کمال اپنے ہی شہر لیہ میں ہوا
ہوا کچھ یوں کہ لیہ میں ہمارے ایک بہت ہی پیارے دوست تھے ، سوری تھے نہیں اب بھی ہیں۔۔۔ جب لیہ میں صبح پا کستان کے لئے نیوز ایجنٹ تلاش کر نے کی مہم چلی تو چند اخباری ہا کردو ست تیار بھی ہو گئے کہ وہ بغیر ایڈوانس سیکیورٹی دیئے سر کو لیشن کا کام سبھا لنے پر آ مادہ تھے لیکن اس معا ملے میں ادارہ کو تحفظات تھے کہ بل کی ادا ءیگی کیسے ہو گی اور اگر بقایا جات رہ گئے تو وصولی کیسے ہو گی یہ ایک بڑا سوالیہ نشان تھا جو ہمارے لءے خاصہ پر یشان کن تھا کہ کہیں ہمارے ساتھ "کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے کا ” والا معامل نہ ہو کہ ہاتھ بھی کچھ نہ آءے نقصان بھی ہو اور تعلقات بھی جا ئیں ۔۔
ہم اسی کشمکش میں تھے کہ ہمارے دوست نے ہمیں پیشکش دی کہ یار صبح پا کستان کو ہم خود تقسیم کیوں نہ کریں ؟
کیسے ؟ میں نے وضاحت چا ہی
ارشاد ہوا کہہ ایسے کرتے ہیں کہ آپ کمیشن بنیاد پر صبح پا کستان کی ذمہ داری مجھے دے دیں ، میں تقسیم کروں گا ۔ ماہانہ بنیادوں پر بل کی ادائیگی ہو جایا کرے گی ، صبح پا کستان کا پریس کارڈ تو ہے ہی پہلے سے میرے پاس ۔۔
یار تم کیسے تقسیم کرو گے ۔۔۔۔ میں نے قدرے تذبذب سے پو چھا
کہنے لگے ۔۔ میں خود کروں یا کسی ملازم سے کراءوں ۔۔ یہ میرا سر درد ہے ۔ تمہارا اخبار تقسیم ہو گا اور تمہیں بل ملے گا ۔۔ تمہیں کیا
تجویز بڑی معقول تھی نہ پیسے ڈوبنے کا خطرہ تھا اور نہ ہی تعلقات خراب ہو نے کا اندیشہ
میں نے بلا جھجھک پلان کو منظور کر لیا ۔اور صبح پا کستن روزانہ ڈیڑھ سو کی تعداد میںلیہ فراہم کیا جانے لگا ۔وہ دور بھی ایک عجیب دور تھا ان دنوں ملتان میں حلیم سکواءر کے پڑوس میں واقع ایک مسجد کے ساتھ چو بارہ میں صبح پا کستان میں دفتر ہوا کرتا تھا ۔ دفتر میں دو کرسیوں اور ایک آفس ٹیبل کے علاوہ ایک ٹوٹی ہو ءی چار پا ءی ہمارا کل اثاثہ تھا ۔ کا تب اس دور میں اخبارات کے دفاتر کے وی وی آءی پیز ہوا کرتے تھے ۔ کہ خبر کی کتابت سے لے کر کا پی پیسٹنگ اور بعض اوقات پرنٹنگ تک میں کا تب کا کردار مرکزی ہو تا تھا کہ اس دور میں کمپیوٹر کہیں کہیں اور خال خال نظر آ تا تھا ۔ کا تب ایڈوانس لے کر دستیاب ہو تے تھے وہ بھی ایسے کہ” اپنی مرضی سے آنا اور اپنی مرضی سے جانا ‘ کہ انہیں کم وساءل سے اخبار نکالنے والے صحافیوں کی مشکلات، ضرو یات ، وسائل اور اپنی اہمیت کا اندازہ ہو تا تھا اس لئے وہ اپنی مرضی کے نے کا استحقاق بھی رکھتے تھے اور کرتے بھی تھے ۔ایک بار میرے پاس پیسے کم تھے کاتب حضور سے گذارش کی کہ بقایا اگلے ہفتے دے دوں گا ، بڑے استہزا ئیہ انداز میں بو لے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دھیلہ جیب نیں ہوندا تے بنن آجا ندے آ اڈی ٹر { ایڈیٹر}
اخبار کی تیاری کے بعد اخبار کی پرنٹنگ ایک اہم مرحلہ ہو تا تھا بو ہڑ گیٹ کے سید پریس پر شا ءع ہو نے والا صبح پا کستان شا ءد ہی آسانی سے کبھی وقت پر شا ءع ہوا ہو ۔ بڑی منت سماجت اور چا ءے کی رشوت کے بعد مشین مین کو اگر ترس آ جاتا تب ۔۔ عموما ہمیں چا ءے کی رشوت ہمیں دینا پڑتی ، گو اخبار ادھار چھپتا مگر چاءے کی یہ روزانہ نقد رشوت ہمارے لئے امتحانی پرچے میں لازمی سوال کی اہمیت رکھتی تھی
پرنٹنگ اخبار کے بعد فولڈنگ اور پھر بنڈل بنا نا بھی جو ءے شیر لانے کا ایک مرحلہ ہو تا ۔ اور آخر میں اخبار کے بنڈل کو متعلقہ شہروں میں جانے والی ویگنوں تک پہنچا نے کا عمل ۔ اس بھر پورجدو جہد میں ساری رات گذر جاتی ، جب ہم اخبار کا آخری بنڈل ویگن ڈراءیور کے سپرد کرتے تو صبح صادق دم توڑ رہی ہو تی
گوخبر کے حصول سے لے کر اخبار کی ترسیل تک کاعمل خاصا تھکا دینے والا ہوتا لیکن عجب بات یہ ہو تی کہ شب وروز کی اس ساری جدو جہد کے بعد بھی تھکاوٹ کا احساس کم ہی ہو تا ۔
تقریبا دو ماہ کے بعد ہم لیہ آ ءے اور جس دوست کے پاس ۔۔ہم گذشتہ ساٹھ دنوں سے اتنی مشقت سہنے کے بعد صبح پا کستان کا بنڈل بھیج رہے تھے اور جنہوں نے لیہ میں صبح پا کستان کی سر کو لیشن کی ذمہ داری اپنے سر لی تھی ۔ ان سے حساب کتاب اور بل کی وصولی کے لئے اس کی شاپ پر گئے ۔ ہمیں اچا نک دیکھ کر وہ بہت خوش ہو ءے چا ءے پلاءی آمدم بر سر مطلب جب مطلب کی بات کی تو انہوں نے اٹھتے ہو مجھے بھی اٹھنے کے لئے کہا ۔ اور مجھے دکان کے اندورونی کمرے میں لے گئے جہاں اخبارات کا ڈھیرھ لگا تھا اور بو لے بھائی یہ رہے آپ کے اخبارات بل کیسا ؟
میں نے پو چھا آپ نے انہیں تقسیم کیوں نہیں کیا ۔۔ بڑے جھلاءے ہو ءے کہنے لگے کون کرتا میرے پاس تو وقت ہی نہیں تھا اور کوئی ملازم تھا نہیں جو تقسیم کرتا ۔
میں نے ردی کے اس ڈھیر کو دیکھا۔۔ سر ہلایا ۔۔آنکھوں کی نمی کو چھپا یا اور خا مو شی سے با ہر نکل آ یا ۔۔ وہ دوست آج بھی میرا دوست ہے ۔۔