آگے آگے لک کے ڈرموں سے بھرا ٹرک اور پیچھے ہم اپنے پھٹیچڑ سے سکوٹر پر اس کے تعاقب میں ، میرے ساتھ میرے فوٹو گرافر دوست بھی تھے ۔ ٹرک کی رفتار بہت آ ہستہ تھی اسی لئے جب ٹرک نے کروڑ روڈ پر بنی کو ئلہ کی بھٹیوں پر پہلا سٹاپ کیا اس وقت سورج ڈھل چکا تھا۔
کہانی کچھ اس طرح سے ہے کہ ہمارے ایک دوست تھے ملازم ایک سرکاری دفتر میں ۔ وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ کی لیبر یو نین کے انتہائی متحرک رہنماء بھی تھے ۔ صبح پا کستان کا آ غاز ہوا تو وہ اکثر اپنی نگارشات اور خبریں شا ئع کر نے کے لئے دفتر آ تے رہتے تھے۔ ایک دن تقریبا سہہ پہر کے وقت دفتر آ ئے تو بہت جلدی میں تھے۔ کہنے لگے یار ہمارا فلاں اور سیئر لک کے ڈرموں کا ایک ٹرک چوری کر کے بیچنے جا رہا ہے بڑا سکینڈل ہے اگر آپ ہمت کریں تو بڑی نیوز سٹوری بن سکتی ہے ۔ گر میوں کے دن تھے ۔ تفصیل میں پتہ چلا کہ ٹرک مذ کور بغیر کسی آ فیشل پرمٹ کے سٹور سے لوڈ ہوا ہے ان دنوں ہائی وے سٹور برلب لیہ ما ئینر ریسٹ ہاؤس کے عقب میں ہوا کرتا تھا ۔ میں نے وضا حت چا ہی کہ کیا ٹرک چل پڑا ہے کہنے لگے نہیں جب مجھے پتہ چلا تو میں نے سٹور جا کر دیکھا تو ٹرک لوڈ ہو رہا تھا شا ئد نکل نہ گیا ہو ۔ ٹڑک نے کہاں جانا ہے ، جواب ملا شا ئد فتح پور، وہاں ایک سڑک کا کام ہو رہا ہے ٹھیکیدار بھی مقامی اور وہیں کا ہے انہوں نے ایک معروف ٹھیکیدار کا نام لیتے ہو ئے اپنی بات مکمل کی ۔ اور اس طرح ہم ایک طرح کے انوسٹی گیشن صحافتی مشن پر اس ٹرک کے تعاقب میں تھے
ٹرک کے اس پہلے سٹاپ پر کچھ لک کے ڈرم اتارے گئے جب لک کے ڈرم اتا رے جا رہے تھے تب ہم بھٹیوں کے سا منے ریت کے ٹیلے پر بیٹھے تصویریں بنا نے کی کو شش کر رہے تھے مگر شام کے دھند لے سا یوں میں چھوٹا سا کیمرہ کام نہیں کر رہا تھا ۔ وقت خاصا بیت چکاتھا لگتاتھا کہ ٹرک کا سٹاف کھا نے میں مصروف ہے۔ یہ خیال آ تے ہی ہمارے پیٹ میں بھی بھوک سے چو ہے دوڑنے لگے لیکن سوائے صبر کے کو ئی چارہ نہیں تھا ہمارے پاس ۔ خدا خدا کر کے ٹرک فتح پور کی طرف روانہ ہوا ۔ اور ہم نے بھی پیچھے پیچھے اپنا سکوٹر دوڑا دیا ۔ ٹرک کی رفتار اس بار قدرے تیز تھی سو ہم خا صے پیچھے رہ گئے ۔ ہمیں لگا کہ شا ہد ٹرک ہماری نظروں سے مستقل اوجھل ہی نہ ہو جائے۔۔ لیکن جب ہم فتح پور چوک پر پہنچے تب ٹرک وہیں ٹھہرا ہوا تھا اور دو تین بندے وہاں کھڑے کسی کا انتظار کر رہے تھے
میں نے پہچتے ہی پو چھا کہ یہ لک کس کی ہے ۔ ایک بندہ جو ٹھیکیدار کا منشی تھا کہنے لگا کہ ۔۔۔ ٹھیکیدار کی ہے ۔۔میں نے پو چھا کہ کہاں سے منگوائی ہے ؟ ابھی وہ کچھ کہنے والا ہی تھا کہ ایک شخص وہاں آ گیا اسے دیکھتے ہی منشی کہنے لگا ۔۔ ان سے جی۔۔ یہ ہیں لک کے بیو پاری جن سے ہم نے لک لی ہے ۔۔ میں اس بیو پاری کو جانتا تھا وہ وہی اور سیئر تھا جس بارے ہمیں اطلاع ملی تھی کہ وہ بغیر کسی پر مٹ کے لک کا ڈرم لے کر بیچنے کے لئے جارہا ہے۔۔ شا ئد وہ بھی مجھے جا نتا تھا اسی لئے وہ مجھے دیکھ کر تھوڑا پریشان ہو گیا۔۔ میں نے اپنا تعارف کراتے ہو ئے ہنستے ہو ئے اس سے پو چھا کہ آ پ کب سے لک کے بیو پاری بن گئے ؟ اسی اثنا میں۔۔ ٹھیکیدار بھی آ گیا۔۔ ٹھیکیدار کے آ نے اور میرے مسکرانے سے اور سیئر کو شا ئد حو صلہ ہوا ۔ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور ایک طرف لے جا کر اپنی شلوار کی جیب سے کچھ نوٹ نکا لے اور میری طرف بڑھاتے ہو ئے کہنے لگے یہ لیں اور جا ئیں۔۔ رات خاصی ہو چکی ہے
میں نے سر ہلاتے ہو ئے قدرے بلند آ واز میں کہا نہیں چو ہدری صاحب۔۔ مجھے پیسے نہیں چا ہئیں مجھے اطلاع ملی ہے کہ یہ لک کے ڈرموں کا ٹرک غیر قانو نی طور پر محکمہ کے سٹور سے نکا لا گیا ہے ہو سکتا ہے میری یہ اطلاع غلط ہو۔ا ٓپ کے پاس اگر لک کے ڈرم کا آ فس پر مٹ ہے تو وہ دکھا دیں میں واپس چلا جا ؤں گا۔میری اونچی آواز سن کر ٹھیکیدار بھی ہمارے پاس آ گیا اور کہنے لگا چھوڑیں سر۔۔ کا غذات سارے مکمل ہیں ہم کل ٓپ کے آ فس میں آ کر آپ کو دے دیں گے۔۔ آپ چائے کا خرچہ لیں اور جا ئیں۔۔ پریشان نہ کریں ،،ہم نے بہت سا کام کرنا ہے ۔۔
پیشکش دو ہزار سے شروع ہو ئی اور پندرہ ہزار پہ آ کے رک گئی ۔ آ خر ان کے اصرار پر میں نے کہا کہ یار یہ بات تو پکی ہے کہ ا س وقت آپ لو گوں کے پاس کو ئی کا غذات نہیں ہیں اور ؎؎ یہ چوری کا مال ہے اب تم مجھے رشوت دینا چا ہتے ہو ؟ تو ٹھیک آپ ایسا کریں۔۔ ٹھیکیدار صاحب اگر اور سیئر صاحب ما نتے ہیں تو اس ٹرک میں لدے لک کے 90 ڈرموں کا سارا بل مجھے دے دیں۔۔ میں چلا جاتا ہوں ۔۔
میری ڈیمانڈ سنتے ہی اور سیئر صاحب ہتھے سے اکھڑ گئے اور کہنے لگے جے اسی چوری کیتی آ تے کی تیرے واسطے کیتی اے ، جا جا کے خبر لا دے دیکھے ہا ترے ورگے بڑے بلیک میلر ۔۔
اس رد عمل کا مجھے پتہ تھا میں نے یہ ڈیمانڈ ہی اس لئے کی تھی کہ نہ وہ پوری کر سکیں گے اور نہ ہمیں شر مندہ ہو نا پڑے گا (ویسے یہ بتا تا چلوں کہ سال 1980.81 میں پندرہ ہزار کی رقم بھی خاصی بڑی رقم تھی)۔۔ سو ان کی بات سن کر ہم نے تسلی سے سر ہلایا ، سکوٹر سٹارٹ کیا اور فتح پور تھانے جا پہنچے۔ وہاں جا کر تحریری درخواست دی ، پو لیس پارٹی کو ساتھ لے کر مال مسروقہ کی نشا ندہی کی اور تھانہ محرر سے درخواست مذکور کا وصولی نمبر لیا تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آ ئے۔۔ اگلے دن کے صبح پا کستان میں یہ نیوز سٹوری رشوت کے بھاؤ تاؤ سمیت مکمل تفصیل کے ساتھشا ئع ہو ئی۔۔
آ گے کیا ہوا ؟
کیا ہو نا تھا ۔۔ پولیس درخواست غائب ہو گئی۔۔ اور سیئر صاحب معطل ہو گئے مگر طویل محکمانہ انکوائری میں کچھ ثابت نہیں ہوا پھر نو کری پر بحال ہو گئے۔ ہم کبھی کبھی چا ند ماری کئے رکھتے تھے ایک دن سر راہ ملاقات ہوئی تو کہنے لگے یار اب تو جان چھوڑ دو ۔۔لیا تم نے بھی کچھ نہیں اور ملا مجھے بھی کچھ نہیں۔۔ دو ایکڑ سے زیادہ زرعی رقبہ فروخت ہو گیا ہے اور سر کے سیاہ بالوں میں سفید ی کے علاوہ ۔۔
میں نے ان کی طرف دیکھا بہت افسوس ہوا، مجھے لگا واقعی مجھ سے کچھ غلط ہو گیا تھا ۔۔ بکتے انصاف کے بازار میں بے چا رے نے کتنی کڑی سزا پائی۔۔ یہ سو چتے ہو ئے میں نے سوری کہا اور اسے گلے لگا لیا