انجم صحرائی ایک شخص نہیں ایک تحریک کا نام ہے متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے انجم صحرائی نے متوسط طبقہ سفید پوش خاندانوں غریب خاندانوں اور پسماندہ خطہ میں رہنے والے باسیوں کے مسائل کو نزدیک سے دیکھتے ہوئے ان مسائل کو حل کرنے کی ٹھانی غریب متوسط خاندانوں اور پسماندہ خطہ کے مسائل پر کڑھنے کی بجائے انجم صحرائی نے اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے نسل نو ایک راہ دکھلا دی
بچپن سے ہی قلم کاغذ کے ساتھ تعلق کی بنا پر انجم صحرائی نے جہاں اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے جب سوچا تو قدرت کے ساتھ تجارت کرتے ہوئے جہاں وہ ضلع لیہ کے قصبہ کوٹ سلطان کے۔۔۔ بک سنٹر سے اپنے بچوں کے لئے بیگز کتب ادھار لیتے وہیں پندرہ بیس بیگ زائد لے لیتے اور وہ مستحق طلبہ کو دے دیتے یوں تو پڑھا لکھا پنجاب ہر بچہ سکول میں مار نہیں پیار کے نعروں سے حکومت اور این جی اوز نے کوشش کی کہ مملکت پاکستان میں چائلڈ لیبر نہ ہواورمعصوم بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہوں مگر پھربھی معصوم بچے ہوٹلوں بیکریوں اینٹوں کے بھٹوں پر کام کاج مشقت کرتے نظر آتے ہیں منتخب عوامی نمائندے این جی اوز کے نمائندے یخ بستہ کمروں نرم و گداز صوفوں اور برقی قمقموں سے لش پش ہالوں میں مملکت پاکستان کے بچوں کو ابتدائی تعلیم کے لئے سکولز داخل کرانے کی پلانگیں کرتے قانون سازیوں پر گفتگو کرتے ہیں جنکا نتیجہ نشتن گفتن اور برخاستن ہی ہوتا ہے مگر انجم صحرائی نے ان تمام باتوں کے بر عکس عملی اقدامات اٹھائے جو کہ سرمایہ داروں جاگیر داروں اور دولت مندوں جو کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وسائل ہیں مگر ہماری اولادیں پڑھتی نہیں وہ اگر خالق کائنات کیساتھ تجارت کرتے ہوئے اگر مستحق غریب یتیم بچوں کو اپنی فیکٹریوں کھیتوں کھلیانوں میں کام کرانے کی بجائے اگر انہیں کتابیں کاپیاں اور بیگز دلوا کر کسی تعلیمی ادارے میں ایڈمیشن دلوا دیں تو انکے مستقبل کے لئے بہتر ہی ہو گا
سال 2010 کے تباہ کن سیلاب کے تناظر میں ایف ایم ریڈیو لیہ پر پروگرام متا ثرین سیلاب انجم صحرائی شروع کیا گیا اس پرو گرام کے میزبان انجم صحرائی تھے اس پروگرام کا مقصد متاثرین سیلاب کے مسائل کو اجا گر کرنا تھا۔ اس کے بعد ایف ایم پر شروع ہو نے والا پروگرام ہیلپ لائن ود انجم صحرائی بھی در اصل متا ثرین سیلاب اور دیگر مستحق افراد کی عملی مدد اور بحالی کے لئے شروع کیا گیا اور یوں انجم صحرائی نے لیہ میں روائتی صحافت کی بجائے سماجی صحافت کو فروغ دیا گیا
2010 سیلاب علاقہ نشیب میں ہو نے والے دریائی کٹاؤ نے تبا ہی مچا ئی2017 میں لیہ نشیب کی 70/80 میل پٹی میں دریائی کٹاؤ انتہائی عروج پر تھا اس انسانی المیہ میں دریائی کٹاؤ سے تحصیل کروڑ اور تحصیل لیہ کی سینکڑوں بستیاں صفحہ ہستی سے مٹا دیں اور ہزاروں ایکڑ رقبہ دریا برد ہو گیا اور سینکڑوں خاندان بے گھر ہو گئے 2017 میں انجم صحرائی نے متاثرین دریائی کٹاؤ کے ساتھ اظہار یکجہتی مہم کے پلیٹ فارم سے متاثرین دریائی کٹاؤ کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے بھر پور مہم چلائی اور جدو جہد کیاسی زمانہ میں۔ انجم صحرائی نے محسن لیہ جنرل طارق سے رابطہ کیا جن کے توسط کوٹ سلطان سے کروڑ تک الیکٹرانک میڈیا کی ٹیم وسیب ٹی وی اور نیوز ون کی مو بائل ٹیموں نے متاثرین سیلاب کے مسائل اور دریا ئی کٹاؤ سے ہو نے والی تبا ہی کی بھر پور کوریج کی ۔ جس میں انجم صحرائی نے مطالبہ کیا کہ دریا برد ہو جانے والے علاقے کے مکینوں کو حکومت پنجاب متبادل آراضی اور مکانات تعمیر کر کے دے
متاثرین دریائی کٹاؤ کے مسائل اور دریائی کٹاؤ سے بے گھر ہو جانے والے متا ثرین کی متبادل آ باد کاری کے مطا لبہ کو کو اجا گر کرنے کے لئے انجم صحرائی اور ان کے ساتھیوں نے ڈسٹرکٹ پریس کلب کے سا منے بھوک ہڑتالی کیمپ لگا یا
گذشتہ دنوں حکومت پنجاب کے صوبائی پارلیمانی سیکرٹری محمد طا ہر رندحاوا نے اپنے ایک اخباری بیان میں یہ انکشاف کیا ہے کہ حکومت ضلع لیہ کے علاقہ نشیب میں متاثرین دریائی کٹاؤ کی متبادل آ باد کاری کے منصوبے پر غور کر رہی ہے ان کا کہنا تھا کہ ملک احمد علی اولکھ ممبر صوبائی اسمبلی نے اس مسئلہ کی طرف وزیر اعلی کی توجہ مبذول کرائی ہے اور ایم پی ایز نے وزیر اعلی پنجاب کو بریف کیا ہے کہ دریا برد ہونے والی زمین کے مالکان کو معاوضہ سمیت انکی مالی معاونت اور متبادل آباد کاری کے لئے متبادل اراضی مختص کی جائے یقینی طور پر انجم صحرائی اور انکے رفقاء کے لئے یہ خوش کن خبر ہے کہ جو نظریہ چند دہائیاں قبل انہوں نے مفلوک الحال خاندانوں کی معاونت کے لئے دیا تھا ریاستی ادارے اب اسکو عملی جامہ پہنارہے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گذشتہ مسلم لیگی دور حکو مت میں بھی اس مطالبہ پر کام شروع ہوا تھا اور لیہ چوک اعظم روڈ پر جگہ بھی تفویض ہو گئی تھی مگر اقتدار کی رشہ کشی اور سیاستدانوں کی باہمی لڑائی اختلافات کے سبب دریا برد ہونے ولے خاندانوں کو متبادل آراضی تو نہ ملی مگر سالہا سال کی در بدری انکا مقدر ضرور بنی، حالانکہ اس مسلم لیگی دور میں ڈیزاسٹر منیجمنٹ کی وزارت لیہ کے ایک سینئر سیاستدان مہر اعجاز احمد اچلانہ کے پاس تھی اگر وہ چا ہتے تھے تو بے گھر متاثرین دریائی کٹاؤ کی متبادل ٓباد کاری کا بندو بست ہو سکتا تھا
انجم صحرائی نے اپنی جدو جہد کو قلم کاغذ اور فناس کے ذریعہ صبح پاکستان کے پلیٹ فارم سے جاری رکھا ہفت روزہ پاکستان کو بدلتی گلوبل ویلج کے تحت صبح پاکستان فیس بک پیج اورصبح پاکستان یو ٹیوب چینل سوشل میڈیا پر جاری رکھا اور شعبہ صحافت کے نئے طالب علموں کو ایک مثبت پلیٹ فارم مہیا کر دیا جیسے انجم صحرائی کی شخصیت ایک تحریک ہے اسی طرح صبح پاکستان بھی محب وطن پاکستانیوں کے لئے ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہے
صبح پاکستان انجم صحرائی کی فیملی کی ڈونیشن سے ہی مختلف رفاحی سماجی کام جن میں مستحق طلبہ کی فیسیں مستحق خاندانوں میں راشن کی ترسیل میڈیسن کے لئے مریضوں کی امداد مستحق طلبہ طالبات کی تعلیم میں امداد سمیت متعدد کام شامل ہیں۔۔
استاد محترم انجم صحرائی کی یہ قابل قدر کاوشیں ہم جیسے سماجی اور صحافی طفلان مکتب کے لئے یقینا نشان منزل ہیں