اپنے سے بلند رتبہ شخصیت یا صاحب منصب کے سامنے محض مفاد حاصل کرنیکے لیے عاجزی وانکساری کرنا یا اپنے آپ کو نیچا دکھانا چاپلوسی کی انتہا ہے ایک سبب شہرت کی طلب ہے لہٰذا بندہ طلب شہرت کے نقصانات کو اپنے پیش نظر رکھے بد قسمتی سے ہمارے ہاں بہت سے طبقات سے وابستہ افراد خوشامد اور چاپلوسی کے اسی مقام پر فائز ہیں ضلع لیہ میں جو بھی منتظم آیا ان چاپلوس افراد نے اس کا آگے بڑھ کر استقبال کیا صحافت میں بہت سے کردار ایسے ہیں جنہوں نے موجودہ ڈی سی لیہ کی خوشامد میں تمام حدیں کراس کر لی ہیں
آج جب ہم مہنگائی کی صورت حال دیکھتے ہیں تو یہ بھی ذخیرہ اندوزوں اور تاجروں کا انتظامی افسران کے ساتھ ایسا گٹھ جوڑ لگتا ہے جس سے محض حکومت کے خلاف عوام کے اندر نفرت کی ایسی دیواریں کھڑی کرنا ہیں جن کو کبھی گرایا نہ جاسکے بد قسمتی سے موجودہ ڈی سی کی اس خوشامد میں ہمارے لائر بھی پیش پیش ہیں اس بار جب ماہ صیام میں چینی کا بحران پیدا ہوا تو ایسے افراد کو پرمٹ دیئے گئے جن کو اس سے قبل کبھی دیئے ہی نہیں گئے کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہ پرمٹ دولت کی چمک پر دیئے گئے انتظامیہ نے ایک کام یہ کیا کہ پریس کلب کو دو حصوں میں تقسیم کردیا اور اس تقسیم کے عمل سے خوب فائدہ اُٹھایا دکھ اس بات کا ہے کہ لیہ کے وہ طبقات جنہوں نے عوام کی خاطر بطور محتسب کا کردار ادا کرنا تھا ان طبقات کو انتظامیہ نے مفادات پر لگا دیا شہباز شریف کے دور میں یہی انتظامیہ عوام کی بنیادی ضروریات کی قیمتوں پر چیک اینڈ بیلنس کے تحت نظر رکھتی تھی لیکن موجودہ دور میں دکانداروں نے سرکاری نرخوں پر اکتفا کرنے کے بجائے از خود نرخ بڑھا کر قیمتوں کا تعین کر لیا آئے روز گھی،چینی کے نرخ بڑھتے ہیں تو عوام ان داروں کی طرف دیکھتے ہیں جو چیک اینڈ بیلنس کا اختیار رکھتے ہیں پرائس کنٹرول کمیٹیوں میں ایک طویل عرصہ سے وہی لوگ شامل ہیں جو خود انتظامیہ کے ٹاؤٹ ہیں موجودہ ڈی سی لیہ کی ایک کار کردگی یہ ہے کہ ایسے چاپلوس ان کے پاس ہیں جو ان کی ناقص کارکردگی کو عوامی مقامات پر اجاگر کرنے کے بجائے سوشل میڈیا پر دن رات عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں لگے ہوئے ہیں موجودہ دور میں جبکہ عثمان بزدار ڈیرہ غازیخان ڈویژن کے رہنے والے ہیں مگر مجال ہے موجودہ انتظامیہ نے عوامی ضروریات کی بنیادی اشیاء کے نرخوں پر کبھی نظر ڈالی ہو مجھے اپنے طبقہ کے ان افراد کو باور کرانا ہے جو انتظامیہ کی چاپلوسی میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں کہ چاپلوسی کرنے والا شخص خود تین بڑے گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے۔ایک تو یہ کہ وہ ایسی تعریف کرتا ہے جو واقع کے مطابق نہیں ہوتی یہ جھوٹ ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ منہ سے جو تعریف کرتا ہے اُس کو اپنے دل میں خود درست نہیں سمجھتا، یہ نفاق ہے۔ تیسرے یہ کہ اپنے ذاتی مفاد کی خاطر کسی کی خوشامد کرکے اُس کو فخر وغرور میں مبتلا کرتا ہے۔ یہ امر بالمعروف کے خلاف ہے۔
چنانچہ خوشامد و چاپلوسی اور جھوٹی تعریف سے دوسرے شخص کے لیے تباہی و بربادی کا سامان ہوجاتا ہے اور اُس میں دو برائیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ ایک غرور و تکبر اور دوسرے اپنی نسبت غلط فہمی۔ اپنی تعریف وتوصیف سن کر، غلط فہمی سے، وہ خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے، جس سے آگے چل کر فخر و غرور اور ناز وتکبر جیسی برائیاں اُس میں جنم لیتی ہیں صحافت کے نام پر یہ افراد کسی طرح عوام کی آواز نہیں بلکہ یہ آنے والے وقت میں یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جس مقام پر ہم کھڑے ہیں اس مقام پر کوئی اور نہیں کھڑا موجودہ اے سی لیہ نیاز مغل نے جس طرح ایک بااثر فرد کو سکول کے ایک گراؤنڈ پر قبضہ کرانے کی جو کاوش کی کیا وہ قابل تعریف ہے
صحافت کے نام پر مفادات کا تحفظ کرنے والوں کو اتنا کہنا ہے کہ خوشامد اور چاپلوسی کا کوئی موسم ہوتا ہے نہ کوئی رنگ و بو اور نہ ہی کوئی کلیہ قاعدہ، یہ بے اختیار چیز ہے اور بے لگام، جو بے لوث پن سے شروع ہوتی ہے اور مطلب برآری پر ختم ہوتی ہے۔ خوش قسمتی یہ ہے کہ اس پر کوئی ٹیکس عائد نہیں۔ بہت سی ضرب المثل بھی خوشامد کی افادیت کو ظاہر کرتی ہیں مثلاً جتنا گڑ ڈالو گے اتنا ہی میٹھا ہوگا۔”یس باس، یس سر،جی جناب! جو آپ کہیں گے وہی ہوگا“جیسے الفاظ کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ افسران کو قابو کرنے کیلئے پہلے ان کی تعریف و توصیف کی آہستہ آہستہ،مدھر، میٹھی میٹھی بین بجائیے۔ جب یہ صاحبان چاپلوسی کے پھندے میں گرفتار ہونے لگیں تو سمجھ لیجئے کہ یہی وقت ہے بڑے بڑے کام نکلوانے کا۔ اس موقع پرہاں میں ہاں ملانا بھی انتہائی کارگر ثابت ہوتا ہے