اس نے پاؤں گھنگھرؤں کی قید سے آزاد کیے اور ہولے ہولے دبانے لگی خوبصورت آنکھوں سے دو موتی نکلے اور اس کے بالوں کی آغوش میں جا سوئے ۔اب کچھ دیر بعد بھانت بھانت کی آوازیں آئیں گی اور پھر انسانی منڈی سج جائے گی اور اس کی بولی سب سے اوپر جائے گی ۔حسن کے ساتھ ساتھ خوبصورت طرز سخن اور مختلف موضوعات پہ گفتگو یہ اس کا اضافی پوائنٹ تھا ۔اکثر پڑھے لکھے بیویوں سے اکتائے لوگ جو چاہتے تھے کہ ہم پیالہ ودوآتشہ صحبت ملے اس سے جی بھر کر سرفراز ہوتے وہ مومن و غالب سے ہوتی شیکسپیئر تک جاتی اور فلسفہ و رومان کو آغوش میں لے لیتی ۔ایسے مدھ بھرے کافر کو کون چھوڑتا ۔نتیجتا اس کی اہل علم اور اہل فن کے۔طبقے میں مانگ بڑھتی گئی۔خانم بائی اب اس کو مخصوص لوگوں کے سامنے ہی پیش کرتیں جن کی آنکھیں اور بٹوے دونوں کھلے ہوتے۔اس نے اپنا سر پلنگ کی پائنتی سے ٹکا دیا اور آنکھیں بند کر لیں جیسے کوئی تصویر جامد ہو گئی ہو۔
سر جھکائے اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے الجھی وہ لڑکی کافی سلجھی ہوئی تھی ۔ایم اے انگلش کی طالبہ تھی روانی سے فلسفے پہ بحث کرنے والی شاید زندگی کے فلسفے سے نا آشنا تھی ۔ندا اکبر ۔سر احمد کی آواز پہ اس نے سر اٹھایا یس سر وہ گڑبڑا گئی۔آپ دوران لیکچر سو رہیں شاید؟
نن نہیں سر وہ گڑ بڑا گئی۔ساتھ بیٹھی آمنہ نے ٹہوکا دیا ۔آں ہاں کیا ہے۔وہ نیچی آواز میں بولی۔کلاس ختم ہوئی تو وہ ہنوز اسی طرح بیٹھی تھی۔سر احمد نے جاتےجاتے پلٹ کر دیکھا مس ندا زرا میرے آفس آئیں۔وہ تحکمیہ انداز سے کہتے چلے گئے۔اب وہ مجرم بنی اپنی انگلیاں مروڑ رہی تھی۔بیٹھیں انہوں نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔کوئی مسئلہ ہے ؟ گھر میں سب خیریت ہے انکی تشویش بھری آواز اس کی فکر ۔سب ایک نئے جذبے سے۔روشناس کر گئی.اور آنکھوں سے ساون بہنے لگا۔سر احمد یکدم اس کے۔پیچھے آ کھڑے ہوئے۔اور اس کے کندھے تھام لیے ندا اکبر ریلیکس مجھے بتاؤ کیا بات ہے میں ہوں ناں ۔سر اللہ کسی کو اتنے دکھ کیوں دیتا اور کسی کو اتنا نواز دیتا آخر کیوں؟میں بارہ سال کی تھی جب اچانک انکشاف ہوا کہ میرے والد کو کینسر ہے ایک ماہ میں وہ ہم سے دور چلےگئے۔ انکے جانے کے ایک سال بعد بڑی آپی بھی اس مرض کا شکار ہو گئیں ۔ بھائی کی شادی ہو۔گئی اس کا۔ایکسیڈنٹ ہو گیا وہ معذور ہو گیا۔امی میری فیس نہیں بھر سکتیں سو مجھے پڑھائی چھوڑنی ہوگی۔اس نے سسکتے ہوئےکہا ۔سر۔احمد نے اس کا سر۔تھپکا ۔فکر مت کرو فیس کا مسئلہ ہو جائے گا حل ۔اب میں ان۔آنکھیں میں آنسو نہ دیکھوں۔وہ ٹشو اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولے۔
وقت کا پہیہ گردش کرتا رہا اور ندا اکبر سر اکبر کی فین ہوتی چلی گئی ۔اس سے قبل بات یونیورسٹی سے نکل کر باہر جاتی تعلیمی سال مکمل ہوگیا ۔آج ان سب کا یونی میں آخری دن تھا ۔ سب افسردہ تھے مگر ندا اکبر کا تو حال مرغِ بسمل کا سا تھا ادھر پروفیسر احمد طالبعلموں میں گھرے ہوئے تھے جیسے ہی وہ اپنے آفس کی طرف گئے وہ انکے پیچھے لپکی۔آجاؤ وہ اپنی مخصوص کرسی پہ براجمان تھے۔۔جی حکم وہ مسکرائے ۔احمد آپ بھیا اور امی سے کب بات کرنے آئیں گے وہ بے تابی سے بولی احمد نے۔لب بھینچ لیے ۔ندا ابھی تو مجھے اپنے بڑے بھیا سے بات کرنی ہے بھیا بھابھی نے والدین کے بعد مجھے پالا پوسا ۔بحرحال تم فکر نہ کرو جلد بھیجوں گا۔انہوں نے آگے بڑھ کر اسے تھام لیا ۔مجھے بھولو گی تو نہیں انہوں نے اسکی کان کی لو کے پاس سرگوشی کی ۔احمد وہ بس اتنا ہی کہہ پائی خنک ماحول اے سی کی ٹھنڈک ائیر فریشنر کی مہک اس پہ احمد کا قرب ۔ایک بار پھر آدم و حوا بھول کر بیٹھے نفس کے دلفریب بہکاوے نے انیں بے خبر کر دیا ۔جب ہوش آیا تو فقط پشیمانی مقدر کی لکیروں میں قید ہو چکی تھی ۔نظریں اٹھیں ملیں اور جھک گئیں ۔ضمیر کی ملامت نے آن گھیرا اب کیا ہوگا سوال ہی سوال ۔وقت نے دیکھا کہ ابن آدم تسلی کے خواب۔امید کی روشنی پیمان کی حرارت حوا کے خالی دامن میں ڈال کر اسے رخصت کر رہا تھا۔
احمد سے بچھڑے دوسرا ماہ تھا کہ ندا اکبر کی امید دم توڑنے لگی ۔احمد جانے کہاں کھو گیا تھا یونی سے معلوم کرنے پہ معلوم ہوا کہ وہ ملک سے باہر جاچکا ہے ہاتھ میں اپنے اندر ایک نئے وجود کی نمو کی رپورٹ تھامے وہ لٹی پٹی تھکے قدموں سے انجان منزل کی طرف جا رہی تھی ۔آنکھوں سے بہتے۔آنسو مختل حواس سی وہ جانے کیسے گھر پہنچی دروازے تک پہنچ کر اس کے حواس جواب دے گئے اور وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گئی۔امی سبزی کی ٹوکری لیے چلی آرہی تھیں لپک کر اسے سنبھالا ۔اس کا شدید نروس بریک ڈاؤن ہو گیا تھا ۔ڈاکٹرز نے جب گھر والوں کو نئی خبر سے آشنا کیا تو گویا ان پہ قیامت ٹوٹ پڑی ۔کاش زمین پھٹتی اور وہ اس میں سما جاتے ۔کون تھا وہ بدبخت ماری ماں نے غصے سے پھنکارتے ہوئے پوچھا۔مگر وہ تو ایسی چپ سادھی بیٹھی تھی گویا مجسمہ ۔بھائی کے لعن طعن ۔بھابھی کی نفرت اور طنزیہ نگاہیں ۔ماں کی ترحم اور شکایت بھری نگاہیں کچھ نہ کر پائیں ایک لفظ منہ سے نہ نکلا۔بالآخر عزت بچانے کا ایک ہی راستہ تھا کہ اسے کسی کے سر تھوپ دیا جاتا۔رحمت اللہ ایک دو ہاجو تھا ۔دوسری بیوی کا دو سال قبل انتقال ہو چکا تھا ۔پہلی بیوی سے ایک بیٹا تھا یہی لگ بھگ بیس سال کا ۔مگر بری صحبت نے اسے نشے کا عادی بنا دیا تھا ۔رحمت اللہ کو گھر والی درکار تھی جو اس کی اس عمر میں دیکھ بھال کر سکے۔۔سو نصیبے جوڑ دیے گئے ۔ندا رحمت اللہ کی گھر والی بن گئی اور سب سے بڑی بات کہ آنے کے اگلے ماہ اسے اولاد کی خوشخبری بھی مل گئی ۔رحمت اللہ تو یہ خبر سن کر اکڑا اکڑا پھر رہا تھا۔سات ماہ کے بعد پیدا ہونے والی بچی انتہائی لاغر تھی ۔خاموشی کی چادر میں لپٹی ندا نے اس میں احمد کے نقش تلاش کرنے چاہے مگر شاید گردش دوران نے ان نقوش کو واضح کرنے سے انکار کر دیا وہ ہو بہو اس پہ تھی۔رحمت اللہ نے اس کا نام فاطمہ رکھا۔مریل سی فاطمہ ہر وقت بیمار رہتی اکثر تو اسکی ریں ریں سے ندا بھی عاجز آجاتی ۔جب سے سردیاں شروع ہوئیں تھیں وہ کچھ زیادہ ہی بیمار رہنے لگی تھی نمونیہ بگڑا اور سانس اکھڑا رہنے لگا۔دوا دارو سب بے سود اور ایک دن فاطمہ اپنی پہچان سمیٹے قبر میں جا سوئی۔ندا اس دن چلا چلا کر روئی اسے لگا آج احمد اس سے بچھڑا آج اس نے اسے دھوکا دیا نیم غشی میں واہی تباہی بکتی ندا احمد کا پول کھول گئی ۔رحمت اللہ نے توبہ توبہ کرتے ہوئے اسے بدکردار کا خطاب دیا اور طلاق کا کلنک سجا کر دروازے سے لا باہر کیا ۔دوسری بار لٹی پٹی ندا ایک بار پھر تنہا سڑک کنارے کھڑی تھی۔سیاہ شیورلیٹ نے اچانک بریک لگا ئے اور ریورس ہوئی ۔خانم نے کھڑکی سے جھانکا آؤ بی بی ہم چھوڑ دیتے ہیں کہاں جاؤ گی۔اسکا بے پرواہ حسن اور حلیہ خانم کے دل میں اتر گیا ۔میرا کوئی گھر نہیں وہ وحشت ذدہ ہو کر بولی ۔ہمم خانم نے ہنکارہ بھرا ۔آؤ میرے ساتھ ۔گاڑی کا دروازہ کھل گیا ۔ساری رام کتھا سن کر خانم نے آنسو صاف کیے ۔دیکھ بی بی یہ دنیا بہت ظالم ہے۔یہ اب تجھے قبول نہیں کرے گی تو اگر جانا چاہتی تو ہم تجھےچھوڑ آئیں گے۔نن نہیں اب میرا کوئی گھر نہیں۔معاشرتی گناہ گار ہوں معاشرہ مجرم ہونے کے باوجود مجھے قبول نہیں کرے گا ۔ندا نے تلخی سے جواب دیا۔ مگر بچی ہماری دنیا تیری دنیا سے الگ ہے ہم تمہاری دنیا کے لوگوں کو غم وفکر سے نجات دلا کر تسکین دیتے ہیں کیونکہ یہ ہمارا پیشہ ہے پاپی پیٹ کی آگ بھی تو بجھانی ہے ۔خانم نے اسے سمجھایا۔خانم مجھے اپنے معاشرے سے ڈر لگتا ہے پلیز مت بھیجو مجھے وہاں میں یہاں نوکر بن کر رہ لوں گی۔ندا نےہاتھ جوڑے۔ہمم خانم نے اس کے جڑے ہاتھ الگ کر کر اسے خود سے لپٹا لیا۔ندا اکبر کی پہچان بدل چکی تھی اب وہ ماہ رخ تھی۔احمد میرے مجرم ہو تم مہذب لباس میں بھیڑیے وہ اکثر اسے انہی الفاظوں میں یاد کرتی ۔ایک بار ایسا جی تڑپا کہ ماں بھائی کو ایک نظر دیکھ آئے ۔خانم نے۔اس کے ساتھ رشید کو بھجوایا ۔برقع میں ملبوس اس کی شناخت ممکن ہی نہ تھی محلے کے دکاندار کو رشید نے ندا کی والدہ کے حوالے سے پوچھا تو علم ہوا کہ اس کی والدہ اب اس دنیا میں نہیں بھائی یہاں سے مکان بیچ کر اپنے سسرال جا بسا ۔اب اس کا کون تھا ۔وہ تھکے قدموں سے قبرستان کی طرف بڑھ گئی ماں کی قبر سے لپٹ کر بے تحاشا رو دی ۔شاید معافی تلافی مداوا سب کا در بند ہو چکا تھا وہ قبر کی مٹی پہ ہاتھ پھیرتی رہی اسے لگا ماں نے اس کا ہاتھ تھام رکھا ہے ۔آنسو خشک ہو گئے تھے ۔رشید نے اس کے کاندھے پہ ہاتھ رکھا ۔بی بی چلیں وہ چونکی آں ہاں چلو ۔ایک لمبی آہ بھر کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔شاید اب اس کا وجود زندگی کے قفس میں قید ہو چکا تھا اور اسے تاحیات اس لغرزش کی سزا بھگتنی تھی۔