اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں بچوں پر تشدد فوری روکنے کا حکم دیتے ہوئے اسکولوں میں بچوں کی جسمانی سزا پر پابندی لگا دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا پر پابندی کے خلاف معروف گلوکار اور زندگی ٹرسٹ کے صدر شہزاد رائے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے درخواست پر سماعت کی۔ درخواست میں سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری قانون، سیکرٹری تعلیم، سیکرٹری انسانی حقوق اور انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد کو فریق بنایا گیا ہے۔
دوران سماعت شہزاد رائے کے وکیل نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا شہزاد رائے زندگی ٹرسٹ کے زیر اہتمام دو اسکول چلا رہے ہیں، بچوں پر آج بھی تشدد ہوتا ہے اور جسمانی سزا دی جاتی ہے، کچھ روز قبل لاہور میں ایک پرائیویٹ اسکول میں حنین بلال پر بھی اسی طرح تشدد کیا گیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا قومی اسمبلی نے کوئی بل بھی پاس کیا تھا، جس پر شہزاد رائے کے وکیل نے کہا سیاسی معاملات کی وجہ سے قانون سازی نہیں ہو پارہی، آج بھی اسکولوں میں بچوں کو جسمانی سزا دی جاتی ہے اور ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں بچوں پر تشدد فوری روکنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ وزارت داخلہ آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت بچوں پر تشدد کی روک تھام کے اقدامات کرے۔ عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے دو ہفتوں میں جواب طلب کرلیا، بعد ازاں کیس کی مزید سماعت 5 مارچ تک ملتوی کردی گئی۔
گلوکار شہزاد رائے نے بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا پر پابندی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ شہزاد رائے کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ تعلیمی اداروں میں بچوں کو سزا دینا معمول بن چکاہے، بچوں پر تشدد اور سزا کی خبریں آئے روز میڈیا میں آرہی ہیں، جبکہ پڑھائی میں بہتری کے لئے بچوں کی سزا کو ضروری تصور کیا جاتا ہے۔
گلوکار کی جانب سے درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ آرٹیکل 89 بنیادی انسانی حقوق اور بچوں کے حوالے سے یو این کنونشن کی خلاف ورزی ہے لہٰذا پاکستان پینل کوڈ کی شق 89 بنیادی انسانی حقوق سے متصادم قرار دی جائے۔
شہزاد رائے نے کہا کہ اسکولز، جیل اوربحالی مراکز میں بچوں کی جسمانی سزا پر پابندی عائد کی جائے، انہیں جسمانی اور ذہنی تشدد سے محفوظ رکھنے کے لیے حکومت کو اقدامات کرنے کی ہدایت کی جائے، یو این کنونشن کے تحت بچوں کے تحفظ کے قوانین پر مکمل عمل درآمد کی ہدایت کی جائے، جب کہ بچوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے فوری حکم امتناع جاری کیا جائے۔