ارئین اکرام ۔ایک ایسا موضوع جس نے قلم اٹھانے پہ مجبور کیا اور ستم کہ میں استاد جیسے رہنما کو ظالم اور ناسور کہنے پہ مجبور ہو گئی ۔کہا جاتا ہے ظلم کرنے والا اگر مجرم ہے تو خاموش رہنے والا بھی اتنا ہی بڑا مجرم ہے ۔گویا حساب دونوں طرف برابر ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ انٹر میڈیٹ فرسٹ ائیر کا رزلٹ آیا اچھے اچھے ذہین بچوں پہ بجلی گری اور ایسی گری کہ الامان الحفیظ بائیولوجی میں 6 .10 .12 مارکس اس کے علاوہ کئی اور مضامین میں بھی یہی حال ۔بچے حیران ۔دکھی کہ یہ کیسے ہو سکتا راتوں کی محنت ۔اساتذہ کی لگن نتیجہ کیا ؟ ناممکن کچھ سمجھ نہ آیا ۔بالآخر ری چیکنگ کا فیصلہ کیا گیا ۔درخواست دی گئی طلباء مقرر دن بلاوے پہ بورڈ آفس پہنچ گئے اور ان کے پیپرز ان کے سامنے تھے ۔افسوس اور المیہ کہ تین بچوں کے نمبر درست نہیں لگے تھے ٹوٹل غلط تھا ۔دوسرا المیہ تفصیلی جوابات کے حصے میں بغیر نشاندہی کیے بڑے بڑے کراس جیسے کسی نے پڑھے بغیر بیوی سے لڑائی کا غصہ اتارا ہو۔بچوں نے وہاں موجود صاحبان کو کہا کہ آپ کتاب منگوا لیں یہ جواب درست ہیں مگر شائد وہ ایسے فرعون تھے کا بچوں پہ ترس نہیں آرہا تھا ۔بچیاں روتی ہوئی ناکام واپس آگئیں ۔ان کی بے بسی نے آج مجھے ان اساتذہ پہ جن کو میں استاد کہنا اس مقدس پیغمبری پیشے کی توہین سمجھتی ہوں قلم اٹھانے اور ہرزہ سرائی پہ مجبور کیا ۔محکمہ تعلیم سے سوال کہ یہ کونسا سا طریقہ کار ہے جو ہمارے مستقبل کے شاہینوں کے درپے ہے ۔کیا ہمارے ملک خدادا میں کوئی مارکنگ اصول و ضوابط نہیں ۔جب جواب درست ہے تو یہ نا انصافی کیوں ؟ یہ کونسا کالا قانون ہے کہ بچہ غلط مارکنگ کو چیلنج نہیں کر سکتا کیوں؟ صرف کاونٹنگ ہوتی پیپر ری چیکنگ کیوں نہیں ؟کیوں ہم ان ذمہ داران کا گریبان نہیں پکڑ سکتے جو معاشرے کے ناسور ہیں ؟آئے روز خبر سنتے ہیں کہ طالبعلم نے نمبر کم آنے پہ خودکشی کر لیں ۔کون ہیں اس لعنت کے ذمہ دار ؟؟آئیے میں آپ کو بتاتی ہوں ۔امتحانی پرچے جانچنے کے لیے پروفیسر حضرات کو دیے جاتے پروفیسر اور اساتذہ توجہ سے ان کو چیک نہیں کرتے اور اپنی جان چھڑانے کے لیے تھوڑی سی رقم دے کر مڈل میٹرک کے یا نااہل تعلیمی قابلیت کے حامل لوگوں کو دے دیتے اس کے بعد جو ہونا ہوتا وہی ہوتا راتوں کی محنت نا اہل افراد کے ہاتھوں قتل ہو جاتی ہے۔اگر پروفیسر بیوی سے لڑ کے آیا ہے تو غصہ پیپر پہ ۔اگر کوئی دعوی کرے کہ میں ایک ایک پیپر خود ذمہ داری سے چیک کرتا ہوں تو ممکن ہی نہیں ۔نتیجہ ان معصوم طلبا کی محنت کا ان کی امیدوں کا خون ہو جاتا ۔ہمارا تعلیمی سسٹم فرسودہ روایات پر ہے ۔وہ استاد قابل سزا ہے جو بے ایمانی کرتا اور اپنی ذاتی ذمہ داری سے خود عہدہ برا ہونے کے بجائے نا اہلوں کے سپرد کر کے چین کی نیند سوتا اور طلبا کا مستقبل برباد کر دیتا ۔ہم سب جانتے کہ متوسط طبقہ کس قدر مشکلات میں اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو تعلیم دلواتا اس پہ اہل علم کا غیر ذمہ درانہ رویہ ناقابل معافی جرم ہے ۔محکمہ تعلیم کو ان اساتذہ کا محاسبہ کرنا چاہیے ۔پیپرز ری چیکنگ طلبا کا حق ہے ۔ایک اور واقعہ ۔نویں جماعت کی بچی نے مطالعہ پاکستان کے پیپر کی پرتال کروائی افسوس صد افسوس ۔تفصیلی جواب کے کل نمبر 8 ہوتے جبکہ نا اہل چیکر نے بچی کو 5 میں سے 3 نمبر دیے ہوئے تھے ۔جس چیکر کو سوال کے کل نمبر کا پتہ نہیں اس نے پرچہ کیسے چیک کیا ۔یہ سوال محکمہ تعلیم کے منھ پہ طمانچہ ہے ۔ کیا اب طلبا اپنے جائز حق کے لیے دھرنا دیں یا سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ جائیں کونکہ سیدھی انگلیوں سے گھی نکلنا ممکن نہیں ۔بہتر ہے تبدیلی کے زمرے میں یہ بھی رکھا جائے ۔میں اپنے کالم کے زریعے چیف جسٹس آف پاکستان سے گزارش کرتی ہوں کہ پرچوں کی جانچ کے طریقے کار پہ غور کیا جائے اور اس ظلم پہ داد رسی کی جائے ۔طلبا کو حق دیا جائے کہ وہ ری چیکنگ کروا سکیں ۔اور بورڈ آفس میں متعلقہ مضمون کا استاد موجود ہو جو پرچے کی دوبارہ جانچ طالبعلم کی موجودگی میں کرے ۔ اور غلط جانچ پہ چیکر کو جرمانہ اور سزا ہو ۔چیکنگ کے اصول میں بلاوجہ نمبر کاٹنا ختم کیا جائے یہ احمقانہ پن کے سوا کچھ نہیں ۔پوری دنیا کا تعلیمی نظام اٹھا کر دیکھ لیں کسی میں یہ بیماری نہیں کہ فلاں مضمون میں چاہے درست لکھا ہوں نمبروں کی کٹوتی کی جاتی ہو ۔اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ متعلقہ پروفیسر خود پرچے چیک کرے اور رزق حلال کھائے ۔استاد کا کام مستقبل بنانا ہے تباہ کرنا نہیں ۔خدارا خدا سے ڈریں اور ایمان داری کو اپنا شعار بنائیں کیا جواب دیں گے روز حشر ۔
پورے ملک میں ایک سسٹم آف ایجوکیشن رائج کیا جائے اور اردو کو زریعہ تعلیم بنایا جائے اپنی قومی زبان ہی ترقی کی ضامن ہے اور یہ قرارداد تو قائد نے منظور کی تھی پھر عمل داری کہاں گئی ۔شاید تیل بیچنے ۔ہمیں دیگر سسٹم کے ساتھ ہمیں اپنے تعلیمی سسٹم کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے اور یہ ایسے ہی لازمی ہے۔جیسے سانس لینے کے لیے آکسیجن ۔تو مت گھونٹیں اپنی نسل نو کا گلا۔ تازہ ہوا مہیا کریں کہ انہی کونپلوں نے وطن کو مہکانا ہے ۔یہی ہمارا روشن کل ہیں مت چھینیں ان ستاروں کی چمک ورنہ اندھیرا مقدر ہوگا اور اس کے ذمہ دار صرف آپ ہوں گے ۔
اپنے بھی خفا مجھ سے بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند