گنے کے کاشتکار حکومتی بے حسی کا شکارکیوں؟
تحریر : مہر زاہد واندر
یہ سچائی اب جھوٹ لگنے لگی ہے کہ ملکی معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے ۔ ملک کی کل آبادی کا 67فی صد بالواسطہ یا بلا واسطہ زرعی شعبہ سے وابستہ ہے ، کیونکہ در حقیقت آج زرعی شعبہ زراعت سے وابستہ صنعتوں کو چلانے والے چند صنعت کاروں کے ہاتھوں یر غمال بنا ہو ا ہے۔ حکومتی رٹ نہ ہونے سے صنعت کاروں کا یہ مخصوص گروپ شب و روز محنت او رجاں فشانی سے غلہ اگانے والے کسان کی قسمت کا فیصلہ کرتا ہے۔ کپاس ، چاول ، گندم اگانے والے کسان گزشتہ سالوں سے بدترین معاشی بدحالی کا شکار ہو رہے ہیں جس کی بڑی وجہ حکومتی عدم توجہی اور زراعت کش پالیسیاں ہیں۔
سال بھر کی محنت سے تیار ہونے والی گنے کی فصل کے کاشت کار بھی شوگر ملزمافیا کے ہاتھوں خوار ہو رہے ہیں ۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان گنے کی پیدا وار کے لحاظ سے دنیا میں پانچوں نمبر پر ، جبکہ برازیل پہلے، بھارت دوسرے ، چین تیسرے اور تھائی لینڈ چوتھے نمبر ہے۔
رپورٹ کے مطابق ملک میں 80کے قریب شوگر ملز ہیں جن میں سے 46پنجاب میں ہیں ، یہ شوگر ملز سالانہ 50سے 52لاکھ ٹن چینی پیدا کرتی ہیں جن میں سے 42سے 44لاکھ ٹن چینی ملکی ضرور ت ہے جبکہ 7سے 8لاکھ ٹن چینی ایکسپورٹ کرنا پڑتی ہے۔ ملک میں بیشتر شو گر ملیں پاکستانی سیاست پر راج کرنے والے بڑے خاندانوں کی ہیں جن میں سے اکثر مختلف سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کے ساتھ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں عوام کے نمائندے بھی ہیں۔ان شوگر ملز مالکان اور سرکاری افسران کی ملی بھگت سے شوگر ملز کرشنگ سیزن 22سے 25دن تاخیر شروع کرتی ہیں جس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کھیت میں موجود گنا مزید پک جائے اور اس میں مٹھاس کا لیول بڑھ جائے۔ بروقت شوگر کرشنگ سیزن شروع نہ ہونے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ صوبے بھر میں5سے 7لاکھ ایکٹر پر گندم کی کاشت نہیں ہوپاتی ہے ۔
شوگر مل مالکان نہ صرف کسانوں کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کر رہے ہیں بلکہ مقامی آباد ی کے لئے تکالیف کے علاوہ ان کے لئے کوئی سہولیات مہیانہیں کر رہے جس کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔ شوگر ملوں سے خارج ہونے والے زہریلے کیمیکلز زدہ پانی ملحقہ آبادیوں میں بنائے گئے تالابوں ، سیم نالوں ، نہروں میں ڈال دیا جاتا ہے اور شوگر ملوں کے بوائلروں کو چلانے کے لئے لگائے جانے والے بڑے چولہوں کی چمنیوں سے اٹھنے والی راکھ اور دھواں ملحقہ آبادیوں کے لئے کسی قہر سے کم نہیں ہے۔
شوگر ملیں شوگر کاشت ایریامیں تمام وسائل استعمال کرنے کے باوجود ان علاقوں کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی اقدامات نہیں کررہیں ۔ لیہ سمیت دیگر اضلاع کی شوگر ملیں ہر گزرتے سال کرشنگ کی استعداد بڑھا رہی ہیں جبکہ اس لحاظ سے گنا شوگر مل لے کر آنے والے والی ٹریکٹر ٹرالیوں کو کھڑا کرنے کے لئے آیارڈ کی توسیع نہیں کی گئی۔ جگہ کی قلت کے باعث گنے سے لوڈ ٹریکٹر ٹرالیوں کو شاہراؤں پر کھڑا کر دیا جاتا ہے جس سے کئی کئی کلومیٹر طویل قطاریں لگ جاتی ہیں ۔ نوے دن کے کرشنگ سیزن میں شوگر ملز سے ملحقہ شہر اور آبادیوں کے مکین قیدی بن جاتے ہیں ، مصروف شاہراوں اور مارکیٹوں کے سامنے ہمہ وقت گنے سے لوڈ ٹریکٹر ٹرالیاں کھڑے ہونے سے کاروبار کے ساتھ
آمدورفت کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔جبکہ کسی بھی بڑی انڈسٹری کے لئے ماحول دوست اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں تعلیم و صحت کی سہولتیں اور ہنر مند ی کی تعلیم کے ادارے قائم کرنا ضروری ہوتے ہیں تاہم حکومتی عدم توجہی کے باعث شوگر ملوں سے ملحقہ آبادیوں کو تعلیم و صحت اور ہنر مندی کی تعلیمی سہولتیں مہیا نہیں کی جارہی ہیں۔ متعدد شوگر ملوں نے شوگر ملز میں کام کرنے والے صنعتی مزدورں کے بچوں کی تعلیم کے لئے قائم پرائمری لیول کے سکول بھی ختم کر دیئے ہیں ۔ شوگر ملزمیں کام کرنے والے صنعتی مزدور بھی شدید استحصال کا شکار ہیں ۔ شوگر ملوں میں دوران کام ہر سال درجنوں صنعتی مزدوروں مشینوں اور گیسوں کے اخراج کی زد میں آکر ہلاک ہو جاتے ہیں جبکہ متعدد زندگی بھر کے لئے معذور ہو جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ان صنعتی مزدوروں کی کفالت اس لئے نہیں ہو سکتی کہ شوگر ملیں کنڑیکٹ کے ذریعے ملازمین کو بھرتی کرتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایک شوگر پلانٹ کو چلانے کے لئے 3ہزار سے زائد صنعتی مزدوروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ محکمہ سوشل ویلفیئر اور لیبر کے ریکارڈ میں شوگر ملوں میں کام کرنے والے صنعتی مزدورں کی تعداد کم ظاہرکی جاتی ہے۔
قیام پاکستان سے اب تک حکومت کی ناقص پالیسیوں کے باعث ملک کے 4کروڑ سے زائد کاشتکاروں کو معاشی طور پر کمزور کیا جارہا ہے، نئے ڈیم کی تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے ہر گزرتے سال ذرائع آب پاشی محدود ہو رہے ہیں جبکہ ائے دن پٹرولیم مصنوعات خصوصا ڈیزل ، بجلی ، زرعی ادویات، کھادوں کی قیمتوں میں اضافے سے فصلوں کی دیکھ بھال کے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ ملکی سیاست و معاشی استحکام اور بے روزگاری کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت کاشتکاروں کو بدحالی سے نکال کر خوش حالی کے راستے پر گامزن کرے ، کاشت کاروں کو گنے سمیت دیگر زرعی اجناس کے مقرر ہ نرخ دلوائے۔حکومت کی جانب سے کسان پیکج کی فراہمی خوش آئند مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ بہتر زرعی پالیسیاں بنا کر کسانوں کے لئے سہولیات پیدا کی جائیں اور کسانوں کی محنتوں پر پانی پھیرنے والی صنعت مالکان کو بھی قانون کے دائر ے میں لانا ہوگا۔