میری زندگی تباہ کر دی تم اس سے بہتر تھا میں کسی فقیر سے شادی کر لیتی ۔میرے کتنے اچھے اچھے رشتے آئے پر جانے اماں باوا تم پہ کیسے اتاولے ہوئے کہ سب ٹھکرا دیے اور پھوڑ دی میری قسمت تمہارے ساتھ ۔اوپر سے تم ایسے گنوں کے پورے نکلے کہ الاامان الحفیظ۔میری خوشی اور آزادی ایک آنکھ نہیں بھاتی تمہیں ۔الفاظ سے یا انگارے جو حبیبہ بی کے منہ سے نکل رہے تھے ۔جنید احمد اپنی ازلی شرافت سے دانت بھنیچے ان انگاروں میں جھلسنے پہ مجبور تھے۔بمشکل اپنے غصے کو ضبط کیا کہ وہ انکی اولین محبت تھی۔اور پاؤں پٹختے باہر نکل گئے۔
حبیبہ بی ماں باپ کی منہ چڑھی اکلوتی اولاد تھیں ۔بے جا لاڈ پیار نے کچھ زیادہ ہی سر پہ چڑھا دیا تھا کسی کو خاطر میں ہی نہ لاتیں تھیں بچپن میں جو باتیں ہنس کر نظر انداز کی جاتیں اب وہ پختہ عادات میں ڈھل چکی تھیں منہ بھر نا شکری ان میں سر ِفہرست تھی۔تعلیمی اعتبار سے بھی کوئی تیر نہ مارا بس کر کرا کے بی اے کر لیا ۔گھر داری بھی مارے باندھے سیکھی ۔مزاج کی تیزی اکثر اماں کے دل کو دہلا دیتی اور اگلے گھر کیا ہوت کی فکر ستانے لگتی مگر دادی کی شہہ ماں کے اندیشوں کو چٹکیوں میں اڑا دیتی ۔اری میں اپنی بیبو کو ساس سسر نند دیور سے آزاد گھر میں بیاہوں گی جہاں میری بٹیا راج کرے گی تم کاہے ادھ موئی ہوئی جارہی ۔دادی پان کی گلوری کلے میں دبا چٹا چٹ آغوش میں گھسی حبیبہ کی بلائیں لیتیں خیر سے چندے آفتاب چندے ماہتاب ہے میری گڑیا۔بات کچھ غلط بھی نہ تھی حسن اور جوانی تو گویا ٹوٹ کر آئی تھی رنگ جیسے دودھ میں گلابیاں گھلی ہوں۔ بڑی بڑی غلافی آنکھیں۔ اٹھی ہوئی مغرور سی ستواں ناک۔ سرو قد اور لمبے سیاہ بال ۔جسم گویا تراشا ہوا مومی مجسمہ ۔تبھی تو جنید احمد اس پہ دل ہار بیٹھے۔ آئے تو وہ شکیل صاحب سے کنٹریکٹ پہ سائن کروانے تھے مگر دروازہ کھلتے ہی جو چاند طلوع ہوا انہیں سحر زدہ کر گیا ۔فرمائیے کس سے ملنا ہے؟ خاصہ مغرور اور اکھڑ انداز ۔وہ جو اس کے تیر نظر سے گھائل ہوئے تو الفاظ ہی اٹک گئے حلق خشک ۔یک ٹک اسے تکے گئے ۔ارے منھ سے پھوٹیں ۔چندہ وندہ کوئی نہیں کسی اور گھر کی راہ لیں اس سے قبل کھٹاک سے دروازہ ان کے منہ پہ بند ہوتا شکیل صاحب آگئے ارے آپ السلام علیکم آئیے آئیے وہ نہایت گرم جوشی سے حبیبہ کو ہٹا کر انہیں اندر لے آئے ۔یہ میری بیٹی حبیبہ ۔بیٹے یہ جنید احمد صاحب ہیں ہمارے کنٹریکٹر ۔ذرا چائے وغیرہ بھجواؤ ۔وہ مختصر سا تعارف کروا کر انہیں ڈرائینگ روم میں لے آئے ۔اور وہ ناک چڑھاتی دھپ دھپ کرتی کچن کی طرف چل دی۔جنید احمد کا اپنا بزنس تھا ان کے والد کی ایک ساکھ اور نام تھا دولت ان کے گھر کی باندی تھی ایکو ایک بیٹا جو ایم بی اے کر رہا تھا۔بدقسمتی نے خوش قسمتی پہ ایسا سایہ کیا کہ ایک روڈ ایکسیڈنٹ نے جنید کو ماں کی محبت اور باپ کی شفقت سے محروم کر دیا ۔کاروبار کی ابھی سمجھ بوجھ نہ تھی کہ اس افتاد نے بوکھلا دیا بزنس پارٹنرز کے دھوکے نے احمد۔انڈسٹری کو ناقابل تلافی نقصان دیا ۔مگر جنید نے اپنی مستقل مزاجی اور تحمل مزاجی سے اسے اپنے پاؤں پہ کھڑا کرنے کی کوشش کی کچھ معتمد ساتھی جو اس کے والد کے دوست تھے ان کی مدد سے رفتہ رفتہ بحران سے نکل رہا تھا مگر ابھی بہت کچھ کرنا تھا ۔شکیل صاحب بھی انہی میں سے ایک تھے ۔کاروبار کی طرف سے کچھ بہتری آئی تو اس پری وش کو زندگی کا ساتھی بنانے کی خواہش دل میں جاگی تو اپنے والد کے پرانے ساتھی اور منیجر سے حال دل کہہ سنایا جسے وہ اب والد کا درجہ دیتا تھا ۔نذیر صاحب اور انکی بیگم نے شکیل صاحب سے مدعا بیان کیا ۔شکیل اور بیگم شکیل سب سے بڑھ کر دادی اس رشتے کی حامی تھیں جو پہلے ہی آگا نہ پیچھا کی قائل تھیں ۔رشتہ طے پا گیا اور ایک ماہ میں حبیبہ ۔حبیبہ جنید احمد بن گئی ۔بڑی سی کوٹھی ۔خوبصورت پرسنالٹڈ شوہر جو اس پہ دل ہار چکا ہو اور کیا چاہیے نہ روک ٹوک نہ پوچھ گچھ ۔
شروع شروع کے دن تو گویا سرسراتے ریشم کی مانند گزر گئے اب عملی زندگی سامنے تھی جنید احمد کو اپنی ساکھ جمانی تھی ۔سو سخت محنت میں لگ گیا باپ کا دیا ایمانداری اور حلال کمائی کا درس گو اسکی رگوں میں شامل تھا ۔حبیبہ کا الگ اکاونٹ تھا جس میں ہر ماہ وہ ایک خطیر رقم ڈلوا دیتا اس کے علاوہ ایک جوائنٹ اکاونٹ تھا جو دونوں کا تھا جنید بے جا اسراف کا قائل نہ تھا ۔حبیبہ سارا دن تنہا ہوتی تو اردگرد تعلقات بڑھائے مختلف بزنس مینوں کی مسز کے حلقوں میں اسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا کئی ڈنرز میں وہ اور جنید اکثر شریک ہوتے مگر اب جنید کی بڑھتی مصروفیات کی وجہ سے وہ خود ہی ہوتی۔خواتین کے ایک بے لگام سرکلر میں اس نے شمولیت کی اور اسی میں مصروف رہتی ۔فیشن زیورات نت نئی انجیوز ۔صبح شام کا تماشا تھا۔
۔جنید کو ارجنٹ ایک پارٹی کو پیمنٹ کرنی تھی اور رقم اس وقت دستیاب نہیں تھی اسے جوائنٹ اکاؤنٹ کا خیال آیا مگر اس وقت وہ صدمے سے دوچار ہوا جب اسے پتہ چلا کہ اکاؤنٹ میں صرف چند ہزار روپے ہیں ۔لاکھوں کہاں گئے ۔بر وقت ادائیگی نہ ہونے سودا ہاتھ سے نکل گیا ۔حد درجہ غصے میں وہ گھر پہنچا ۔حبیبہ کسی پارٹی میں جانے کو تیار تھی سلیو لیس بلیک ساڑھی میں وہ قیامت ڈھا رہی تھی ۔یہ کیا ہے وہ پہلی بار چلایا ۔پچاس لاکھ روپے تھے اکاونٹ میں اور اب صرف بچیس ہزار ۔اس نے کریڈٹ کارڈ بیڈ پر پھینکا۔خرچ ہوگئے مجھے ایک ڈائمنڈ کا سیٹ پسند آگیا تھا مسز ہارون کو بھی وہ پسند تھا سو ایک خود لیا ایک ان کو انکی سالگرہ پہ گفٹ کر دیا ۔وہ بے پرواہی سے لپ اسٹک ٹھیک کرتے ہوئے بولی ۔واٹ؟جنید کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور یہ بن سنور کر اس طرح کا نازیبا لباس کہاں جارہی ہو؟ سر تا پا اس کافر پہ نگاہ ڈالی ۔بتایا تو آج مکس گیدرنگ ہے مسز ہارون کے ہاں ان کے ریسٹ ہاؤس میں ۔اور کیا تفشیش شروع کر دی مجھے دیر ہو رہی وہ چڑتے ہوئے بولی ۔تم کہیں نہیں جارہیں سمجھی ۔وہ بدقماش عورتیں تمہیں کوئی ضرورت نہیں وہاں جانے کی ۔گھر بیٹھو ۔جنید نے غصے کو ضبط کرتے سختی سے کہا ۔کیا کہا میں تو جاؤنگی اور آج تمہیں سب برا کیوں لگ رہا کاروبار کے نقصان کا غصہ مجھ پہ کیوں وہ تنک کر کھڑی ہو گئی ۔حبیبہ اسٹاپ اٹ ۔اس کا بازو پکڑ کر بیڈ پہ دھکیلا ۔اور تب ہی حبیبہ کی زبان انگارے اگلنے لگی ۔آج اپنی پسند کا مان زمین بوس ہوتا نظر آیا۔اور اس وقت انکا وہاں سے ہٹ جانا بہتر تھا۔
پراجیکٹ میں نقصان نے دماغ کی چولیں ہلا دیں اب وہ سر پکڑے بیٹھا تھا ۔سر آپ گھر جا کر ریسٹ کریں اللہ بہتر کرے گا ۔اس کے مینیجر نے اسے ہمدردی سے دیکھا۔ہمم اچھا وہ اٹھ کھڑا ہوا اور گاڑی کی چابی اٹھا کر گھر جانے۔کا سوچا ۔کتنے دنوں سے حبیبہ اور اس کے درمیان ایک خلیج سی حائل تھی ۔آج وہ اسے منا لے گا اور باہر لے جائیگا وہیں ڈنر کریں گے ۔اس نے پلان بنایا ۔گاڑی پورچ میں کھڑی کر کے ۔گنگناتے ہوئے لاونج میں داخل ہوا تو ڈرائنگ روم سے آتے بے ہنگم میوزک نے اسے حیران کر دیا ۔اور آگے بڑھا تو حبیبہ اور اس کی سہیلیاں ڈانس کر رہی تھیں مئے خوانی بھی ہو رہی تھی تین مرد بھی ان کے ساتھ تھے ۔کیا ہو رہا ہے میرے گھر میں؟ وہ چلایا۔اور حبیبہ کو بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑا ۔کیا ہوگیا جنید یہ میرے دوست ہیں وہ نشے میں بڑ بڑائی ۔ایک زور دار طمانچہ اس کے منہ پہ پڑا اور وہ چیخنے لگی تم نے مجھے مارا یو باسٹرڈ وہ آپے سے باہر ہو گئی ایک اور تھپڑ نے اسے ہوش سے بیگانہ کر دیا ۔مرد اور عورتیں خاموشی سے کھسک لیے ۔
صبح ہو چکی تھی حبیبہ کی آنکھ کھلی سر بھاری ہو رہا تھا اس نے ایزی چئیر پہ جنید کو سوتے پایا قریب اسٹول پہ ایش ٹرے سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھرا ہوا تھا ۔اس کے اوسان بحال ہوئے رات کے واقعے کی یاد نے تھوڑی سی شرمندگی بھر دی ۔وہ آہستہ سے اٹھی ۔اور کچن کی طرف چل دی ۔کافی کا مگ تھامے لوٹی تو جنید کو جاگتا پایا۔حبیبہ وہ مضحمل تھا ۔تم کن راہوں پہ چل نکلی ہو اس کے لہجے میں برسوں کی تھکن تھی ۔رات مجبورا تم پہ ہاتھ اٹھایا ۔سوری میں رات بھر سو نہیں سکا تم میری اولین محبت ہو مت کرو ایسا ۔اس کا ٹوٹا ہوا لہجہ اس کے دکھ کا غماز تھا ۔حبیبہ سر جھکائے ہاتھ میں تھامے مگ پہ نظریں جمائے بیٹھی تھی۔۔حبیبہ بولو پلیز تم کیا چاہتی ہو؟ جنید آئی ایم ساری پھنسی آواز سے فقط یہی کہہ پائی ۔جنید گویا جی اٹھا اور اس کا ہاتھ تھام لیا ۔آئی ایم سوری ٹو میری جان ۔شاید مصروفیت میں میں بھول گیا تھا کہ تم میری زندگی کا حصہ ہو ۔اپنے بھولے سیاں کو معاف کردو ۔وہ مسکرایا ۔
دھند چھٹ گئی تھی اور خوبصورت صبح ان کی منتظر تھی۔