شہر کی ویرانی دیکھ کر جس قدر افسردگی ہوئی تھی اس سے کہیں بڑھ کر شہر کی رونق دیکھ کر حیرت ہوئی ہے۔ حیرت اس لیے نہیں کہ یہ رونق اور چہل پہل کیوں ہے۔۔۔ یہ بازاروں میں سجی سنوری دوکانیں ، خریداروں کا رش، لوگوں کی آنیاں جانیاں، ایک موٹرسائیکل پر میاں بیوی بچوں سمیت پورے پورے لدے پھندے خاندان ، فراٹے بھرتے چنگ چی رکشے ، سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک ، بے تکے ہارنوں کا شور اور لوگوں کا ہجوم بے کراں۔۔۔۔ یہی تو شہروں میں زندگی کی علامت آن ٹھہرے ہیں انہیں دیکھ کر ہی تو معلوم پڑتا ہے کہ زندگی رواں دواں ہے۔ بھلا یہ کیا جانیں کوئل کی کوکو ، چڑیا کی چو چوں ، پرندوں کی چہچہاہٹ ، فطرت کی مسکراہٹ ، ہوا کی آواز ، درختوں کے ساز جب آپس میں ملتے ہیں تو ایسا گیت چھیڑتے ہیں کہ دیہات میں رہنے والوں کی زندگی پر رشک آتا ہے جو طلوع آفتاب سے لیکر چاند کی چاندنی تک دن کی چمکتی روشنی سے لیکر رات کے گہرے سناٹے تک تمام مظاہر فطرت کے ذریعے زندگی کے اس حقیقی حسن سے آشنا ہیں جس کے بارے شہر والوں کو سوچنے کی فرصت ہی نہیں اس لیے تو وہ شور شرابے ، ٹریفک کے اژدہام ، گرد غبار ، آلودگی اور ان کے درمیان پھرتے انسان نما اجسام کے ہجوم کو ہی زندگی سمجھتے ہیں۔
مگر مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ پچھلے دو ماہ سے ملک بھر میں کہیں جزوی اور کہیں مکمل لاک ڈاون کی وجہ ہم جس طرح کی صورتحال کا تصور کئیے بیٹھے تھے سفید پوش اور عام لوگوں کی حالت زار کا سوچ کر جس خوف میں مبتلا تھے وہ خوف لاک ڈاون ختم ہوتے ہی ختم ہوگیا کیونکہ ایک لمحے کو ایسا لگا کہ بازاروں میں کپڑے جوتے اور ضرورت کی دوسری تمام چیزیں پیسوں سے نہیں بلکہ مفت میں مل رہی ہیں۔ ہمارے ہاں شادیوں میں ایسا ہونا ایک عام سی بات ہے کہ جیسے ہی "روٹی کُھل گئی اے” کی آواز آتی ہے دو میزیں ، چار کرسیاں ، بیس پلیٹیں ، جگ گلاس اور دو چار ڈیشیں بھی مہمانوں کے ساتھ ادھر ادھر چھلانگتی پھلانگتی نظر آتی ہیں۔ اب لاک ڈاون کھلا تو ایسا لگا شادی کی روٹی کھل گئی ہے اگر تھوڑی دیر کر دی تو کچھ بھی نہیں بچے گا شاید دن بھی آخری ہے موقع بھی آخری بازار میں رکھی چیز بھی آخری اور ہم بھی آخری ہیں۔ یوں خریداری ہو رہی تھی لاک ڈاون گزار کے نہیں آئے بلکہ لاک ڈاون انجوائے کر کے آئے ہیں۔
اچھا ہے بازاروں کی رونقیں بحال ہوئی ہیں پہلے بھی صرف دروازے ہی بند تھے کاروبار تو چل ہی رہی تھے جس طرح حکومتوں میں بیٹھے لوگ اندر خانے کئی طرح کے کاروبار چلائے رکھتے ہیں کاروبار بھی ایسے کہ جن میں صرف فائدہ ہوتا ہے یعنی حکومتوں میں بیٹھے لوگ یا تو گھاٹے کا سودا نہیں کرتے یا پھر سودے میں کبھی گھاٹا نہیں کرتے۔ اسی طرح بند دروازوں کے پیچھے یہ کاروبار ایسے ہی چلتا رہا جس طرح اپوزیشن سیاستدان بیانات اور حکومتی وزیر نئے وعدوں کے زریعے اپنا کاروبار سیاست چلائے رکھتے ہیں۔
بہر حال اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کورونا کا کیا ہوا۔۔۔؟ اگر خبروں پر غور کریں تو کورونا کے علاوہ کچھ بھی نہیں اور اگر سڑکوں بازاروں چوکوں چوراہوں میں لوگوں پر غور کریں تو کورونا کچھ بھی نہیں کیونکہ نہ تو کہیں احتیاط نظر آتی ہے نہ ہی کہیں اس کا دامن دکھائی دیتا ہے ، قریب تو پہلے بھی نہ تھے لوگ مگر اب فاصلہ بھی کہیں دکھائی نہیں دیتا ، ہاتھ دھو کر ایک دوسرے کے پیچھے پڑنے کے علاوہ ہاتھ دھونے سے ہمیں پہلے ہی چڑ تھی اب چڑچڑا پن ہوگیا ہے ، ماسک کے تکلف سے ہم پہلے ہی آزاد ہیں اب تو آزاد خیال ہو گئے ہیں یعنی کورونا کے حوالے سے اس قدر بھی سنجیدہ نہیں کہ جتنا ہم چھینک آنے کو کسی کے یاد کرنے سے جوڑ کر سنجیدہ ہو جاتے تھے یوں سمجھیں جیسے جیسے کورونا کی سختیاں بڑھ رہی ہیں ویسے ویسے کورونا کے خلاف کی گئی سختیاں کم ہو رہی ہیں۔
اور اب لاک ڈاون کی گرتی ہوئی دیوار کو آخری دھکا سپریم کورٹ کے فیصلے نے دیا ہے جس کے بعد کورونا دور ہو یا نہ ہو کم از کم کنفیوژن دور ہوگئی ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے بعد ملک بھر کے شاپنگ مالز کھولنے سمیت ہفتے اتوار کو بھی تمام چھوٹی مارکیٹیں کھلی رکھنے کا حکم جاری کر دیا۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں منطق بتائی جاۓ کیا وباء نے حکومت سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ ہفتہ اتوار کو نہیں آئے گی کیا حکومتیں ہفتہ اتوار کو تھک جاتی ہیں یا سورج مغرب سے طلوع ہوتا ہے۔
بہر حال حکومت بھی یہی چاہتی تھی اس فیصلے کے بعد حکومت کے کندھوں سے بہت سا بوجھ اتر گیا ہے عوام کا کیا ہے جسے اپنی فکر نہیں اس کی فکر کون کرے گا البتہ یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ حکومت پاکستان اور عوام پاکستان نے کورونا وائرس کے خلاف جو ہو سکتا تھا وہ کیا یعنی بیسیوں پریس کانفرنسز ، درجنوں پریس بریفنگز ، لاک ڈاون ، جزوی لاک ڈاون ، مکمل لاک ڈاون ، سمارٹ لاک ڈاون اور اب بغیر لاک ڈاون، پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹرینوں کی بندش اور اب دوبارہ چلانے کی تیاریاں ، سکولز ، کالجز ، یونیورسٹیز کی بندش ، تعلیمی پالیسی کا ابہام ، طلباء کی پرموشن ، عبادت گاہوں میں ایس او پیز بازاروں میں آزادی ، درباروں کی بندش درباریوں کی اجارہ داری، ٹائیگر فورس ، امداد ، احتیاط ، فاصلہ ، ماسک ، سنی ٹائزر ، دفعہ 144، جرمانے ، قرنطنیہ سنٹر ، آئسولیشن وارڈ ، ٹیسٹنگ لیبارٹریز ، وینٹی لیٹر وغیرہ وغیرہ یعنی ہم سے جو ہوسکتا تھا کر لیا اب ہم نے کچھ نہیں کرنا جو کرنا ہے کورونا نے کرنا ہے۔۔۔!!
مگر مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ پچھلے دو ماہ سے ملک بھر میں کہیں جزوی اور کہیں مکمل لاک ڈاون کی وجہ ہم جس طرح کی صورتحال کا تصور کئیے بیٹھے تھے سفید پوش اور عام لوگوں کی حالت زار کا سوچ کر جس خوف میں مبتلا تھے وہ خوف لاک ڈاون ختم ہوتے ہی ختم ہوگیا کیونکہ ایک لمحے کو ایسا لگا کہ بازاروں میں کپڑے جوتے اور ضرورت کی دوسری تمام چیزیں پیسوں سے نہیں بلکہ مفت میں مل رہی ہیں۔ ہمارے ہاں شادیوں میں ایسا ہونا ایک عام سی بات ہے کہ جیسے ہی "روٹی کُھل گئی اے” کی آواز آتی ہے دو میزیں ، چار کرسیاں ، بیس پلیٹیں ، جگ گلاس اور دو چار ڈیشیں بھی مہمانوں کے ساتھ ادھر ادھر چھلانگتی پھلانگتی نظر آتی ہیں۔ اب لاک ڈاون کھلا تو ایسا لگا شادی کی روٹی کھل گئی ہے اگر تھوڑی دیر کر دی تو کچھ بھی نہیں بچے گا شاید دن بھی آخری ہے موقع بھی آخری بازار میں رکھی چیز بھی آخری اور ہم بھی آخری ہیں۔ یوں خریداری ہو رہی تھی لاک ڈاون گزار کے نہیں آئے بلکہ لاک ڈاون انجوائے کر کے آئے ہیں۔
اچھا ہے بازاروں کی رونقیں بحال ہوئی ہیں پہلے بھی صرف دروازے ہی بند تھے کاروبار تو چل ہی رہی تھے جس طرح حکومتوں میں بیٹھے لوگ اندر خانے کئی طرح کے کاروبار چلائے رکھتے ہیں کاروبار بھی ایسے کہ جن میں صرف فائدہ ہوتا ہے یعنی حکومتوں میں بیٹھے لوگ یا تو گھاٹے کا سودا نہیں کرتے یا پھر سودے میں کبھی گھاٹا نہیں کرتے۔ اسی طرح بند دروازوں کے پیچھے یہ کاروبار ایسے ہی چلتا رہا جس طرح اپوزیشن سیاستدان بیانات اور حکومتی وزیر نئے وعدوں کے زریعے اپنا کاروبار سیاست چلائے رکھتے ہیں۔
بہر حال اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کورونا کا کیا ہوا۔۔۔؟ اگر خبروں پر غور کریں تو کورونا کے علاوہ کچھ بھی نہیں اور اگر سڑکوں بازاروں چوکوں چوراہوں میں لوگوں پر غور کریں تو کورونا کچھ بھی نہیں کیونکہ نہ تو کہیں احتیاط نظر آتی ہے نہ ہی کہیں اس کا دامن دکھائی دیتا ہے ، قریب تو پہلے بھی نہ تھے لوگ مگر اب فاصلہ بھی کہیں دکھائی نہیں دیتا ، ہاتھ دھو کر ایک دوسرے کے پیچھے پڑنے کے علاوہ ہاتھ دھونے سے ہمیں پہلے ہی چڑ تھی اب چڑچڑا پن ہوگیا ہے ، ماسک کے تکلف سے ہم پہلے ہی آزاد ہیں اب تو آزاد خیال ہو گئے ہیں یعنی کورونا کے حوالے سے اس قدر بھی سنجیدہ نہیں کہ جتنا ہم چھینک آنے کو کسی کے یاد کرنے سے جوڑ کر سنجیدہ ہو جاتے تھے یوں سمجھیں جیسے جیسے کورونا کی سختیاں بڑھ رہی ہیں ویسے ویسے کورونا کے خلاف کی گئی سختیاں کم ہو رہی ہیں۔
اور اب لاک ڈاون کی گرتی ہوئی دیوار کو آخری دھکا سپریم کورٹ کے فیصلے نے دیا ہے جس کے بعد کورونا دور ہو یا نہ ہو کم از کم کنفیوژن دور ہوگئی ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے بعد ملک بھر کے شاپنگ مالز کھولنے سمیت ہفتے اتوار کو بھی تمام چھوٹی مارکیٹیں کھلی رکھنے کا حکم جاری کر دیا۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں منطق بتائی جاۓ کیا وباء نے حکومت سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ ہفتہ اتوار کو نہیں آئے گی کیا حکومتیں ہفتہ اتوار کو تھک جاتی ہیں یا سورج مغرب سے طلوع ہوتا ہے۔
بہر حال حکومت بھی یہی چاہتی تھی اس فیصلے کے بعد حکومت کے کندھوں سے بہت سا بوجھ اتر گیا ہے عوام کا کیا ہے جسے اپنی فکر نہیں اس کی فکر کون کرے گا البتہ یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ حکومت پاکستان اور عوام پاکستان نے کورونا وائرس کے خلاف جو ہو سکتا تھا وہ کیا یعنی بیسیوں پریس کانفرنسز ، درجنوں پریس بریفنگز ، لاک ڈاون ، جزوی لاک ڈاون ، مکمل لاک ڈاون ، سمارٹ لاک ڈاون اور اب بغیر لاک ڈاون، پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹرینوں کی بندش اور اب دوبارہ چلانے کی تیاریاں ، سکولز ، کالجز ، یونیورسٹیز کی بندش ، تعلیمی پالیسی کا ابہام ، طلباء کی پرموشن ، عبادت گاہوں میں ایس او پیز بازاروں میں آزادی ، درباروں کی بندش درباریوں کی اجارہ داری، ٹائیگر فورس ، امداد ، احتیاط ، فاصلہ ، ماسک ، سنی ٹائزر ، دفعہ 144، جرمانے ، قرنطنیہ سنٹر ، آئسولیشن وارڈ ، ٹیسٹنگ لیبارٹریز ، وینٹی لیٹر وغیرہ وغیرہ یعنی ہم سے جو ہوسکتا تھا کر لیا اب ہم نے کچھ نہیں کرنا جو کرنا ہے کورونا نے کرنا ہے۔۔۔!!