سحر کے طلوع ہوتے ہی ہر سمت پھیلنے والا اجالا ایک نئی امید لے کر آتا ہے، ہزاروں لوگ اگر راہ عدم لیتے ہیں تو، لاکھوں بچوں کی دنیا میں آمد بھی ہوتی ہے، حالات کیسے بھی کیوں نہ ہوجائیں،جنگ و جدل ہو یا امن ہو، قدرتی آفات ہوں یا وبائی امراض ،وقت کی رفتار تھم نہیں سکتی اور یہی وقت کی خوبصورتی بھی ہے کہ وقت کبھی بھی ایک سا نہیں رہتا،
اس وقت عالمی سطح پر تاریخ کا بدترین وبائی مرض اپنی تباہ کاریاں پھیلاتا ہوا 80 لاکھ سے زائد انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، 4 لاکھ کے لگ بھگ لوگ اس کا شکار ہوکر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں،
یہ وباء ہر اعتبار سے اچھوتی نئی اور مہلک ثابت ہوئی بڑے بڑے عالمی طبی تحقیقاتی ادارے ہاتھ مل کر رہ گئے، عالمی ادارہ صحت نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور پوری دنیا دنیا کے تمام ممالک کو بروقت اطلاعات اور تکنیکی معاونت مسلسل فراہم کی جو کہ ابھی تک جاری و ساری ہے اور WHO کی ہدایات پر جن ممالک نے مکمل عملدرآمد کیا وہ کافی حد تک اسکی تباہی پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئے اس کی سب سے بہترین مثال نیوزیلینڈ ہے جس نے عالمی ادارہ صحت کی تمام ہدایات پر مکمل ایمانداری اور نیک نیتی سے عمل کیا اور ایک مثال قائم کر دی اور آخرکار 7 جون 2020 کو نیوزیلینڈ کا آخری کورونا متاثرہ مریض بھی مکمل صحتیاب ہوگیا ، پاکستان میں بھی مارچ 2020 میں یہ وبائی مرض سر اٹھا چکا تھا، مگر ہمارا تو باوا آدم ہی نرالا ہے، حکومت لاک ڈاؤن اور سمارٹ لاک ڈاؤن میں کنفیوژن کا شکار رہی صوبوں اور وفاق میں ہم آہنگی کا فقدان روز اول سے دیکھنے میں آیا،
اپوزیشن کا کردار بھی بہت تکلیف دہ رہا، اور جب ملک کے ذمہ داران کا یہ رویہ تھا تو عام آدمی نے تو اس مسئلے کو غیر سنجیدہ انداز میں لیا، اور دوسری طرف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے ساتھ ساتھ دیگر طبی ماہرین کی تنظیموں نے حکومت کو بار بار آگاہ کیا کہ اگر سخت ترین اقدامات نا اٹھائے گئے تو حالات پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا،
لیکن پی ایم اے کے تحفظات کو سیاسی مسئلہ کہہ کر مکمل نظر انداز کردیا گیا، عوام کا رد عمل یہ آیا کہ کورونا ایک ڈرامہ ہے اور جھوٹ ہے اور ڈاکٹر صاحبان خدانخواستہ بندے مار رہے ہیں،اس بد ترین جہالت کوئی نہیں ہو سکتی،” افسوس صد افسوس” کہ ہمارے ملک میں ہر اہم مسئلے کو سازش قرار دے دیا جاتا ہے پھر ایسے لوگوں کے نزدیک ایس او پیز کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ،
حال ہی میں عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو خبردار کیا کہ کورونا کا پاکستان میں پھیلاؤ تشویشناک ہے، اس صورت حال سے نمٹنے کا واحد حل مکمل اور سخت ترین لاک ڈاؤن ہے، جس کے جواب میں ڈاکٹر وفاقی ظفر مرزا معاون خصوصی برائے صحت کا حیران کن بیان آیا کہ عالمی ادارہ صحت کی رائے خاص اہمیت کی حامل نہیں ہے وہ بھی معیشت اور مالی حالات کا راگ الاپتے نظر آئے، تو عوام الناس سے مکمل ذمہ داری کے مظاہرے کا تقاضا معنی خیز نہیں ہے کیا،
عیدالفطر کے موقع پر لاک ڈاؤن کی نرمی کے بدترین اثرات رونماء ہوئے، اور اس وقت پاکستان میں کورونا کے متاثرین کی تعداد 125000 سے تجاوز کر چکی ہے 2000 ہزار سے ذائد قیمتی جانوں کا ضیاع ہوچکا ہے ، اور سب سے زیادہ تکلیف دہ بات ہماری صحت کے محافظ ڈاکٹرز بھی اس موزی وباء سے ہمارا دفاع کرتے ہوئے بیمار پڑنے لگے ہیں، اس وقت تک 40 کے قریب ڈاکٹرز شہادت کے رتبے پر فائز ہوچکے ہیں، مادر وطن انکی مقروض ہے، دوسری طرف ملک میں ایک نہایت بے ضمیر اور درندہ نما مافیا وہ طبقہ ہے جو کہ میڈیسن ڈسٹری بیوشن، مینیوفیکچرنگ اور امپورٹرز کے درمیان موجود ہے، جس کا کام یہ ہے کہ کس طرح سے اس وباء سے متعلق ادویات، آلات اور انجیکشنز کو کیسے مارکیٹ سے غائب کرنا ہے اور کس طرح سے اپنا منافع ہزاروں گنا بڑھانا ہے، کیوں کہ ان کا تو ملک الموت سے معاہدہ ہے کہ وہ جتنا بھی ذخیرہ اندوزی کرلیں ان کو تو موت آنی ہی نہیں ہے، یہی حالات بہت بڑے بڑے پرائیویٹ میڈیکل کمپلیکسز اور نجی ہسپتالوں کے ہیں، جو اس موذی وباء کی آڑ میں مجبور لوگوں سے تین سے چار گنا زیادہ چارج کر رہے ہیں، اس مافیا کو بھی لگتا ہے کہ وہ مافوق الفطرت ہیں اور ان کو دوام ہے شاید، مگر موت ان جیسوں کے لیے عبرت بن جایا کرتی ہے
” پروردگار عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ ” اور تمہارا رب بھولتا نہیں ہے "، اس ضمن میں ہیلتھ کیئر کمیشنز کی کارکردگی پر بہت سے سوالیہ نشان ہیں،
اس تمام صورتحال میں بہت سوال جنم لیتے ہیں جن کا جواب ملنا باقی ہیں جس میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ” اب آگے کیا کرنا ہے”
کیا اب بھی اس بڑے مسئلے پر قومی یکجہتی کا مظاہرہ ہوسکتا ہے یا نہیں، کیا ہم اس نازک وقت میں ایک باشعور اور ذمہ دار قوم ہونے کا مظاہرہ کر سکتے ہیں یا نہیں،کیا ہم اس موزی وباء کو شکست دینے کے لیے اپنا لائف سٹائل بدل سکتے ہیں کہ نہیں، اس وباء کا کو صرف اور صرف احتیاط سے شکست دے سکتے ہیں،احتیاط ہی واحد حل ہے، گھر پر رہنا ہسپتال میں رہنے سے بہتر ہے، ماسک پہننا وینٹیلیٹر پر رہنے سے بہتر ہے، کچھ عرصے معاشرتی دوری ہمیشہ کی دوری سے بہتر ہے، اہل وطن جاگ جائیں، جاگ جائیں جاگ جائیں جاگ جائیں، اپنے ذمہ داری خود اٹھائیں، پروردگار عالم وطن عزیز کا حامی و ناصر ہو اور ہم سب پر اپنا فضل فرمائے