انسان جب تخلیق کے مرحلے سے گزر کر دنیا کی گہما گہمی میں آنکھ کھولتا ہے تو سب سے پہلے محبت کے جذبے سے روشناس ہوتا ہے ۔باپ کا محبت بھرا بوسہ اس کی اس پیشانی پر ثبت ہوتا ہے جو رب کائنات کے حضور جھکنی ہوتی ہے ۔ماں کی گود کا لمس ‛گرماہٹ’ نرمی اور تحفظ اسے اس جذبے کی چاشنی سے آگاہ کرتی ہے ۔جب وہ پہلا قدم اٹھاتا ہے تو ماں اور باپ جیسے محبت بھرے رشتے اس کا سہارا بنتے ہیں۔جب وہ توتلی زبان میں رشتوں کو الفاظ کا پیراھن پہناتا ہے تب بھی وہ پہلے الفاظ محبت شناس ہستیوں کے ہوتے ہیں ۔گویا اس کی دنیا میں آمد ماں کے قدموں میں جنت اور باپ کے لیے خدا کی رضا سے موسوم ہو جاتی ہے۔رفتہ رفتہ اس کی نشوونما ہوتی ہے اور وہ معاشرتی رشتوں سے آگاہی حاصل کرتا ہے ۔
بہن بھائی ننھیال ددھیال جیسے خوبصورت رشتوں کی محبت اس کو جکڑنے لگتی ہے ۔مدرسے سے سکول اور سکول سے کالج و یونیورسٹی تک رشتوں کی شناخت اس کی تعمیر کرتی ہے اسے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔پھر جب وہ خود مختار ہونے لگتا ہے تو پچھلے رشتوں پر گرد کی ہلکی سی تہہ جمنے لگتی ہے۔ نئے رشتے ان پرانے ستونوں سے زیادہ اہمیت اختیار کرنے لگتے ہیں ۔وہ اب ان کی پروا کرتا ہے ۔اسے گرنے پہ بسم اللہ کہنے والی ماں اور اس کا ہاتھ پکڑ کر چلانے والا باپ بوجھ لگنے لگتا ہے ۔شاید وہ بہت آگے نکل جاتا ہے ۔
بات کافی سنجیدہ رخ اختیار کر چکی ہے ۔چلیں کچھ مزاح کا تڑکا لگاتے ہیں ۔جب سے سوشل میڈیا ہماری زندگیوں کا حصہ بنا ہے ۔اپنوں کے لیے ہمارے پاس وقت کی کمی کا رونا بھی زور وشور سے شروع ہوگیا ہے ۔اور محبت کا کال تو ایسا پڑا کہ ہر بندہ جمع بندی کا موسٹ دھوکے دار فقرہ ۔”مینوں کدے سچی محبت نئیں لبی”سچ پوچھیں تو اب اس جملے کو سن کر قہقہہ لگانے کو دل کرتا ۔او بھلیے لوکو اصلی اور سچی محبت تو وہ ہے جو تمہارے دنیا میں آتے ہی تمہیں مل گئی ۔یہ تو دھوکہ وفریب ہے جو دیے جا رہے اور کھائے جارہے ہو ۔قارئین اب جب کہ میں نصف صدی کا قصہ ہونے والی ہوں ۔معاشرتی رویوں پہ کافی غور وخوص کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ آپ جس محبت کی تلاش میں سرگرداں ہیں وہ آپ کے اپنے اندر ہے خود سے محبت کریں اور جس سے محبت کی جاتی ہے اس کی خوبیوں خامیوں کو سر پہ بٹھایا جاتا ۔محبوب کی گلی کا کتا بھی پیارا ہوتا تو کیا آپ سے جڑے رشتوں سے زیادہ محبت کا کون حقدار ہے۔سیدھی سی بات ہے جب آپ خود سے محبت کریں گے تو اپنی ذات سے جڑی ہر چیز سے محبت ہو گی ۔کتنا سمپل فنومنا ہے ناں ۔سوچیں ۔امید ہے یہ شکایت جلد ختم ہو جائے گی کہ ہمیں سچی محبت نہیں ملی۔
"خوشی”۔کیا چیز ہے یہ خوشی؟ذرا ماضی میں لوٹیں جب ہم دانشور نہیں تھے نا ہی ہمیں بڑی بڑی باتیں آتی تھیں نہ فلسفے ۔تب آگہی اور علم کی مقدار بھی کم تھی دولت اور آسائشات کا پیمانہ بھی نہیں تھا۔تب ہم کیسے خوش ہوتے تھے آئیں لوٹیں بیک ٹو پویلین۔آج جمعرات ہے کل چھٹی ہے ۔سکول سے واپسی چہرے مسرت سے کھلے ہوئے ہیں۔چہلیں ‘چھیڑ چھاڑ ‘قہقہے ‘مزہ ۔یہی خوشی ہے جو چہروں پہ رقم ہے ۔اب ذرا موازنہ کریں دور جدید سے ۔جہاں چہروں سے پچپن بھاری بھرکم بستوں نے چھینا ہوا ہے۔ تھکن ۔بیزاری۔ ہوم ورک ٹیسٹ کی ٹینشن نے چہروں کو کملا دیا ہے۔کہاں ہے خوشی؟تلاشیں
کل عید ہے ساری رات خوشی کے مارے نیند نہیں آرہی بار بار اٹھ کر نئے کپڑے ۔جوتے چوڑیاں اور دیگر لوازمات دیکھ دیکھ کر جی نہیں بھر رہا اور عیدی کا تصور تو دل کو گدگدا رہا ۔سویوں کی مٹھاس ،نماز عید اور پھر عیدی واہ کیا چارم ہے ۔اس وقت تو 5روپے کی آئس کریم میں بھی دنیا کی سیر کا مزہ آرہا ۔اور اب عید کا دن سونے کا دن ہے ۔اور اس سونے نے اسے سونا کر دیا۔
خوشیاں تو ہم نے خود کھو دیں۔
اس تحریر کو لکھنے کا مقصد خود شناسی کی طرف پہلا قدم ہے ۔شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔