آج بروز بدھ 3جون2020ء، صبح محترم جاویداختربھٹی نے فون کر کے بتایا کہ پروفیسرشوکت مغل انتقال کرگئے۔تعزیت مسنون کا مانوس ومامون جملہ زبان سے ادا کیا:’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘اورغم و اندوہ کی کیفیت میں افسردہ ہوکر سوچنے لگاکہ آج سے 36سال قبل ایک خوبرو،سرخ و سفید رنگت ،ہنستامسکراتا چہرہ ،لطیفے سناتا اور نصیحت آموز گفتگوکرتا شخص میری دکان میں داخل ہوا،وہ رسمی اور کام کاج کے لئے ہونے والی ملاقات ہمیشہ کے محبت بھرے تعلق میں تبدیل ہوگئی۔پھر یوں ہوا کہ روزانہ پروفیسر صاحب کالج سے فارغ ہوکر میری دکان پر تشریف لاتے ،گپ شپ ہوتی ،علمی ادبی اور تحقیقی موضوعات پر طویل بحثیں ہواکرتیں۔مجھے بھی اُن کا انتظاررہتا۔
سرائیکی زبان پر جنون کی حد تک تحقیق کرکے کتب پہ کتب لانے والے محسن سرائیکی۔ شوکت مغل کی کم وبیش 60کتابیں شائع ہوئی ہیں۔اُن میںسے ’’سرائیکی اکھان‘‘،’’ شوکت اللغات‘‘، ’’سرائیکی لغت‘‘ ، ’’کتاب کہانی‘‘، ’’دلی ڈھائی کوہ‘‘، ’’کوتے کنوا‘‘خاص ہیں۔ان کی ہرکتاب خاص کتاب ہے کیونکہ ہمارے سماج میں کتابیں کیسے تیار ہوتی ہیں اِس کام کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔میں گزشتہ 47سال سے اس پروفیشن سے تعلق رکھتا ہوں۔رازداری میرے پیشے کی روح ہے۔لہٰذا پروفیسر شوکت مغل کے کام پر توجہ کے ساتھ بات کرتے ہیں۔موصوف ومرحوم مصنف ومحقق تھے۔ایک دفعہ جب ان کی کتاب ’’کو تے کنوا‘‘تیاری کے مراحل میں تھی ، میں نے عرض کیا کہ :’’سر ! دیکھنا ایک دن آپ کے کام پر Phdہوگی۔چنانچہ وہ وقت آگیا کہ آپ پراور آپ کے کام پر تحقیقی مقالے لکھے جانے لگے۔آج جن کے نام کے ساتھ ’’مرحوم‘‘ لکھتے ہوئے ہاتھ کانپتاہے اور ایسے لگتا ہے کہ ابھی وہ آئیںگے ہنستے کھیلتے ہوئے مجھ سے نئی مطبوعات لے جائیں گے اور اپنے نئے کام پر تحقیقی عمل میں آنے والی مشکلات کا تذکرہ کریں گے۔ پروفیسرشوکت مغل صاحب مرحوم ، پروفیسرڈاکٹرانواراحمد، پروفیسرانورجمال،پروفیسرحسین سحر،پروفیسرڈاکٹرکرامت علی، پروفیسر حافظ اشفاق احمد، پروفیسرڈاکٹرفیاض حسین ہاشمی کے ہم عصراور کلاس فیلو تھے۔ایک بار کہنے لگے کہ جب ہم نے کالج جوائن کیا تو بڑی محنت سے اپنے اپنے موضوعات پر پڑھا،پڑھایا اور اپنے اپنے علمی میدان میں تحقیق کے کام کو بھی جاری رکھا۔آج ہمارے بچے اور ہمارے شاگرد وں کی ایک ٹیم تیارہے جو قریباًدو سے تین سو کی تعدادمیں موجود ہیں جو ملتان بالخصوص اور سرائیکی خطے کے دیگرتمام اضلاع کے بالعموم تعلیمی اداروں،کالجوں میں تدریسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
مرحوم کی کامیاب وکامران زندگی کہ آج بلہے شاہ کے اِس مصرعے کی سچی تصویر بن کر اﷲکی بارگاہ میں پہنچ گئے ہیں۔’’بلہے شاہ اَسی مرناں ناہیں گور پیا کوئی ہور‘‘پیپلزکالونی، ممتاز آباد ملتان کے رہائشی۔مغل اتاترک فیملی کے چشم چراغ،خاندانی وجاہت ، سرائیکی ثقافت اورملتانی روایات کے امین ، علم و عمل ،شرافت ونجابت میں بے مثل ومثال جناب شوکت مغل اب ہم میں نہیں رہے۔ان کی گھنٹوں گفتگو سن کر دلچسپی اور راحت کا سماں پیدا ہوجاتا تھا۔پردہ داری ،روادای اور شرافت ایسی کہ ایک بار کسی ڈگری ہولڈردانشور کے بارے میں نے عرض کیا کہ :’’سر! یہ شخص پروفیسرتو ہے،ڈاکٹربھی ہے کیا یہ کچھ پڑھا لکھا بھی ہے؟‘‘ہنس کر فرمانے لگے :یار! وہ ہمارا دوست ہے۔بس اتنا کافی ہے۔البتہ نئی لُغت میں ’’دانشور‘‘کے معانی تبدیل کرنے پڑیں گے۔
ابومیسون ﷲبخش